کرنل سینڈرز اور ہمارے محدود دائرے


ان چالیس سالوں میں صرف اتنا فرق پڑا ہے کہ اس کی کالی داڑھی روئی کی طرح سفید ریش میں تبدیل ہو چکی ہے ، سامنے کے دو دانت بھی ٹوٹ چکے ہیں۔ بات کرتے ہوئے یا جب وہ زور لگا کر نعرہ بلند کرتا ہے کہ ”چھولے لے لو“ ، ”مصالحے دار چھولے“ تو تلفظ چھولے کے بجائے ”تھولے“ ادا ہوتا ہے۔ وہ ہمیشہ سے لنگڑا کر چلتا تھا اور اسی وجہ سے اس کا نام ”منڈو“ مشہور ہو گیا۔ قصبے میں کوئی اس کے اصل نام سے واقف نہیں ہے۔ چھوٹے بڑے اسے منڈو کہہ کر پکارتے ہیں آج اس کی عمر تقریباً ساٹھ سال سے تجاوز کر چکی ہوگی! ان چالیس سالوں کے دوران میں جب کبھی بھی اپنے گاؤں آیا منڈو سے کہیں نہ کہیں ”مڈبھیڑ“ ہو جاتی ہے۔

کمال ”ریسپی“ ہے منڈو کی، مزے دار چٹپٹی کہ سواد آ جائے۔ جب سکول پڑھتے تھے اور گراونڈ میں دوستوں کے ساتھ کرکٹ کھیلتے تو خصوصی طور پر گھر سے جیب خرچ لے کر جاتے کہ وقفے کے دوران چھو لے خرید کر مزے سے کھائیں گے۔ وہ آج بھی، پرانے کپڑوں میں ملبوس، ایک تھال جس میں چھولے، ٹماٹر اور آلو سجے ہوتے ہیں، اسی تھال کے ایک حصے میں نمک، مرچ اور مصالحوں کی چھوٹی چھوٹی ڈبیاں رکھ کر قصبے کی گلیوں، محلوں، میدانوں اور سکولوں کے باہر ”تھولے لے لو“ کی آواز لگاتا ہے۔ شام کا اندھیرا ہونے تک وہ اپنی دیہاڑی پوری کر کے گھر چلا جاتا ہے اور اگلے روز کی تیاری شروع کر دیتا ہے۔ کم وبیش گزشتہ چالیس سال سے یہ اس کا معمول ہے، اس میں شاذ و نادر ہی کبھی ایک دو روزکا وقفہ آ یا ہو۔

ہم یہ کہانی یہاں روک کر حیران کر دینے والی ایک دوسری کہانی کی طرف آتے ہیں یہ بنیادی طور پر ایک ایسے شخص کی کتھا ہے جو اپنی زندگی میں صرف ایک بات سے واقف تھا، اس کی شناسائی، تعلق، واسطہ اور دوستی صرف اور صرف ایک واحد طاقت سے تھی اور وہ تھی ”ناکامی“ ! یہ شخص زندگی میں کوئی بھی کام کرتا شکست کھا جاتا، یہ ایک قدم آگے بڑھاتا اور دس قدم پیچھے چلا جاتا، یہ سونے کو ہاتھ لگاتا وہ مٹی کا ڈھیر بن جاتا، یہ ترقی کرنا چاہتا تھا لیکن ناکامی اس کے پاؤں کی زنجیر بن کر اسے پھر سے صفر کر دیتی یہ آدمی اس قدر اذیت ناک زندگی سے سر ٹکرا ٹکرا کر باسٹھ سال گزار دیتا ہے اور آخر کار اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ وہ دنیا کا ناکام ترین انسان ہے۔

لہذا اسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں! وہ خود کشی کا فیصلہ کرتا ہے۔ اس موقع پر جب وہ خود کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے اس کے ذہن میں ایک سوال ابھرتا ہے ”کہ کیا تم نے تمام عمر کوئی ایسا کام،فن کوئی ایسی مہارت نہیں حاصل کہ جسے استعمال کر کے ایک باوقار زندگی گزاری جا سکے؟“ اس لمحے، وہ خود کشی کا ارادہ ملتوی کر کے جیب میں پڑے چند ڈالر سے مصالحے اور چکن خریدتا ہے، اسے خاص طریقے سے پکاتا ہے اور اپنے محلے داروں میں فروخت کر دیتا ہے۔

وہ سب اس کی ”ریسیپی“ کی تعریف کرتے ہیں جس سے اس میں ہمت، حوصلہ اور جذبہ پیدا ہوتا ہے، وہ مزید محنت سے کام شروع کر دیتا ہے اور بزنس تیزرفتاری سے پھیلتا چلا جاتا ہے۔ جی ہاں یہ KFC کے مالک کرنل ہر لینڈسینڈرز کا ہی ذکر ہو رہا ہے۔ جس نے چند ڈالر سے کام شروع کیا اپنی محنت اور جانفشانی سے دنیا کی سب سے بڑی فوڈ چین بنا دی۔

آپ (کے ایف سی) کے بزنس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ یہ دنیا کے 135 ممالک میں 30000 ریسٹورنٹ کے ساتھ موجود ہے۔ 2021 میں کے ایف سی نے دنیا میں 31.3 ارب ڈالر کا بزنس کیا، اس فوڈ چین کے اندر 8 لاکھ ملازمین کام کرتے ہیں، جن سے (کے ایف سی) تقریباً تین اعشاریہ تین ارب ڈالر سالانہ خالص منافع حاصل کرتی ہے۔ ذرا غور کریں کہ کس طرح کرنل سینڈرز نے صرف چند ڈالر سے کام کا آغاز کیا، محنت، لگن اور ایمانداری سے بزنس پر توجہ دے کر فاسٹ فوڈ کی مارکیٹ میں انقلاب لے آئے، یہاں تک کہ دنیا کی ایک بہت بڑی بزنس امپائر کھڑی کردی۔

جس سے نہ صرف ان کی زندگی تبدیل ہو کر رہ گئی بلکہ ٹیکس اور ملازمتوں کی صورت میں اپنے ملک اور ہم وطنوں کے بھی کام آئے۔ آج، KFC دنیا میں فوڈ فیشن کی حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ یہ صرف ایک مثال نہیں ہے کسی بھی کامیاب بزنس مین کی زندگی کی شروعات مشکلات سے ہی ہوتی ہے، مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، رکاوٹیں بھی جھیلنی پڑتی ہیں لیکن ترقی کی لگن، آگے بڑھنے کا جذبہ، توانائی کا کام دیتا ہے، جس کے نتیجے میں انسان اپنی زندگی بدل کر رکھ دیتا ہے۔

علی بابا، واٹس ایپ، ایمیزون جیسی سینکڑوں امثال پیش کی جا سکتی ہیں۔ اور ہم وہی کوہلو کے بیل، جدت پسندی سے محروم، جدید معلومات اور ذرائع کو استعمال کرنے کا سوچتے ہوئے بھی ہم تھک جاتے ہیں، اکتا جاتے ہیں جبکہ آج ٹیکنالوجی کی طاقت نے تجارت کے مطالب ہی تبدیل کر کے رکھ دیے ہیں۔ مثلاً، کرونا کی پہلی شدید لہر کے دوران جب پوری دنیا کے کاروبار بند تھے، بے پناہ بے روزگاری پھیل گئی تھی، دکانوں، ملوں اور فیکٹریوں کو تالے لگے تھے، لیکن وہاں ایمیزون، علی بابا اور نیٹ فلیکس جیسے سیکڑوں کاروباروں نے آمدن اور منافع کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ کر رکھ دیے تھے۔

اگر کرنل سینڈرز بھی یہ سوچ کر کام کرتا کہ اپنی کمیونٹی اور محلے داروں میں چکن فروخت کرنے کے بعد میری گزر اوقات تو بہتر ہو ہی جاتی ہے، تمام ضروریات بھی کما حقہ پوری ہو رہی ہیں اور نسبتاً زیادہ محنت مشقت نہیں کرنی پڑتی، مشکلات بھی نہیں اٹھانی پڑتی تو بزنس کو بڑا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ پھر یقیناً آج دنیا میں KFC نام کے کسی ریسٹورنٹ کا وجود نہ ہوتا۔

دوسری طرف ہم سارے ”منڈو“ پورے دن زبردست محنت و مشقت کے دوران وہی بوسیدہ کپڑے پہنے، سر پر چھولوں سے بھرا تھال، اس تھال کے ایک کونے میں نمک، مرچ، مصالحہ کی چھوٹی چھوٹی ڈبیاں لے کر قصبوں اور شہروں کے محلوں گلیوں، میدانوں اور اسکولوں کے باہر ”تھولے لے لو“ کی آوازیں لگاتے شام ڈھلے اپنے گھروں کو واپس چلے جاتے ہیں اور اگلے روز کی دیہاڑی کی تیاری شروع کر دیتے ہیں۔ ہماری زندگی کا یہ دائرہ کئی دہائیوں بلکہ صدیوں سے بڑا ہو کر ہی نہیں دے رہا!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments