سرکاری ملازمین کیوں احتجاج کررہے ہیں؟



پنجاب کے 9 لاکھ سرکاری ملازمین نگران حکومت کے بجٹ پیش کرنے کے بعد سے ”آل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس اگیگا ’“ کے جھنڈے تلے احتجاج پر ہیں جن میں مرد و خواتین دونوں شامل ہیں۔ مورخہ دس جولائی سے لاہور سیکرٹریٹ کے سامنے مختلف شعبہ جات کے ملازمین جمع ہیں اور اپنے حقوق کے حصول کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔ یہ حقوق ہیں کیا اور سرکاری ملازمین کیوں سڑکوں پر ہیں اس کی تفصیل بتانے سے قبل میں اس بات کا جائزہ لینا ضروری سمجھتی ہوں کہ سوشل میڈیا پر ایک طبقہ اس کے خلاف کیوں ہے؟

کیوں ان کا یہ وتیرہ بن چکا ہے کہ وہ اپنی رائے کو حرف آخر سمجھتے ہوئے سرکاری ملازمین کو کٹہرے میں کھڑا رکھتے ہیں؟ کبھی انہیں چھٹیوں پر اعتراض ہوتا ہے تو کبھی پنشن پر جبکہ کچھ حضرات تو سرکاری ملازمت حاصل کرنے والوں کو یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ ”تکہ لگ گیا بھئی، اس سال بڑے لوگوں کو سرکاری ملازمت ملی ہر کسی کی ہی نوکری لگ گئی تھی“ اگر ایسا سب کے ساتھ ہوتا ہے تو آپ کے ساتھ کیوں نہیں ہوا؟ کیوں آپ کا تکہ نہیں لگا؟ کیوں آپ بیٹھے رہ گئے؟

اصل بات یہ ہے کہ سرکاری ملازمت پاکستان میں گریجویٹ ہونے والے ہر نوجوان کا خواب ہے بہت سے ایسے خوش قسمت ہیں جو اس خواب کو تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب ہوئے اپنی پسندیدہ نہ سہی لیکن سرکاری ملازمت کے حقدار ٹھہرے جبکہ بہت سے لوگ ابھی بھی اس کوشش میں مصروف عمل ہیں۔ اس کا ثبوت ہر سرکاری محکمے کی 1، 1 آسامی پر درخواست دینے والے ہزاروں امیدواران کی تعداد ہے سرکاری ملازمت کا حصول اتنا آسان نہیں درخواست دینے سے تقرری تک کے عمل میں قریبا سات سے آٹھ ماہ کا عرصہ بھی لگ جاتا ہے اس کے بعد تنخواہ جاری کروانا ایک الگ سردردی ہے۔

خیر اب یہاں آ کر سوشل میڈیا اور عام زندگی میں بھی دو طبقات ہیں ایک وہ جو سرکاری ملازمین ہیں خواہ وہ کسی بھی شعبے سے ہوں اور دوسرے وہ لوگ جو بار بار کوشش کرنے کے باوجود سرکاری ملازمت کے حصول میں ناکام ٹھہرے۔ ایسے لوگ ہمیشہ سے اور آج کل خاص طور پر سرکاری ملازمین کو بے جا تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں ان کا موقف ہے کہ چونکہ سرکاری ملازمین اپنے فرائض منصبی ایمانداری سے ادا نہیں کرتے اس لیے انہیں دی جانے والی مراعات پہلے ہی بہت زیادہ ہیں ان کو تنخواہ یا پنشن بڑھانے کے لیے احتجاج کرنے یا ہڑتال کرنے کا کوئی حق نہیں۔

میں ان سوشل میڈیا فلسفیوں سے یہ سوال کرنا چاہوں گی کہ کیا آپ نے کبھی سرکاری دفاتر میں اپنے تعلقات کا استعمال کر کے کوئی کام نہیں نکلوایا؟ کیا آپ نے کبھی سرکاری دفاتر میں اپنے کام پہلے کروانے کے لیے رشوت یا سفارش کا سہارا نہیں لیا؟ کیا کبھی آپ نے اپنے خاندان یا حلقہ احباب میں موجود قابل لوگوں کے لیے یہ نہیں چاہا کہ وہ بھی کسی سرکاری ملازمت سے منسلک ہو جائیں خواہ کسی نچلے درجے میں ہی سہی یا بذات خود سرکاری ملازمت کے حصول کے لیے کوشش نہیں کی؟

اپنے علاقے کے ہیڈماسٹر، یونین کونسل افسر ، ڈاکٹرز، ہیلتھ ورکرز، ٹیچرز، کانسٹیبل، تھانیدار ان کو اچھوت سمجھتے ہیں؟ کیا آپ ان لوگوں سے تعلقات نہیں رکھتے؟ تو جب یہ لوگ اپنے حق کے لیے سڑکوں پر نکلتے ہیں تو بنا حقائق جانے آپ ان کے مخالف کیوں ہو جاتے ہیں؟ کیا اپنا اور اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کا سوچنا ان کا حق نہیں؟ کیا آپ درجہ اول تا درجہ سولہ تک ملازمین کے پیشہ ورانہ فرائض اور مجبوریوں سے واقف ہیں جو آپ کو انہیں دی گئی مراعات کا بخوبی علم ہے؟

اگر نہیں تو آپ کون ہوتے ہیں سرکاری ملازمین کے خلاف اتنے سخت الفاظ استعمال کرنے والے؟ ہر سرکاری ادارے میں رشوت اور سفارش نہیں ہے اور جہاں جہاں بھی ہے اسے بڑھاوا دینے والے آپ جیسے ہی لوگ ہیں جو بل جمع کروانے یا ڈاکٹر سے ملنے کے لیے بھی اپنی باری کا انتظار کرنا پسند نہیں کرتے۔ جو اپنے تعلقات کے باعث ہر کام گھر بیٹھے کروانا چاہتے ہیں۔ اگر آج آپ کو بھی بقول آپ کے اسی نیچ اور گھٹیا سرکاری نظام کا حصہ بننے کا موقعہ ملے تو آپ بھی بے حد خوشی خوشی قبول کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments