پاکستان کا ہر وزیر اعظم چور کیوں نکلتا ہے؟


عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں تحائف کی آمدنی گوشواروں میں ظاہر نہ کرنے پر اسلام آباد کی عدالت نے ’بددیانت اور جھوٹا‘ قرار دے کر نہ صرف پانچ سال کے لئے قومی اسمبلی کارکن بننے سے نا اہل کیا بلکہ تین سال کی سزا دے کر جیل بھی بھیج دیا۔ اس سے پہلے سابق وزیر اعظم نواز شریف ایسے ہی لایعنی الزامات میں قید کی سزا کاٹ چکے ہیں۔ سابق وزرائے اعلیٰ اور اور وزرا کو بدعنوانی کے الزام میں قید کرنے اور وقت بدلنے پر رہائی ملنے کے درجنوں واقعات نوٹ کیے جا سکتے ہیں۔ پوچھنا چاہیے کہ پاکستان کا ہر وزیر اعظم اقتدار سے محروم ہوتے ہی چور کیوں نکلتا ہے؟

اسلام آباد ہائی کورٹ نے اگرچہ توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی سزا معطل کی ہے لیکن وہ اب سائفر کیس میں مقید ہیں۔ تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹرائل کورٹ کے فیصلہ کو غلط قرار نہیں دیا کیوں کہ ابھی اس سزا کے خلاف باقاعدہ اپیل عدالت عالیہ میں فائل نہیں کی گئی۔ یہ صورت حال دو باتیں واضح کرتی ہے۔ ایک یہ عمران خان قانون کی نظر میں بدستور ’بے ایمان‘ ہیں اور دوئم یہ کہ اگر وہ توشہ خانہ کیس میں بری ہو بھی ہوجائیں تو بھی موجودہ حالات میں انہیں بہر صورت جیل میں بند رکھنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ رانا ثنا اللہ جیسے لوگ اس کا برملا اظہار کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ جو سیاسی لیڈر ملک میں مفاہمت پیدا کرنے اور محاذ آرائی ختم کرنے کی باتیں کرتے ہیں، وہ بھی عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے خلاف قانونی ہراسانی کو جائز سمجھتے ہیں کیوں کہ ان کی پارٹیوں کو اس کا سیاسی فائدہ پہنچنے کی امید ہے۔

آج لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ اور تحریک انصاف کے صدر پرویز الہیٰ کو فوری رہا کرنے اور کسی بھی دوسرے مقدمے میں گرفتار نہ کرنے کا سخت حکم جاری کیا۔ کئی گھنٹے ہائی کورٹ کی عمارت میں گزارنے کے بعد پرویز الہی ہائی کورٹ کی اس یقین دہانی کے بعد عدالت کی عمارت سے باہر نکلے کہ پولیس انہیں بحفاظت ان کے گھر پہنچا دے گی۔ لیکن اس کی نوبت ہی نہیں آئی بلکہ تھوڑے ہی فاصلے پر قانون کے بعض نقاب پوش محافظوں نے پولیس کا قافلہ رکوا کر پرویز الہیٰ کو دوبارہ گرفتار کر لیا اور انہیں اسلام آباد لے گئے۔ رات گئے تک واضح نہیں ہوسکا تھا کہ اب انہیں کس الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔ اور نہ ہی اس بات کا کوئی عذر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہائی کورٹ کے دو ٹوک اور واضح حکم کے باوجود پنجاب ہی کی حدود میں پرویز الہیٰ کو کیسے گرفتار کیا جاسکتا ہے؟ اور اس لاقانونیت کا کون ذمہ دار ہے۔

عمران خان ہوں، یا پرویز الہیٰ، شاہ محمود قریشی اور تحریک انصاف کے دیگر رہنما، ان کے خلاف مقدمات اور مسلسل قید میں رکھنے کے عوامل سیاسی ہیں۔ ان لوگوں کو اگرچہ مختلف مقدموں کے بہانے یا نقص امن کی شقات کے تحت گرفتار کیا جاتا ہے لیکن درحقیقت یہ سیاسی سراسیمگی پیدا کرنے کا دہائیوں پرانا طریقہ ہے جس میں ایک خاص وقت میں کسی ایک سیاسی پارٹی کے لیڈروں کی پکڑ دھکڑ کی جاتی ہے اور انہیں یا تو دباؤ میں سیاسی موقف تبدیل کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے یا پھر سیاسی منظر نامہ سے زبردستی باہر رکھنے کی کوشش ہوتی ہے۔ پاکستان میں یہ طریقہ اتنے تواتر سے دہرایا جا چکا ہے کہ اب اگر کسی لیڈر کو واقعی کسی حقیقی جرم کی پاداش میں بھی گرفتار کیا جائے تو بھی یہی گمان گزرتا ہے کہ یہ سیاسی انتقام ہی کی کوئی قسم ہے۔ یادش بخیر پانچ سال پہلے نواز شریف اور ان کے ساتھی اسی قسم کی آزمائش سے گزر رہے تھے، اب عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی باری ہے۔ اس سے پہلے آصف زرداری طویل عرصہ تک ایسے مقدمات میں سال ہا سال تک جیل میں بند رہے جو بے بنیاد تھے اور جنہیں کسی عدالت میں ثابت نہیں کیا جا سکا۔

اس وقت ہم صرف ان سیاسی لیڈروں و پارٹیوں کا حوالہ دے رہے ہیں جو پرویز مشرف کی آمریت کے بعد ملک میں نام نہاد جمہوریت کے دوسرے دورانیہ میں سیاسی سازشوں کا شکار ہوئے اور طاقت ور حلقوں کی پسند و ناپسند کی وجہ سے کسی کو تاج پہنایا گیا اور کسی کو جیل بھیج دیا گیا۔ البتہ سیاسی لیڈروں اور پارٹیوں کے خلاف ریاستی زور زبردستی کا یہ سلسلہ قیام پاکستان کے فوری بعد ہی شروع ہو گیا تھا۔ کبھی ایک گورنر جنرل کے حکم پر قانون ساز اسمبلی توڑ دی گئی اور نظریہ ضرورت نے اسے جائز فیصلہ قرار دیا، کبھی ایبڈو سے سیاست دانوں کو گھروں میں بیٹھنے پر مجبور کیا گیا اور سرکشی پر آمادہ لوگوں کو نشان عبرت بنایا گیا۔ ضیا الحق کے تاریک دور میں تو ایک مقبول لیڈر اور وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہنے والے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا دے دی گئی۔ اس جرم میں ملک کی عدالتوں نے ایک فوجی آمر کا انتہائی بے شرمی سے ساتھ دیا اور مقبول عوامی لیڈر کو محض اپنا عہدہ بچانے کے لیے تختہ دار پر چڑھانے میں کوئی شرمندگی یا خوف محسوس نہیں کیا گیا۔

ملک میں سیاسی لیڈروں کی چوری اور بے ایمانی کا سراغ لگانے یا خاتمہ کرنے کے نام پر چار بار فوجی حکومتیں قائم کی گئیں اور ملک کے آئینی جمہوری عمل کو سبو تاژ کیا گیا۔ لیکن تاریخ کے اوراق میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے کہ ایسا دعویٰ کرنے والا ہر فوجی لیڈر بعد ازاں انہی سیاسی لیڈروں کو ساتھ ملانے پر مجبور ہوا جنہیں ملک کے لئے وبال قرار دے کر ملک میں لاقانونیت کا دور مسلط کیا گیا تھا۔ یعنی آئین معطل یا منسوخ کر کے ’مارشل لا‘ نافذ کیا گیا۔ یوں تو مارشل لا اب قومی شعور میں یوں نقش ہو گیا ہے کہ اسے کسی دوسرے طریقے سے سمجھانے کی چنداں ضرورت نہیں ہے لیکن سادہ الفاظ میں اسے جنگی قانون اور بہتر طور سے سمجھنے کے لئے ’جنگل کا قانون‘ کہا جاسکتا ہے۔ یعنی ایک ایسا نظام جس میں ایک فوجی جنرل کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ قانون کا درجہ رکھتا ہو۔ مارشل لا نافذ کرنے والے ہر فوجی جنرل نے بعد میں عدالتوں سے اپنے اقدام کو جائز قرار دلوایا۔ ان تمام فیصلوں میں عدلیہ کی بے چارگی اور ججوں کی مظلومیت کا تماشا کیا جاسکتا ہے۔

اسی لئے عمران خان نے جب نواز شریف کے خلاف سیاسی جد و جہد کا آغاز کرتے ہوئے کرپشن کو اہم ترین نعرہ بنایا اور ان کے حامیوں نے سیاسی مخالفین کی بدعنوانی کے قصے عام کرنے کی مہم کا آغاز کیا تب بھی یہی عرض کیا گیا تھا کہ نہ یہ نعرہ عمران خان کی ایجاد ہے اور نہ ہی سیاسی کرپشن کا الزام کوئی نیا ہے۔ یہ کام تو ملک میں جمہوریت کا گلا گھونٹنے کے لئے قیام پاکستان کے فوری بعد ہی شروع ہو گیا تھا۔ اس لیے کم از کم سیاست دانوں کو ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہوئے کوئی دوسرا عذر تراشنا چاہیے۔ کرپشن کے نام پر سیاسی لیڈروں کو معتوب کرنے کا نظریہ ایجنسیوں کی ایجاد تھا اور وہی سیاست دانوں کی خفیہ بات چیت یا معاملات کا ریکارڈ فائلوں میں محفوظ کر کے انہیں دباؤ میں لانے کا انتظام کرنے میں مشغول رہی ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ہر دور میں اقتدار کی ہوس میں سیاست دانوں نے اس معاملہ میں اسٹبلشمنٹ کا آلہ کار بننے کو ترجیح دی اور یہ سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ وقت بدلنے کے ساتھ ہی، انہیں خود بھی ایسے ہی الزامات کا سامنا ہو گا۔ عمران خان کی جیل سے آنے والی ویڈیو اسی عاقبت نا اندیشی کی گواہی دے رہی ہے۔

اس سے بڑا المیہ کیا ہو گا کہ جو شخص پاکستان کے سب سیاست دانوں کو چور لٹیرے کہہ کر ان کا راستہ روکنے کا دعویٰ کرتا تھا اور بتاتا تھا کہ ملک میں ایسا شفاف نظام عدل قائم ہو گا جس میں کسی بدعنوان کے لئے کوئی جگہ نہیں ہوگی۔ ہر شخص کو خواہ وہ کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا اور اسے اس کے جرم کی سخت سزا دلوائی جائے گی۔ اب وہی شخص خود بدعنوانی کے الزام میں سزا پا چکا ہے اور ابھی انہیں کرپشن کے کئی دوسرے معاملات کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ جو لوگ تحریک انصاف کے دور میں اسی قسم کے الزامات میں جیلوں میں بند تھے یا ملک سے فرار ہونے پر مجبور ہوئے تھے، وہ بھی اب عمران خان پر چوری کی پھبتی کس کر انہیں بدستور جیل کے اندر ہی دیکھنا چاہتے ہیں کیوں کہ عمران خان کی عوامی مقبولیت کا سیاسی مقابلہ مشکل دکھائی دینے لگا ہے۔ اس مشکل سے نکلنے کا آسان طریقہ یہی ہے کہ تحریک انصاف کی کمر توڑی جائے اور اس کے لیڈروں کو قید میں رکھا جائے۔

ان الزامات کی جعل سازی کا سب سے بڑا ثبوت یہ حقیقت ہے کہ ہر دور میں سیاست دانوں کی چوریاں پکڑ کر انہیں سزا دینے اور نا اہل کرنے کا سلسلہ تواتر سے جاری رہا ہے لیکن ملک میں آئین توڑنے والے یا اہم عہدوں پر فائز ہو کر قومی دولت لوٹ کر بیرون ملک اثاثے اکٹھا کرنے والے جرنیلوں یا سرکاری افسروں کی گرفت نہیں ہو سکی۔ بلکہ ان کی پرسش کی خواہش کا اظہار بھی دبے لفظوں میں ڈر ڈر کر کیا جاتا ہے تاکہ ان پر کسی ’محب وطن سپاہی‘ کی توہین کا الزام عائد نہ ہو جائے۔ اس حوالے سے پرویز مشرف کی مثال سب کے سامنے ہے۔ خصوصی عدالت سے آئین شکنی کے الزام میں سزا پانے کے بعد بھی انہیں کبھی ’مجرم‘ نہیں سمجھا گیا۔ بیرون ملک انتقال کرنے کے باوجود پورے فوجی اعزاز کے ساتھ ان کی تدفین ہوئی۔

اس صورت حال کی ذمہ داری بھی بنیادی طور پر سیاست دانوں پر ہی عائد ہوتی ہے۔ اقتدار کی دوڑ میں آگے بڑھتے ہوئے وہ اصول، جمہوریت یا انصاف کا خون کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ آج ایک بار پھر ملک کا ایک سابق وزیر اعظم سینکڑوں مقدمات کا سامنا کر رہا ہے اور سیاسی مخالفین اس کے ساتھ اظہار یک جہتی کی بجائے، اسے اپنے لئے سیاسی حیات کا پیغام سمجھ رہے ہیں۔ حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ اس ملک میں جمہوری انصاف کی بجائے لاقانونیت کا راج ہے اور اقتدار سے محروم ہونے کے بعد ہر وزیر اعظم چور کہلاتا ہے۔ کبھی کسی نے یہ سوچنے کی زحمت کی ہے کہ جس ملک کا ہر وزیر اعظم بالآخر چور نکلے گا، اقوام عالم میں اس کی کیا عزت کی جائے گی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2777 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments