نواز شریف وطن واپسی کے لئے تیار


بالآخر میاں نواز شریف نے چار سالہ ”خود ساختہ“ جلاوطنی ختم کر کے 21 اکتوبر 2023 ء کو لاہور پہنچنے کا اعلان کر دیا پچھلے کئی ماہ سے ان کی وطن واپسی کی تاریخی دی جا رہی تھیں لیکن بار بار ان تواریخ میں تبدیلی کی جا رہی تھی لیکن پہلی بار مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے لندن میں مسلم لیگ (ن) کے اعلی سطح کے اجلاس کے بعد نواز شریف کی واپسی کے شیڈول کا اعلان کر دیا ہے۔ نواز شریف کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں راولپنڈی سے مسلم لیگی رہنما سینیٹر چوہدری تنویر خان نے اسلام آباد ائرپورٹ پر استقبال کرنے کی تجویز پیش کی اور کہا کہ ”میں لاکھوں لوگوں کو اسلام آباد ائرپورٹ تک لانے اور جلوس کو لاہور تک پہنچانے کی ذمہ داری قبول کرنے کے لئے تیار ہوں“ لیکن اکثریت نے لاہور کو مرکزی مقام قرار دے کر وہاں استقبال کرنے کے حق میں رائے دی اگرچہ نواز شریف کو شدید علالت کے باعث بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی لیکن جب وہ لندن رک گئے تو پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور کارکنوں نے ان کی علالت کا خوب مذاق اڑایا پی ٹی آئی کی طرف سے طرح طرح کی طعن و تشنیع کی گئی

اب جب کہ نواز شریف نے وطن واپسی کا فیصلہ کر لیا ہے۔ سیاسی حلقوں بالخصوص پی ٹی آئی کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی ہے۔ اب پی ٹی کی طرف سے ”لیول پلیئنگ فیلڈ“ فراہمی کا تقاضا کیا جانے لگا ہے۔ عمران جیل میں جب کہ نواز شریف کی واپسی شاندار استقبال کی تیاریاں کی جا رہی ہیں لیکن وہ اس بات کا بھلا بیٹھتے ہیں کہ 2018 میں نواز شریف کو جیل میں ڈال کر ہی ”عمران خان پراجیکٹ“ کو آگے بڑھا گیا تھا۔ اب نواز شریف واپس آرہے ہیں تو لیول پلیئنگ فیلڈ فراہم کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ بلاول بھٹو زرداری بھی لیول پلیئنگ فیلڈ کی عدم فراہم کا شکوہ کیا ہے۔ شاید اسی موقع کے لئے مرزا سلامت علی دبیر کا یہ شعر یاد آ رہا ہے۔

؂ کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے
رن ایک طرف چرخ کہن کانپ رہا ہے

نواز شریف پچھلے کئی ماہ سے عدالتی منظر کی تبدیلی کا انتظار کر رہے تھے کیونکہ ان ہی عدالتوں میں بیٹھے ”انصافی“ ججوں نے انہیں نہ صرف ملکی سیاست سے آؤٹ کر دیا تھا بلکہ ان کے ماتھے پر ”بد عنوانی“ کا بد نما دھبہ لگا دیا ہے اور گلی گلی کوچہ کوچہ ان کے خلاف ”چور چور“ کے نعرے لگوائے گئے لیکن تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے۔ نواز شریف کے خلاف چور چور کے نعرے لگانے والے خود ان ہی نعروں کی گونج میں جیل کی ہوا کھا رہے ہیں۔

پاکستان کی عدالتی تاریخ کا بدترین دور اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے۔ فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس آف پاکستان بنتے ہی عوام ہوا کا تازہ جھونکا محسوس کر رہے ہیں۔ سردست نواز شریف ثاقب نثار کی ”عدالتی حکمرانی“ کے سزا یافتہ ہے۔ ان کو جن حالات میں سزا دی گئی وہ احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی اس وڈیو میں موجود ہے جس میں مسلم لیگی رہنما ناصر بٹ نے ان سے سچ اگلوایا ہے۔ ثاقب نثار سے لے کر عمر عطا بندیال تک جس طرح نواز شریف اور ان کی پارٹی کے دیگر رہنماؤں کو عدالتوں نے تگنی کا ناچ نچایا اس کی سیاسی تاریخ میں مثال نہیں ملتی مسلم لیگی لیڈر نیب ہاتھوں مہینوں جیلوں سڑتے رہے جن کے خلاف کوئی مواد نہ ملا ان پر منشیات ڈال دی گئی بہر حال عمران دور میں مسلم لیگیوں کو انصاف تو نہ ملا البتہ ان سے جیلیں آباد کی گئیں پی ٹی آئی کے دور حکومت میں نواز شریف چند دنوں کے لئے بیرون ملک جانے کی اجازت تو مل گئی تھی جب نواز شریف مقررہ تاریخ میں واپس نہ آئے تو ان کے خلاف طرح طرح کا پراپیگنڈا کیا گیا لیکن نواز شریف کا دل تو پاکستان میں اٹکا ہوا تھا۔

ان کی پاکستانیت کون ان سے چھین سکتا ہے۔ میرا ان سے براہ راست اور بالواسطہ فون پر رابطہ رہا ان کے پیغامات موصول ہوتے رہے ہیں۔ میں نے ان کو پاکستان بارے جتنا مضطرب پایا شاید ہی کسی اور پاکستان کی زبوں حالی پر اتنا پریشان دیکھا ہو گا۔ ان کو اس بات کا افسوس ہے۔ انہوں نے اچھا بھلا پاکستان چھوڑا ہے۔ عمران خان پراجیکٹ کے خالقوں نے اسے کہاں پہنچا دیا نواز شریف نے پرویز مشرف کی جیل کاٹی اور عمران خان کے جبر ٍ میں بھی قید کی صعوبتیں برداشت کیں پرویز مشرف کے دور میں جلا وطن کیے گئے تو عمران خان نے بھی ان کو بیرون ملک علاج کرانے کے لئے ”دیس نکالا“ دے دیا اب نواز شریف نے خود ساختہ جلاوطنی ختم کر کے ملک کی مین سٹریم میں دوبارہ شامل ہونے کی خواہش لے کر 1 2 اکتوبر 2023 ء کو داتا کی نگری میں قدم رکھیں گے جب نواز شریف نے خود ساختہ جلاوطنی اختیار کی اس وقت مسلم لیگ (ن) ”ووٹ کو عزت دو“ کے بیانیہ کی وجہ سے مقبول ترین جماعت تصور کی جاتی تھی۔ ہر ضمنی انتخاب میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہی تھی۔ مسلم لیگ (ن) کا ٹکٹ کامیابی کی علامت سمجھا جاتا تھا لیکن جب 10 اپریل 2022 ء کو عمران خان کو ”ووٹ آؤٹ“ کیا گیا تو شہباز شریف حکومت دنوں میں عمران خان حکومت کی بچھائی سرنگوں سے لہو لہان ہو گئی لندن سے ”معاشی ٹارزن“ کی واپسی کے باوجود ملکی معیشت سنبھل نہ سکی سالہاسال حکومتیں کرنے کا تجربہ رکھنے کے دعوے داروں پاکستان کو ڈیفالٹ ہونے سے بچا تو لیا لیکن پاکستان کے غریب عوام کو مہنگائی کے سمند میں ڈبو دیا عمران کی حکومت اپنے وقت کی غیر مقبول جماعت تھی لیکن مہنگائی کے جن نے اس کی نہ صرف مقبولیت بحال کر دی بلکہ وہ پی ڈی ایم کی 12، 13 جماعتوں کو کچھ سمجھتے ہی نہیں تھے اور پھر وہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی آنکھیں دکھانے لگے اور پھر عوامی طاقت سے انقلاب برپا کرنے کے لئے فوجی تنصیبات پر چڑھ دوڑے ”ناکام انقلاب“ نے انہیں جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا نواز شریف کو دی گئی سزا موجود ہے۔

انہیں پاکستان واپسی پر عدالت کے سامنے سرنڈر کرنا پڑے گا۔ اب عدالت انہیں جیل بھجواتی ہے جس پھر ضمانت دیتی ہے۔ اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہے البتہ قرائن بتاتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ ان کی واپسی کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالے گی۔ نواز شریف نے طاقت ور حلقوں سے اس بات کا تقاضا کیا ہے کہ ان کو اقتدار سے کوئی سروکار نہیں لیکن ان کا وقار بحال کر دیا جائے نواز شریف ایک نئے بیانیہ کے ساتھ واپس آرہے ہیں جب کہ پلوں کے نیچے دریاؤں کا بڑا پانی بہہ چکا ہے۔

ان کی جماعت شکست خوردگی کے خوف کی وجہ سے ”نیم خوابی“ کا شکار ہے۔ مسلم لیگ (ن) جسے اس بات کا زعم تھا کہ وہ ملک کی مقبول جماعت ہے۔ شہباز شریف کی 16 ماہ کی حکمرانی غیر مقبول بنا دیا ہے۔ اب آخری امید نواز شریف سے وابستہ ہے۔ ان کی وطن واپسی سے یقیناً مسلم لیگ (ن) کے تن مردہ میں جان پڑ جائے گی لیکن اس کے لئے میاں صاحب کو پارٹی کے غیر فعال لوگوں کا بوجھ اتار کر نوجوان خون کو پارٹی میں موثر کردار ادا کرنے کے مواقع فراہم کرنا ہوں گے۔ مہنگائی اور ٹیکسوں بوجھ تلے دبے عوام ریلیف دینا ہو گا۔ مسلم لیگ (ن) کی بہتر انتخابی حکمت عملی سے میاں نواز شریف چوتھی بار حکومت بنا سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments