نواز شریف اور اسٹیبلشمنٹ: سابق وزیر اعظم کی پاکستان واپسی کیا ’مفاہمت‘ کا نتیجہ ہے؟

عمردراز ننگیانہ - بی بی سی اردو، لاہور


نواز شریف
یہ منظر جولائی سنہ 2018 کا ہے۔ پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز لندن سے پاکستان کے لیے روانہ ہوئے ہیں۔ پاکستان میں ایک احتساب عدالت نے ایون فیلڈ کرپشن کیس میں ان کو 10 برس اور سات برس کی قید سنائی ہے۔

نواز شریف کی اہلیہ کلثوم نواز لندن ہی میں ہسپتال کے بستر پر کینسر سے جنگ لڑ رہی ہیں۔ ادھر پاکستان میں عام انتخابات کا وقت ہے۔ اسلام آباد اور صوبوں میں نگراں حکومتیں قائم ہیں۔ عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف انتخابات کی تیاری کر رہے ہیں۔

نواز شریف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کہہ رہی ہے کہ ’ان کی جماعت کے لوگوں سے زبردستی وفاداریاں تبدیل کروائی جا رہی ہیں۔ ان کے کارکنوں کو جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے۔‘ ملک میں ن لیگ اور اس کی سیاست کے حوالے سے کئی سوال گردش کر رہے ہیں۔

کیا نواز شریف واپس پاکستان آئیں گے؟ اگر وہ نہیں آتے تو ان کی جماعت کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا؟ اور اگر وہ آتے ہیں تو ان کے ساتھ کیا ہو گا؟ کیا ان کی واپسی پاکستان میں کچھ بدلے گی؟

پہلا منظر

پہلے سوال کا جواب جلد مل جاتا ہے۔ جولائی 13 کو نواز شریف اور مریم لندن سے پاکستان واپسی کے لیے طیارے پر سوار ہو جاتے ہیں۔ پاکستان سے کئی صحافی اور سیاستدان طیارے پر ان کے ساتھ ہیں۔ راستے میں طیارہ متحدہ عرب امارات میں چند گھنٹے کے لیے رکتا ہے۔

ادھر لاہور میں شہباز شریف اپنی جماعت کے ہزاروں کارکنان کے قافلے کی قیادت کرتے نواز اور مریم کو لینے لاہور ایئر پورٹ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ان کے کارکنان نعرے بازی کر رہے ہیں۔۔۔ ’روک سکو تو روک لو‘ اور ’ووٹ کو عزت دو۔‘

ایئرپورٹ کی طرف جانے والے تمام راستے رکاوٹیں لگا کر بند کر دیئے گئے ہیں۔ ایئر پورٹ کے اطراف سخت سیکیورٹی کا حصار قائم ہے۔

فلائٹ میں تاخیر کے باعث نواز شریف ابوظہبی ائیرپورٹ ہی پر ٹِیلیفون کے ذریعے دوسرے لاؤنج میں موجود میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’مجھے گرفتاری کا ڈر نہیں۔ اگر ہوتا تو میں واپس ہی کیوں آ رہا ہوتا۔‘

’میرے لیے یہ کوئی معنی نہیں رکھتا کہ نیب یا جن لوگوں نے نیب کے اہلکاروں کو بھیجا ہے وہ مجھے یہاں ابو ذہبی سے گرفتار کرتے ہیں یا لاہور سے۔ میں اس کے لیے تیار ہوں۔‘ نواز شریف یہ بھی کہتے ہیں ’ہم واپس آ رہے ہیں کیونکہ اس ملک کی تقدیر کو بدلنا ہو گا۔۔۔ہم اس کی تقدیر کو بدلیں گے۔‘

رات گئے ان کا طیارہ لاہور کے ہوائی اڈے پر اترتا ہے۔ طیارے ہی میں سے نواز شریف اور مریم نواز کو گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ وہیں سے انھیں خصوصی طیارے کے ذریعے اسلام آباد روانہ کر دیا جاتا ہے۔ شہباز شریف اور ان کے ہزاروں ساتھی اس وقت تک ایئر پورٹ کے راستے ہی میں تھے۔

پاکستان

پہلے منظر کا پس منظر

جولائی سنہ 2017 کی بات ہے۔ پاکستان کی سپریم کورٹ نواز شریف کو پانامہ کیس میں نااہل قرار دے دیتی ہے۔ وہ بطور وزیراعظم مستعفی ہو جاتے ہیں۔ ایسا ان کے ساتھ تیسری مرتبہ ہو رہا ہے۔ پہلے بھی وہ پانچ سال مکمل کیے بغیر دو مرتبہ وزیراعظم کی کرسی سے ہٹائے جا چکے ہیں۔

اس مرتبہ نواز شریف آواز اٹھانے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ وہ اسلام آباد سے براستہ جی ٹی روڈ لاہور جاتے ہیں۔ راستے میں وہ مختلف شہروں میں جلسے کرتے ہیں۔ ہر جگہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد انھیں سننے جمع ہوتی ہے۔ تمام جلسوں میں ان کی زبان لگ بھگ ایک جیسی ہے۔

جہلم میں ایک جلسے سے خطاب کے دوران نواز شریف کچھ یوں تقریر کرتے ہیں۔ ’میری حکومت چلی گئی۔ پانچ ججوں نے لاکھوں لوگوں کے ووٹ سے منتخت ہونے والے نواز شریف کو گھر بھیج دیا۔۔۔ کیا یہ لاکھوں لوگوں کے ووٹ کی توہین نہیں۔‘

’70 برس میں پاکستان میں ایک بھی وزیراعظم پانچ سالہ مدت پوری نہیں کر پایا۔۔۔ آپ ووٹ دے کر اسے منتخب کرتے ہیں، کوئی فوجی ڈکٹیٹر یا جج آتا ہے اور آپ کا بیلٹ پیپر پھاڑ کر آپ کے ہاتھ میں پکڑا دیتا ہے۔‘

’یہ وزیراعظموں کی توہین نہیں، یہ ملک کے 20 کروڑ لوگوں کی توہین ہے۔۔۔ کیا تمہیں یہ توہین قبول ہے؟‘ ان کے سامنے موجود مجمع ’نہیں‘ میں جواب دیتا ہے۔ تو نواز شریف کہتے ہیں۔ ’تو پھر تمہیں اس کو بدلنا ہو گا۔۔۔‘

مخلتف مقامات پر رکتے اور جلسے کرتے نواز شریف دو دن میں لاہور پہنچتے ہیں۔ اگلے ایک برس میں وہ نیب عدالتوں کی پیشیاں بھگتنے عدالتوں میں پیش ہوتے رہتے ہیں۔ ان کی صاحبزادی مریم نواز بھی ان کے ساتھ ہیں۔

پھر ان کی اہلیہ کلثوم نواز کو لندن میں کینسر کی تشخیص ہوتی ہے اور ان کی حالت بگڑنے لگتی ہے۔ ان کی عیادت کے لیے نواز اور مریم عدالت کی اجازت سے لندن روانہ ہو جاتے ہیں۔

نواز

پہلے منظر کا اضافی حصہ

طبی آلات سے لیس ہوائی جہاز یعنی ایئر ایمبولینس لاہور کے ہوائی اڈے اترتی ہے۔ یہ جہاز نواز شریف کو لاہور سے لندن لے جانے کے لیے آیا ہے۔

نواز شریف علیل اور گزشتہ کئی روز سے لاہور کے سروسز ہسپتال میں ہیں۔ ان کے معالج کہہ رہے ہیں کہ ان کے جسم کا مدافعاتی نظام درست کام نہیں کر رہا۔ ان کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ ان کا بہتر علاج لندن میں ان کے معالج ہی کر سکتے ہیں۔

اس وقت کی پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت کی اجازت سے نواز شریف کے بھائی شہباز شریف اور ان کے ذاتی معالج ڈاکٹر عدنان انھیں ایئر ایمبولینس میں لندن لے جاتے ہیں۔ ابتدائی طور پر انھیں چار ہفتے کے لیے جانا ہے۔

کچھ ہی روز کے علاج کے بعد نواز شریف بہتر ہو جاتے ہیں۔ ان کی لندن میں چلنے پھرنے اور ریسوتورانوں پر بیٹھنے کی ویڈیوز سامنے آ جاتی ہیں۔ تاہم وہ واپس پاکستان نہیں آتے۔ ان کی لندن موجودگی ہی کے دوران ان کی مشاورت سے پاکستان میں حزبِ اختلاف کی بڑی جماعتیں ’پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ‘ کے نام سے عمران خان کی حکومت کے خلاف ایک اتحاد قائم کرتے ہیں۔

اکتوبر سنہ 2020 میں گوجرانوالہ میں پی ڈی ایم کا ابتدائی جلسہ منعقد ہوتا ہے۔ نواز شریف ویڈیو لنک کے ذریعے لندن سے خطاب کرتے ہیں۔ کووڈ 19 کے باوجود لوگوں کی ایک بڑی تعداد ان کا خطاب سننے کے لیے سٹیڈیم میں موجود ہے۔

نواز شریف پہلی مرتبہ نام لے کر اس وقت کے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اور آئی ایس آئی چیف لیفٹِیننٹ جنرل فیض حمید کو اپنی وزارتِ عظمٰی چھیننے اور عمران خان کو حکومت میں لانے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

’یہ سب تمہارا کیا ہے۔۔۔ تم چاہو تو مجھ پر غدار کا لیبل لگا سکتے ہو، میری جائیدادیں ضبط کر سکتے ہو، میرے خلاف جھوٹے مقدمات بنا سکتے ہو۔۔۔ لیکن نواز شریف اپنے لوگوں کے لیے آواز اٹھاتا رہے گا۔‘

عمران خان

ایک، ڈیڑھ برس آگے

نواز شریف کا یہ بیانہ اب نظر نہیں آتا۔ نومبر میں آئی ایس آئی چیف کی تبدیلی کا وقت ہے۔ مقامی ذرائع ابلاغ میں خبریں گرم ہیں کہ اس معاملے پر اس وقت کے آرمی چیف اور وزیراعظم عمران خان میں اختلاف ہو گیا ہے۔

آنے والے چند ماہ ملک میں ’بدلتی ہوائیں‘ زیرِ بحث رہتی ہیں۔ اور پھر سنہ 2022 کے اوائل ہی میں پی ڈی ایم کی جماعتیں اور پاکستان پیپلز پارٹی مل کر عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لے آتی ہیں۔ عمران خان اعتماد کا ووٹ نہیں لے پاتے۔

ان کی وزارتِ عظمٰی اور حکومت بھی چلی جاتی ہے۔ نواز شریف کے بھائی اور اس وقت کے قائدِ حزبِ اختلاف شہباز شریف نئے وزیراعظم منتخب ہو جاتے ہیں۔ اس وقت سے اب تک نواز شریف اور ان کا ’اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ‘ دوبارہ سامنے نہیں آتا۔

اب ایک مرتبہ پھر نواز شریف لندن سے واپس پاکستان آ رہے ہیں۔ ادھر پاکستان میں ایک مرتبہ پھر تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ نواز شریف کی واپسی ’اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی مفاہمت کا نتیجہ ہے۔‘

پی ڈی ایم

کیا نواز شریف واقعتاً خوش قسمت ہیں؟

ان کے بارے میں ایک تاثر یہ بھی پایا جاتا ہے کہ نواز شریف پاکستان کے ان وزرائے اعظم میں شامل ہیں جو ’اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات خراب ہونے پر ہر بار حکومت سے نکالے جاتے رہے‘ لیکن وہ ’خوش قسمت‘ بھی ہیں کہ ہر بار کسی مفاہمت کے نتیجے میں واپس آ جاتے ہیں۔

صحافی اور تجزیہ نگار عاصمہ شیرازی کہتی ہیں اب یہ معلوم نہیں کہ ’کیا یہ نواز شریف کے ہاتھ کی لکیریں اچھی ہیں یا ان کی سیاسی بصیرت ہے یا پھر ان کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اچھے تعلقات کا نتیجہ ہے۔‘

صحافی عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ نواز شریف کے ’خوش قسمت‘ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پاکستان میں اسٹیبلسمنٹ پنجاب کے علاوہ کسی دوسرے پر اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ملک میں آج بھی پنجاب ہی سیاسی قوت کا محور سمجھا جاتا ہے۔‘

’مجھے لگتا ہے کہ یہ پنجاب کے پانی کا اثر ہے۔‘ عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ یہی وجہ ہے کہ ان کے خیال میں ’کل کو ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ سابق وزیراعظم عمران خان کی کسی موقع پر ایک مرتبہ پھر واپسی ہو جائے۔‘

نواز شریف

’ڈکٹیٹر کی ایک، سیاستدان کی 10 زندگیاں ہوتی ہیں‘

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی سمجھتے ہیں کہ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ نواز شریف ہر مرتبہ نکالے جانے کے بعد اس لیے واپس آئے کہ ’انھوں نے عوام سے اپنا تعلق نہیں توڑا۔ وہ لوگوں کے ساتھ جڑے رہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’قسمت کی دیوی تو مہربان ہوتی رہتی ہے۔‘ تاہم ان کے خیال میں نواز شریف کی واپسی اس لیے بھی ہر بار ممکن ہوتی رہی کیونکہ وہ ایک مقبول اور مرکزی رہنما رہے ہیں۔ ’عوام کی طاقت انہیں واپس لاتی رہی ہے۔‘

تاہم صحافی اور تجزیہ نگار سلمان غنی کہتے ہیں کہ نواز شریف کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بظاہر کڑوے میٹھے تعلقات اور ان کی ہر بار واپسی کی بنیادی وجہ ان کے خیال میں اس بات میں ہے کہ ’ایک ڈکٹیٹر کی ایک ہی زندگی ہوتی ہے۔ جب وہ یونیفارم اتارتا ہے وہ ختم ہو جاتی ہے۔‘

’لیکن میں سمجھتا ہوں ایک سیاستدان کی 10 زندگیاں ہوتی ہے۔ وہ ایک بار ختم ہوتا ہے تو دوبارہ کہیں اور سے ابھر کر سامنے آ جاتا ہے۔‘

نواز شریف کے معاملے میں وہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کو جس بات کا فائدہ ہوتا رہا ہے وہ یہ بھی ہے کہ وہ نکالے جانے کے بعد بھی کبھی لڑائی کی حد تک نہیں گئے۔

’اس ملک میں 70 سال سے اسٹیبلشمنٹ ایک سیاسی حقیقت ہے۔ نواز شریف جیل بھی گئے لیکن انھوں نے کبھی مکمل طور پر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ قطع تعلق نہیں کیا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ن لیگ میں نواز شریف کے بھائی شہباز شریف کے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اچھے تعلقات رہے ہیں۔

’ساری بات مکمل اختیارات کی خواہش کی ہے‘

تاہم سوال یہ بھی ہے کہ نواز شریف ہر مرتبہ نکالے جانے کے بعد وزیراعظم بنتے رہے تو ہر بار ان کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات خراب ہو جانے کی وجہ کیا بنی۔

صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ ’ساری بات مکمل اختیارات کے حاصل کرنے کی ہے۔‘ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ سیاست میں ایک حقیقت ہے اور اس کا ایک کردار رہا ہے۔ ’جبکہ سیاستدان چاہتے ہیں کہ اختیارات کا مکمل کنٹرول ان کے پاس ہو۔‘

صحافی اور تجزیہ نگار عاصمہ شیرازی بھی اختیارات کی جنگ ہی کو نواز شریف کے بار بار اقتدار کھونے کی وجہ سمجھتی ہیں۔

’پاکستان میں سول ملٹری تعلقات میں ہمیشہ سے سیاستدان، چاہے وہ نواز شریف ہوں یا عمران خان، یہ چاہتے رہے کہ شخصیات ان کے کنٹرول میں ہوں۔ ادارے تو ویسے بھی آئینی طور پر ان کے ماتحت ہوتے ہیں لیکن وہ شخصیات کو بھی اپنے اختیار میں چاہتے ہیں۔‘

وہ سمجھتی ہیں کہ تاہم میثاقِ جمہوریت اور اٹھارویں ترمیم کے بعد ایسا لگتا تھا کہ ن لیگ بہت بدل گئی ہے تاہم ان کے خیال میں گزشتہ ایک برس کے دوران ن لیگ دوبارہ زیرو پر آن کھڑی ہوئی ہے۔

صحافی اور تجزیہ نگار مجیب الرحمان شامی بھی اختیارات کے معاملے کو ہی اس کی وجہ سمجھتے ہیں تاہم وہ یہ بھی کہتے ہی کہ ہر ’رخصتی‘ کی اپنی وجوہات ہوتی ہیں لیکن یہ بات مستقل ہے کہ ’نواز شریف نے عوام سے کبھی اپنا رشتہ نہیں ٹوٹنے دیا۔‘

’اور ہر مقبول عوامی لیڈر یہ چاہتا ہے کہ اختیارات اس کے پاس رہیں۔ اسی خود مختاری اور آئین کی پاسداری کا اس نے حلف بھی اٹھایا ہوتا ہے۔‘

مجیب الرحمان شامی کہتے ہیں کہ یہی نواز شریف کے ساتھ بھی ہوا کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ ’ہمسائیوں کے ساتھ تعلقات اچھے ہونے چاہئیں، مقابلہ صرف ترقی کے میدان میں ہونا چاہیے۔‘

نواز

کیا ایک بار پھر نواز شریف کی واپسی ’اچھی قسمت‘ کا نتیجہ ہے؟

صحافی اور تجزیہ نگار عاصمہ شیرازی سمجھتی ہیں کہ بظاہر تو یہی تاثر سامنے آ رہا ہے کہ نواز شریف کی پاکستان واپسی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی مفاہمت یا ’ڈیل‘ کا نتیجہ ہو سکتی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ماضی میں بھی ایسے مناظر دیکھے جا چکے ہیں۔ ’یہ ایسا ہی ہو رہا ہے جیسے سنہ 2018 سے قبل عمران خان کو معاونت کی گئی اور نواز شریف کا راستے سے ہٹایا گیا۔ وہی اب نواز شریف کو دیا جا رہا ہے، ان کی واپسی کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’نواز شریف کو حفاظتی ضمانت بھی مل گئی ہے، وہ سرینڈر بھی کر رہے ہیں اور مینار پاکستان پر جلسہ بھی کر رہے ہیں۔‘ تاہم وہ کہتی ہیں ’کسی حتمی نتیجے سے پہلے ہمیں انتظار کرنا ہو گا اور یہ دیکھنا ہو گا کہ کیا ن لیگ اس تاثر کو جلسے میں زائل کرتی ہے یا نہیں۔‘

کیونکہ عاصمہ شیرازی سمجھتی ہیں کہ نواز شریف اور ن لیگ اگر یہ سمجھتی ہے کہ پنجاب میں اسٹیبلشمنٹ کا حامی بیانیہ ہی چلتا ہے تو ان کو یہ بھی معلوم ہو گا کہ پنجاب اب بدل گیا ہے۔

’وہ بھی انتظار کریں گے اور اس جلسے سے یہ اندازہ لگانے کی کوشش کریں گے کیا واقعی پنجاب بدلا ہے یا وہی پرانا پنجاب ہے جو انتخابات میں اسی کے ساتھ ہوتا تھا، جس کے بارے میں تاثر ہوتا تھا کہ وہ اقتدار میں آ رہا ہے کیونکہ وہ اسٹیبلشمنٹ کا حامی ہے۔‘

آرمی

’اب کوئی ڈیل نہیں، حالات بدل چکے ہیں‘

صحافی اور تجزیہ نگار سلمان غنی بھی سمھتے ہیں کہ ’اس وقت سگنل تو بظاہر ان ہی کی طرف سے ہے‘ تاہم وہ کہتے ہیں کہ نواز شریف کو واپس لانے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کو اس ’خطرے‘ سے نمٹنے کے لیے ایک مقبول قیادت کی ضرورت ہے۔

’عمران خان کی مقبولیت کا اثر زائل کرنے کے لیے انھیں ایک ایسی قیادت کی ضرورت ہے جو پنجاب میں مقبول ہو۔‘ وہ کہتے ہیں کہ حتمی طور پر کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا تاہم وہ نواز شریف کو دوبارہ اقتدار میں آتا نہیں دیکھ رہے۔

تاہم وہ کہتے ہیں کہ نواز شریف کے پاس یہ طاقت ہے کہ وہ جس کو چاہیں وزیراعظم بنا سکتے ہیں۔ ’میرے خیال میں اسٹیبلشمنٹ کے خیال میں نواز شریف واپس آ کر عمران خان کی مقبولیت پر اثرانداز ہوں گے جس کا فائدہ آئندہ انتخابات میں لیا جائے گا۔‘

تاہم سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ ’نواز شریف شہباز شریف نہیں بنیں گے۔ ن لیگ کی مقبولیت نواز شریف کی وجہ سے ہے اور نواز شریف اپنا سیاسی کردار قائم کریں گے۔‘

دوسری طرف صحافی اور تجزیہ نگار مجیب الرحمان شامی سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کی واپسی ’کسی ڈیل کا نتیجہ نہیں ہے۔ اب ماحول بدل چکا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ عمران خان ڈلیور نہیں کر سکے بلکہ اقتدار جانے کے بعد ان کی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جنگ باقاعدہ لڑائی میں تبدیل ہوئی ہے۔ ’دوسری جانب نواز شریف آج بھی مقبولیت اور اہمیت رکھتے ہیں اس لیے فطری طور پر ان کی واپسی ہونا ہی تھی۔‘

’تاریخ سے کبھی کسی نے کچھ نہیں سیکھا‘

نواز شریف اس مرتبہ بھی جس طریقے سے پاکستان اور سیاست میں واپس آ رہے ہیں اس میں ان کے ماضی کی جھلک نظر آ رہی ہے۔

اقتدار سے نکالے جانا، اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اپنانا لیکن پھر ملک سے باہر چلے جانا اور وہ بیانہ ترک کر کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی ‘مصالحت’ کے بعد واپس آ جانا، یہ وہی دائرہ ہے جس سے نواز شریف کم از کم تین مرتبہ پہلے بھی گزر چکے ہیں۔

تو سوال یہ ہے کہ کیا وہ ایک مرتبہ پھر وہی غلطی کرنے جا رہے ہیں جو وہ پہلے بھی کر چکے ہیں؟ کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے یا ان کے جماعت کے ساتھ دوبارہ وہ نہیں ہو گا جو تین مرتنہ پہلے ہو چکا ہے؟

صحافی اور تجزیہ نگار سلمان غنی کہتے ہیں کہ ’تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ تاریخ سے کبھی کسی نے سبق نہیں سیکھا۔‘

سلمان غنی کہتے ہیں کہ ’اس میں کوئی دو آرا نہیں کہ بظاہر ایسا ہی نظر آتا ہے کہ نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی مفاہمت کے ذریعے ہی واپس آ رہے ہیں۔‘

’اور بظاہر ایسا ہی نظر آتا ہے کہ وہی دائرہ دوبارہ بن رہا ہے جس میں نواز شریف اور ان سے پہلے اور بعد میں آنے والے کئی دوسرے رہنما گزر چکے ہیں۔ لیکن اب دیکھنا یہ ہو گا کہ مینارِ پاکستان کے جلسے میں نواز شریف اپنے خطاب میں کیا کہتے ہیں۔‘

تجزیہ نگار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ ’اس جلسے سے معلوم ہو پائے گا کہ نواز شریف کیا سوچ رکھتے ہیں اور ان کے پاس آئندہ کا کیا لائحہ عمل ہے۔‘ ان کے خیال میں نواز شریف مکمل طور پر اپنے پرانے ’ووٹ کو عزت دو‘ یا اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کو مکمل طور پر ترک نہیں کریں گے۔

’مینار پاکستان کے جلسے میں دو چیزیں اہم ہوں گی، ایک یہ کہ کتنے لوگ نواز شریف کے پیچھے آتے ہیں اور دوسرا یہ کہ نواز شریف کیا بیانیہ اپناتے ہیں۔ نواز شریف یہ جانتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ پاکستان کی سیاست کی ایک حقیقت ہے۔‘

سلمان غنی کے مطابق ’اب دیکھنا یہ ہو گا کہ نواز شریف اس بات کو سامنے رکھتے ہوئے کیا لائحہ عمل اختیار کرتے ہیں کہ وہ اس دائرے میں سے بھی نکل پائے جو تاریخ میں ان کے ساتھ ہوتا رہا ہے اور اپنی اور اپنی جماعت کی سیاست کو بھی بچا سکیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32591 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments