ایوانوں سے بالا خانوں تک


بسا اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ کسی موضوع پر لکھنے کا ارادہ ہوتو موضوع سے متعلق اس قدر مواد دستیاب ہوتا ہے کہ سمجھ نہیں آتی کہ کہاں سے شروع کیا جائے اور کہاں پر ختم کیا جائے۔ مانیکا کے انٹرویو سے جو لوگ کسی بھونچال کی توقع کر رہے تھے ان کو مایوسی ہوئی کہ یہ چائے کی پیالی میں طوفان سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ ویسے بھی کیا ہو سکتا تھا۔ ارے بھائی یہ تو وہ حمام ہے جہاں سب ننگے ہیں تو پھر کوئی کسی پر انگلی کیوں اٹھائے۔ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس طرح کے انٹرویوز سے کچھ ہوتا ہے تو تہمینہ درانی کی کتاب مائی فیوڈل لارڈ (میڈا سائیں) پڑھ لیں جس میں وہ لکھتی ہیں کہ میں نے کھر سے کہا کہ میں کتاب لکھوں گی جس میں تمہارے سارے کرتوت بیان کروں گی تو کھر نے جواب دیا کہ لکھ دو مگر میں جب حلقے میں اپنی عوام کے پاس جاؤں گا تو وہ یہی کہیں گے کہ مصطفیٰ ساڈا شیر اے۔ باقی ہیر پھیر اے اور تہمینہ کے مطابق ایسا ہی ہوا۔ کتاب کے بعد مصطفیٰ کھر کی شہرت مزید بڑھ گئی اور وہ اس کتاب کی اشاعت کے بعد بھی پارلیمنٹ کا ممبر منتخب ہوا۔ یہی نہیں پارلیمنٹ سے بازار حسن تک پڑھ لیں جن کا بھی ذکر ہے، سب مقدس ایوان کا اب تک حصہ ہیں۔

میرے دوستو یہ کوئی لادین امریکہ تھوڑی ہے جہاں صدر ناجائز تعلقات ثابت ہونے پر عوام سے معافی مانگ کر جان چھڑائے یہ تو اسلامی جمہوریہ ہے یہاں پر مڈل کلاس کو مطمئن کرنے کے لیے اور مذہبی طبقے کی اشک شوئی کی خاطر آئین میں آرٹیکل 62 اور 63 شامل کیا گیا ہے۔ ذرا سوچ کر بتائیں کہ کیا کوئی سیاست دان اس آرٹیکل کے تحت نا اہل ہوا ہے خاص طور پر ناجائز مراسم کے الزامات کے تحت۔ تو سن لیں کہ کبھی نہیں ہوا اور نا ہی کبھی ہو گا۔ کیونکہ ہمارا ہی موقف ہوتا ہے کہ یہ ان کا ذاتی فعل ہے اس پر پردہ ڈالنا چاہیے اور اس طرح کے افعال کو اچھالنے والے کو ہم برا تو کہتے ہیں مگر اتنے دین دار ہیں، چسکے بھی پورے لیتے ہیں۔ پہلے تو محض الزامات ہوتے تھے یا قصے کہانیاں بیان ہوتی تھیں اب تو ویڈیوز بھی کسی کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں کیونکہ اس کا سادہ سا جواب ہوتا ہے کہ جناب یہ فیک ہے اور کمپیوٹر کا کمال ہے۔ اور ہم اتنے سادہ دل ہیں کہ فوری طور پر یقین کرلیتے ہیں۔

ویسے بھی شراب پینا اور کسی عورت کے ساتھ ناجائز مراسم کی مذہبی طور پر تو ممانعت ہے مگر ہماری روز مرہ کی زندگی میں اس کو برا خیال نہیں کیا جاتا۔ ہر شخص اس طرح کی زندگی جینا چاہتا ہے اور جو نہیں جی سکتے وہ شور مچا کر دوسروں کا مزہ کرکرا کرتے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے کہ جیسے ضمیر کسی برے کام سے روک تو نہیں سکتا مگر اس کی لذت کو خراب کر دیتا ہے۔ کون سی شادی ہے جس میں شراب نہیں پی جاتی اور مجرا نہیں ہوتا۔ اور اس کو کلچر کا نام دیا جاتا ہے۔ مجھے یہ کہنے کی اجازت دیں کہ ہمارے ہاں کلچر آج بھی مذہبی پابندیوں سے زیادہ طاقتور ہے۔ ویسے بھی ہم زندگی فرعون کی اور آخرت موسیٰ کی چاہتے ہیں۔ مان لیں کہ ہم لوگ زندگی کو اپنی خواہشات کے تحت جینا چاہتے ہیں اور جی رہے ہیں اور ساتھ ساتھ خیرات، صدقات، مسجدوں کی تعمیر اور لنگر خانے کھول کر مذہب کا تڑکا بھی لگا رکھا ہے۔

کہیں آپ کو یہ تحریر پڑھ کر یہ تو نہیں لگ رہا کہ میں ان تمام برے افعال کی درپردہ حمایت کر رہا ہوں اگر ایسا محسوس ہو رہا ہے تو شاید کسی حد تک درست ہے میں نا تو نصیحت کروں گا اور نا ہی انکار کروں گا جو حقیقت ہے وہ بیان کروں گا اور حقیقت یہی ہے کہ مذہب چاہے کوئی بھی ہو اس کے ماننے والوں میں مڈل اور لوئر مڈل کلاس ہوتی ہے جبکہ اس مذہب کو ماننے والی اشرافیہ کا تعلق مذہب سے واجبی ہی ہوتا ہے۔ ایک بار اداکارہ ترانہ ایوان صدر ملاقات کو پہنچیں تو چوکیداروں نے روک لیا، اندر اطلاع کی گئی تو فوری طور پر داخلے کی اجازت مل گئی۔ جب اداکارہ ترانہ کی واپسی ہوئی تو گیٹ پر موجود چوکیداروں نے اداکارہ کو سلیوٹ کیا تو انہوں نے اس کی وجہ پوچھی تو چوکیداروں نے کہا کہ پہلے آپ ترانہ تھیں اب قومی ترانہ ہیں لہذا احترام واجب ہے۔

ہر سیاسی عہد کی اپنی کہانیاں اور قصے ہوتے ہیں اور ہماری سیاسی اشرافیہ کو ان سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ کون کیا کہہ رہا ہے۔ اقتدار کے ایوانوں کی راہداریوں میں اور نیم خوابیدہ آرام گاہوں میں جو کچھ ہوتا ہے اس سے ہمیں کیا سروکار ہے۔ جیسے ہم ہیں ویسے ہمارے اوپر مسلط حکمران ہیں تو پھر گلہ کیسا شکوہ کیوں۔ اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں ہم کون سا دودھ کے دھلے ہیں۔ تو کیا اس ساری گفتگو کا حاصل یہ ہے کہ سیاسی اشرافیہ کو ہر کام کرنے کی چھوٹ دے دی جائے اور محاسبہ نا کیا جائے کیا اس بے راہ روی کو بڑھنے دیا جائے تو اس کا جواب یہ ہے کہ بعض اوقات چیزیں ہمارے اختیار سے باہر ہوتی ہیں۔ ان باتوں سے لگتا ہے کہ معاشرہ پستی کی طرف جا رہا ہے مگر ایسا نہیں ہے معاشرہ آگے کی طرف سفر کر رہا ہے ایک وقت آئے گا جب معاشرہ اپنی معاشرتی اقدار اور اخلاقیات کی حدود دوبارہ متعین کرے گا اور ان کی پابندی بھی کرے گا

فی الوقت تو آگے بڑھنے کی دوڑ چل رہی ہے اس میں کیا اچھا ہے کیا برا ہے کسی کو کوئی پروا نہیں ہے۔ طاقتور سیاسی اشرافیہ اور دولت مند طبقہ کا ان باتوں سے کوئی لینا دینا نہیں اور مڈل کلاس کسی بھی حالت میں اس اشرافیہ میں شامل ہونا چاہتی ہے اور جدوجہد کر رہی ہے پرانی اقدار کی زنجیریں توڑ رہی ہے۔ یقین نا آئے تو ایک بار اپنے گردوپیش کا بغور جائزہ لیں اور پھر فیصلہ کریں کہ میری بات درست ہے یا غلط ہے۔ رہی بات مذہب کی تو اس کے لیے لوئر مڈل کلاس ہے ناں کیونکہ یہ وہ کلاس ہے جس کا خدا کے سوا کوئی نہیں ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments