ھم جو احمد سلیم کو نہیں جانتے


ابھی ملک میں ثقافتی تبدیلی کی شروعات تھیں۔ یعنی فیض صاحب لوک ورثہ اور دیگر اداروں کے ساتھ وابستہ ہوئے تھے۔ احمد سلیم جسے بے تکلفی سے نہایت قریبی دوست خواجہ بھی کہتے تھے۔ وہ بہت پریقین محنتی اور اپنی ہٹ پر قائم رہنے والا شخص تھا۔ ہمارا ایک دوست اسے بے تکلفی سے ادب کا مستری بھی کہتا تھا۔ اخباروں رسالوں اور پرنٹ مارکیٹ کا یہ البیلا کا وبوائے کبھی کھانا کھلانے ہمیں ساتھ گھر بھی لے جاتا تھا۔ یہ بہت کڑکی کا دور تھا پاک ٹی ہاؤس میں جاکر ہاف سیٹ منگوانا بھی ہماری اوقات سے بڑھ کر تھا۔

میں شاید اپنی دھن میں رہنے والا بندہ تھا میرا خیال ہے کہ اسے میرا شاعر ہونا بھاتا تھا کہ اس کے اندر بھی ایک شاعر دبکا بیٹھا تھا جسے وہ کشاکش زمانہ اور جستجوئے رزق کی بھاگ دوڑ میں سنبھال کر رکھتا تھا۔ ہم اتنے وائلڈ اور سر پھرے تھے کہ احمد سلیم کے شاعر کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ ہاں وہ جوہر شناس تھا۔ ایک بات کا اسے اچھی طرح پتہ تھا کہ ہم اس کے پنجابی کام اور ثقافتی و تاریخی رومانس کے سامنے نہیں ٹھہرتے۔

وہ امرتا پریتم اور چڑھدے پنجاب کے بڑے رائٹرز کو کوٹ کر کے ہمارے منہ بند کر دیتا جن میں بیشتر اس کے حلقہ اثر میں تھے۔ ان دنوں چھوٹا موٹا لکھنے کا جو کام بھی ملتا ہمارے لئے لائف لائن ہوتا تھا۔ اس بات کا خواجہ کو اچھی طرح علم تھا۔ ہم سڑکیں ناپتے اور تھک ہار کر کسی ڈھابے پہ جا کر چائے پیتے۔ پھر یکایک دن بدل گئے۔ فیض صاحب نے اسے اسلام آباد میں ذمہ داریاں دے دیں۔ اب کیا تھا ہمیں لکھنے اور ترجمہ وغیرہ کا کام ملنے لگا۔

ہم ڈالر کی تلاش والے لوکل کاؤ بوائے سَوکھے ہو گئے۔ احمد سلیم لگن والا کریکٹر تھا ہم اس کو جانتے ہی نہیں تھے بس ایزی لیتے تھے۔ اس نے آرکائیو ڈویلپ کرنا شروع کر دیا تھا اور اسے ہر وقت یہی دھن تھی۔ جہاں سے بھی اسے کتاب ملتی اٹھا لیتا۔ کئی بڑے لوگ اس سے ناراض بھی ہوئے۔ اس پر کتابیں ہتھیانے کے بیہودہ الزام بھی لگے لیکن اسے کسی کی پرواہ نہیں تھی۔ وہ کتابوں کے مینار پر کھڑا ہو کر علم دشمنوں کو للکار سکتا تھا۔

وقت بدلا حکومتیں بدلیں احمد سلیم رواں دواں رہا۔ میں لندن آ گیا تو وہ جب بھی آتا ہم مجلس کرتے وہ میرے بچوں کے لئے کپڑے اور چیزیں لے کے آتا۔ اس کی پسندیدہ خوراک دال چاول تھے جو وہ بڑے شوق سے کھاتا تھا میری وائف اس کے لئے خاص طور پر بناتی تھی۔ ایک دفعہ میں نے لندن میں خواجہ کے اعزاز میں ایک بڑی محفل سجائی جس میں تمام احباب نے کھلے دل سے ان کی خدمات کا اعتراف کیا۔ اس کی شدید خواہش تھی کہ لندن میں ایک ریفرینس لائبریری قائم کی جائے جہاں سے پاکستان ہندوستان اور دیگر ممالک کے لوگ استفادہ کر سکیں۔

وہ اپنے جمع شدہ خزانہ علم کو وسیع تر مقصد کے لئے استعمال کرنا چاہتا تھا۔ ہم نے ایک بھر پور میٹنگ بھی کی جس میں متعلقہ افراد کو کنسلٹیشن کے لئے مدعو کیا لیکن یہ مالی طور پر ممکن نہ ہو سکا۔ اس کے بعد وہ باہر رہنے والے دوستوں سے مایوس سا ہو گیا تھا اور یہ سرد مہری کافی دیر رہی۔ اس کی بیماری نے زندگی کا رخ ہی بدل دیا۔ 2015 میں جب اسلام آباد میں اکادمی آف لیٹرز میں میرے کتاب کی رونمائی ہوئی تو منتظمین نے مجھے پوچھا کہ آپ کسی کو مدعو کرنا چاہتے ہوں تو بتائیں۔

میں نے احمد سلیم کا نام لیا وہ کافی بیمار تھا لیکن چلا آیا اور اپنی گفتگو میں یہ جملہ کہہ کر مجھے رلا دیا کہ مظہر مجھے نہ بھی بلاتا تو میں آ جاتا کہ ہم غربت کے دنوں کے دوست ہیں جو ایک بیوروکریٹ رائٹر کے گھر پیدل چل کر جاتے تھے جہاں خالی جیب اور خالی پیٹ ہمیں چائے کے ساتھ بسکٹ ملنے کی امید ہوتی تھی۔

میں دہلی امرتا پریتم سے ان کے گھر ملاقات کے لئے گیا تو انہوں نے سب سے پہلے احمد سلیم کی خیریت دریافت کی۔ دوران گفتگو بار بار احمد سلیم کا حوالہ آتا تھا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ امرتا پریتم کے لئے احمد سلیم کھویا ہوا منقسم پنجاب ہے۔ وہ پنجاب کی تقسیم سے دل برداشتہ تھیں لیکن احمد سلیم جیسے دوستوں کا خیال ان کی ڈھارس بندھاتا تھا۔ احمد سلیم مشرقی پنجاب کے رائٹرز کے دلوں میں بستا تھا۔ وہ بچھڑے ہوؤں کے درمیان ایک پل کی حیثیت رکھتا تھا جو لہندے اور چڑھ دے کو جوڑتا تھا۔

پنجاب اور پنجابی زبان کی محبت نے اسے خطے کی دوسری زبانوں سے محبت کرنا سکھایا۔ وہ سندھی اور پنجابی ادب کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لئے ترجمے کی طرف مائل ہوا تو ، جو بیجل نے آکھیا، تشنگان محبت کے ہاتھوں میں تھی۔ شیخ ایاز کی محبت اپنے ہیروز سے محبت کا تسلسل تھی۔ وہ کیریٹر تھا تخلیق کاری اس کی فطرت تھی۔ ہائے کیا مٹا ہوا انسان تھا۔ نہ غرور علم نہ کجروی۔ اسے دھن حقیقت عشق کی۔

پارٹیشن کا دکھ ہمارا مشترکہ دکھ ہے۔ ہم نے اس دکھ کو اپنے سینوں میں چھپا کے نہیں رکھا اس کا برملا تخلیقی اظہار بھی کیا کہ یہ پنجابیوں کا ہولو کاسٹ ہے اور ایک ایسی ٹریجڈی ہے جس پر خاموشی کی سازش ہوئی ہے ‌۔ امرتا پریتم نے وارث شاہ کو مخاطب کر کے بین پائے تو احمد سلیم نے منقسم پنجاب کی ونڈ کو مستقل حوالہ بنائے رکھا۔ احمد سلیم اور سکہ بند لیفٹ میں ایک بنیادی فرق یہ رہا ہے کہ وہ تقسیم پنجاب کو ہندوستان کی آزادی کا رستا ہوا زخم سمجھتا ہے اور اس کا سارا کام اس تاریخی شعور کا پتہ دیتا ہے۔ وہ مذہب کو ریاست کی بنیاد نہیں مانتا۔ اسے خبر تو ہوگی کہ پنجاب کی ونڈ کے دکھ کو میں نے برطانیہ کینیڈا اور کتنے ملکوں میں سانجھا کیا۔ میرے ساتھ ویلش سکاٹش اور کینیڈا کے رائیٹرز نے اپنے درد مشترک کو موضوع بنایا۔

تم ہوتے تو میں ساری کہانیاں تمھیں سناتا
تم دور جا کے بس گئے میں ڈھونڈتا پھرا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments