ہم مظلوموں کی تقدیروں کے ہنگامے


میں سٹیڈیم ہوٹل کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا، آج امجد صاحب مین ہال کے دائیں ہاتھ کاؤنٹر کے سامنے والی چوکور میز کے گرد انتہائی آرام دہ بازوؤں والی کرسی پر بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے۔ میں بھی ان کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ ہم بہت کم ہاتھ ملاتے تھے بس جھک کر ان کو سلام کرتے تو ان کے لبوں پر مسکراہٹ آتی اور وہ دھیمی آواز میں کہتے شاہ صاحب۔ شاہ کا لفظ ذرا لمبا کھینچ کر ادا کرتے جس سے شادمانی اور خوشی کا اظہار ہوتا تھا۔

یہ اکہتر کی انڈیا اور پاکستان کی جنگ کے شروع کے دنوں کی بات ہے۔ امجد صاحب نے ذرا رازداری اور بریکنگ نیوز کے طور پر سرگوشی کے انداز میں آہستگی سے بتایا کہ ساہیوال کے نواح میں ذخیرہ کے اندر کیمو فلاج پاک آرمی کی پلٹون دیکھی گئی ہے۔ سنا ہے کہ جنرل ٹکا خان بھی وہیں موجود ہیں۔ میں نے اپنا پسندیدہ سگار سلگایا جو میں نے سوڑی گلی میں واقع ایک پرانی تمباکو شاپ سے خریدے تھے۔ یہ ٹین کی سلم سفید رنگ کی ڈبی میں آتے تھے۔

امجد صاحب نے مجھے مذاق کرتے ہوئے خبردار کیا کہ سگار سلگانا بلیک آؤٹ میں خطرناک ہے۔ میں ہلکا سا مسکرایا۔ یہ ایک طرح سے سگریٹ نہ پینے کی تنبیہ تھی۔ جب میں ان کے گھر فرید ٹاؤن جاتا تو وہ اپنے چرمی سوٹ کیس سے گولڈ فلیک کی پیلی ڈبیا نکال کر پیش کرتے جو وہ ہمیشہ مہمان نوازی کے لئے مجھ ایسے شاعر کے لئے چھپا کے رکھتے تھے۔ حالانکہ وہ خود سگریٹ نوشی ترک کر چکے تھے۔ میرے علاوہ ناصر شہزاد بھی سگریٹ نوش تھے امجد صاحب کبھی ان کو بھی سگریٹ پیش کرتے تھے۔ اس روز انہوں نے مجھے یہ نظم سنائی جس کا یہ شعر حارث خلیق نے فیس بک کی پوسٹ میں درج کیا تو میں ماضی کے اس دن کی کیفیت میں چلا گیا۔

تیری منشاؤں کے محاذ پہ ہیں
شہر میں ٹکا خان بھی ہم بھی۔

شہر ساہیوال کے حوالے سے منیر نیازی، گوہر ہوشیار پوری، بشیر احمد بشیر، جعفر شیرازی، عسکری حسن، ناصر شہزاد اور مراتب اختر دبستان ساہیوال کے روشن نام ہیں۔ منیر نیازی ساہیوال سے جا کر لاہور بس گئے لیکن ان کا ذکر ہمیشہ دوستوں کی محفلوں میں ہوتا تھا۔ منیر نیازی ساہیوال سے ایک رسالہ سات رنگ نکالتے رہے جس کے شمارے اب ناپید ہیں۔ ان کے لاہور جانے کے بعد اشرف قدسی نے اس کی اشاعت جاری رکھی۔ اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو، یہ گیت انہیں لاہور نے دیا۔

ظفر اقبال اوکاڑہ سے ساہیوال وکالت کے سلسلے میں اکثر آتے رہتے تھے۔ وہ ہمیشہ سٹیڈیم ہوٹل ضرور رکتے اور مجید امجد کی موجودگی میں شاعری کی زبر دست محفل ہوتی۔ وہ اپنا تازہ کلام سناتے۔ ان دنوں ان کی لسانی تشکیلات کے ساتھ شعری مجموعے گلافتاب کا چرچا تھا۔ ظفر اقبال غزل کی مروجہ شکل کو مسمار کرنے پر تلے ہوئے تھے جس کے لئے بلاشبہ ان کے پاس کافی مواد بھی تھا۔ ، عزل کہ تھی ہی ظفر حرف با زناں گفتن

کہاں کہاں لئے پھرتے رہے غریب کو ہم،

عبدالعزیز خالد بہت قادرالکلام شاعر تھے اور عہد نو کی مختلف زبانوں کی شاعری کا مطالعہ بھی کرتے تھے۔ انہوں نے شاعری کے نئے مہم جو شعرا پر اپنے وسیع ذخیرہ الفاظ کے استعمال سے لسانی تشکیلات کے رجحان پر کاری ضرب لگائی۔ ان کا کلام نقوش وغیرہ میں شائع ہوتا تو اس کا ذکر بھی ہماری محفلوں میں ہوتا۔ ان محفلوں میں موجود ہر شخص باری باری اپنا کلام پیش کرتا۔ آخر میں امجد صاحب سے فرمائش کی جاتی تو وہ بھی اپنی تازہ نظم یا غزل عنایت کرتے۔ یہ ساہیوال کی روایت تھی کہ جو شاعر نئی غزل لکھتا وہ فوراً دوستوں کے ساتھ شیئر کرتا۔ اچھے شعر کا ذکر بلا امتیاز ہوتا تھا۔ ادب کا یہ قرینہ اس عہد کا حسن تھا۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ لکھنے کی تحریک ایک اجتماعی تحریک تھی۔ کمپیوٹر اور موبائل فون نے محبتوں کے دھارے بدل دیے ہیں۔ مجلسی زندگی کے انداز بھی بدل گئے۔

ذاتی تشہیر، ریٹنگ اور فائدے کی دوڑ اتنی تیز کہ معیار ادب ہی چلتا بنا۔ تخلیق کو منافع بخش بنانے کا بھوت سروں پر سوار ہے۔ سردیوں کی ایک صبح میں ایک دن سٹیڈیم ہوٹل آیا تو دیکھا کہ بابا جوگی (مالک سٹیڈیم ہوٹل) اور مجید امجد ہوٹل کے باہر دھوپ میں بیٹھے ہیں۔ مجھے دیکھ کے بابا جوگی بولے کہ آج آپ کا بھی امتحان لیتے ہیں۔ میں تھوڑا سا چونکا کرسی پر امجد صاحب کے پہلو میں بیٹھ گیا۔ ان دنوں میں پنجابی کلاسیکی ادب کا مطالعہ کر رہا تھا جس کا امجد صاحب کو علم تھا۔ وہ زیر لب مسکرا رہے تھے تو بابا جوگی نے مجھے چھیڑنے کے انداز میں ایک پنجابی محاورے کا مطلب پوچھا، دھون تے ٹیپ لانا، میں سوچنے لگا تو وہ ہنسنے لگے اور مجھے مطلب بتا کر شہاب دین بیرے کو میرے لئے چائے لانے کا کہا۔

امجد صاحب بہت آہستگی سے گویا ہوئے اور مجھے بتایا کہ بابا جوگی نے انہیں پنجابی لوک کلام سنایا جو بہت کمال کا تھا۔ میں نے بھی خواہش کی تو بابا جوگی نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ اگلی دفعہ سنائیں گے۔ امجد صاحب کے پاس ایک صاحب اکثر آ کر بیٹھتے تھے یہ راؤ صاحب تھے جو کوئی چیف سکاؤٹ وغیرہ تھے۔ وہ انہیں مزاحیہ رانگھڑی سٹائل کی شاعری سناتے تو امجد صاحب بہت انجوائے کرتے۔ ساہیوال میں ایک یادگار مشاعرہ ہوا تھا یہ غالباً اوائل ستر کا زمانہ تھا جب مصطفے ٰ زیدی ساہیوال کے ڈپٹی کمشنر تھے۔

جوش ملیح آبادی خصوصی طور پر مدعو تھے۔ وہ بذریعہ ٹرین ساہیوال آرہے تھے۔ مصطفے ٰ زیدی انہیں لینے کے لئے سٹیشن پر لیٹ پہنچے تو وہ گاڑی سے نہیں اترے اور گاڑی چل دی۔ مصطفے ٰ زیدی نے اپنی کار سڑک کے ساتھ ساتھ تیز رفتاری سے چلانے کے بعد انہیں اگلے سٹیشن پر گاڑی سے اتار لیا اور یوں وہ اس مشاعرہ میں جلوہ افروز ہوئے۔ اس مشاعرہ میں مجید امجد بھی شریک ہوئے تھے اور انھوں نے اپنی ایک نظم پڑھی تھی جس کی کچھ لائنیں یوں ہیں، اپنی مٹھی میں ہیں تھامے ہم مظلوموں کی تقدیروں کے ہنگامے ماجھے گامے، میں سوچتا ہوں کہ امجد صاحب نے اس مشاعرے کے لئے جس نظم کا انتخاب کیا وہ اس دور کے طرز احساس سے بیزاری کا اعلان ہے جس میں لفظوں کی گھن گرج اور قادر الکلامی سے اجتناب کیا گیا ہے۔ مشاعرے کے بعد محفل موسیقی بھی ہوئی جس میں فریدہ خانم نے اپنی آواز سے سب کو مسحور کر دیا۔ امجد صاحب فریدہ خانم کی آواز کو سیال آواز کہتے تھے اور ان کے بہت مداح تھے۔ اداکارہ نرگس پر لکھی ان کی نظم خود ایک متاثر کن نظم ہے جس سے شاعر کی یونیک حس جمال کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

ان کی اکثر نظموں میں غیر معمولی جمالیاتی کیفیت غالب نظر آتی ہے۔ انسانی جذبات و احساسات کی ایک ایسی دنیا آباد ہے جو ہمیں اپنے موجود کی عمومی سطح سے اوپر اٹھ کر تپش جنوں کے ساتھ ہی نظر آ سکتی ہے۔ جاروب کش ہو یا پنواڑی، درخت ہوں یا جنگل سب کو ایک فلسفیانہ انداز سے دیکھنے اور بیان کرنے کی صلاحیت اور مہارت ہر کسی کے بس کا روگ نہیں۔ ، تم کتنے خوش نصیب ہو آزاد جنگلو

اب تک چھوا نہیں تمہیں انسان کے ہاتھ نے
اب تک تمہاری صبحوں کو دھندلا نہیں کیا
تہذیب کے نظام کی تاریک رات نے،
، بیس ہزار میں بک گئے سارے ہرے بھرے اشجار،
نظم، ایک کوہستانی سفر کے دوران، کی یہ آخری لائن دیکھئے،
، آہ ان گردن فراذان جہاں کی زندگی
اک جھکی ٹہنی کا منصب بھی جنہیں حاصل نہیں،

اس نظم کی کیفیت کا ذکر انہوں نے میرے نام اپنے ایک خط میں کیا ہے۔ امجد صاحب نے کسی زمانے میں ضلع ڈیرہ غازی خان میں سخی سرور کے مقام پر واقع جس دربار پر حاضری دی تھی اس کے نواح میں ایک گہری کھائی کے ساتھ ایک تنگ پگڈنڈی ہے جسے زائرین پل صراط سے تشبیہ دیتے ہیں اور اسے عبور کرتے ہیں۔ میں وہاں اپنے والد کے پاس گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے گیا ہویا تھا۔ وہ وہاں اپنی ملازمت کے سلسلے میں مقیم تھے۔ سخی سرور کا دربار پہاڑ کے دامن میں واقع ہے جہاں ہر سال میلہ لگتا ہے اور یہ میلہ کسی زمانے میں دو ماہ تک جاری رہتا تھا۔ اسے سنگ کا میلہ کہتے ہیں۔ اس میلے میں دور دور سے سنگ (عقیدت مندوں کے قافلے ) ٹولیوں کی شکل میں آتے ہیں اور رقص کرتے ہوئے مزار پر چادریں چڑھاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments