بھوک


گامے کمہار کے گھر آج پھر کچھ نہیں پکا۔ دو دن پہلے اس کی بیوی رشیداں اچھو کریانے والے سے ایک پاؤ چنے کی دال ادھار لائی تھی پکانے کے لیے ۔ جس کو دیتے ہوئے اچھو نے تنبیہ کی تھی کہ آج آخری بار ادھار دے رہا ہوں۔ پچھلا حساب چکاؤ گی تو نیا کھاتہ شروع ہو گا اب۔ زیادہ ادھار بن گیا تو چکاؤ گی کہاں سے۔ ویسے بھی تم لوگوں کے ادھار کے لیے دکان نہیں کھول رکھی میں نے۔ منتیں کر کے ادھار لی گئی ایک پاؤ دال رشیدہ نے آدھی آدھی کر کے دو دن پکائی۔

پانچ بچے اور دو میاں بیوی کل ملا کے سات افراد، غربت اور ایک گدھے کا ساتھ۔ آج تو گدھا بھی کل سے بھوکا تھا۔ اناج بھی نہیں تھا کہ سوکھی روٹی پکا کر پانی کے ساتھ ہی کھا لی جاتی۔ رات سب نے اگلے دن کی آس پہ کاٹی۔ سورج کی کرنیں ابھی پوری طرح نہیں پھیلی تھیں کہ گامے کمہار نے گدھے کو جوتا اور اپنی گدھا گاڑی لے کر منڈی کی طرف نکل گیا۔ ٹوٹی سڑک کے اونچے نیچے راستوں پر گدھا بہت آہستہ چل رہا تھا۔ لیکن گامے کو منڈی پہنچنے کی جلدی تھی۔ تاکہ اس کو گاہک مل جائے۔ لیکن بھوک سے بے حال گدھا اس کا ساتھ دینے سے قاصر تھا۔ منہ سے مغلظات بکتا گاما گدھے کو سوٹے پہ سوٹا مار رہا تھا، تاکہ وہ جلدی چلے۔ لیکن گدھا پھر بھی تیز نہیں چل رہا تھا۔ گامے کی زبان اور ہاتھ تیزی سے چل رہے تھے۔ گدھا جب اڑی کرتا تو گاما اس سے زیادہ اڑیل ہو جاتا۔ پے در پے سوٹے لگنے سے گدھے کو زخم آ گئے اور پرانے زخموں سے تازہ خون رسنے لگا۔ بھوک اور زخموں سے بے حال گدھے کی ہمت جواب دے گئی تھی شاید۔

اور اس نے مزید چلنے سے انکار کر دیا۔ گاما گدھا گاڑی سے اتر کر اب گدھے کو ہاتھ سے کھینچنے کی کوشش کرنے لگا۔ گاما جو خود بھی رات سے بھوکا تھا، گدھے کی منتوں پہ اتر آیا۔ دیکھ تو چلے گا تو ہم دونوں کو کچھ کھانے کو ملے گے۔ گدھا گامے کو دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں کے گوشے گیلے تھے اور کچھ پانی آنکھ کے نیچے جما ہوا تھا۔ گو کہ گدھا برداشت کرنے والا جانور ہے پھر بھی درد کی شدت اس کی چال اور آنکھوں سے عیاں تھی۔ اسے گدھے کی حالت پہ ترس بھی آیا لیکن وہ ترس کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ گاما کسی نہ کسی طرح کھینچتے کھانچتے گدھے کو منڈی تک لے آیا۔ گھر سے منڈی تک آتے اس کو دو ڈھائی گھنٹے لگ گئے۔

منڈی آ کر اس نے اپنی گدھا گاڑی ایک دکان کے آگے کھڑی کی اور اپنے ساتھی فیقے سے گدھے کو کھلانے کے لیے تھوڑا سی گھاس مانگی۔ تاکہ وہ بوجھ ڈھونے کے قابل ہو سکے

گامے کو آج بھی کوئی گاہک نہیں ملا۔ سورج ڈھلنے لگا دن سے رات ہو گئی تو اس کی سکت بھی جواب دے گئی۔ کل رات تو اگلے دن کی آس پہ کاٹی تھی اب گھر واپسی کس امید پہ کرتا۔ گدھا اور گاما دونوں مایوس تھے۔ بھوکے بچوں کے چہرے گامے کی آنکھوں کے سامنے آرہے تھے۔ غریب کے یار بیلی بھی اس جیسے ہی غریب ہوتے ہیں۔ جو خود کسی سہارے کی تلاش میں ہوں وہ کسی دوسرے کو کیسے کھڑا کر سکتے ہیں۔ اور گاما تو ان غریبوں سے بھی کتنا قرض لے چکا تھا۔

اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کرے۔ اب کس سے قرض مانگے۔ جانے کیا ہو گیا تھا کہ کتنے دنوں سے اسے کوئی کام ہی نہیں مل رہا تھا۔ وہ خود بھی بھوک سے نڈھال ہو چکا تھا۔ اس کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا اور وہ بے ہوش ہو کے گر پڑا۔ اس کے گرد لوگوں کا ہجوم اکٹھا ہو گیا۔ اس کا محلے دار بالا جو ادھر ہی موجود تھا اپنے ریڑھے پہ ڈال کر اسے ہسپتال لے گیا۔ جہاں ڈاکٹر نے بتایا کہ اسے فالج کا اٹیک ہوا ہے۔ ڈاکٹر نے ضروری طبی امداد کے بعد اسے ہسپتال سے خارج کر دیا کہ یہ لمبی چلنے والی بیماری ہے سو اس کو گھر لے جایا جائے۔

بالا گامے کو لے کر گھر پہنچا تو گلی کے لوگوں نے مل کر گامے کو ریڑھے سے بستر تک منتقل کیا۔ رشیداں نہ سمجھنے کی حالت میں آگے بڑھی اور گامے کی حالت دیکھ کر وہیں ڈھے گئی۔ بالے نے کندھوں سے پکڑ کر رشیداں کو سہارا دیا۔ اور جاتے ہوئے اس کی مٹھی میں چند نوٹ بھی تھما دیے۔ رشیداں مٹھی میں دبے نوٹ دیکھتی کبھی بچوں کو اور کبھی گامے کا ایک طرف کو ڈھلکا وجود۔ بالے کے دیے ان چند سو سے وہ کیا کیا کرے گی۔ اسے گامے سے زیادہ گھر کی فکر ہوئی۔

بالے کے نکلتے ہی اچھو کریانے والا دوڑتا ہوا آیا اور گامے کی حالت پہ افسوس کرنے لگا۔ رشیداں کی پیٹھ پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے کہنے لگا، رشیداں تجھے کچھ بھی چاہیے ہو دکان سے منگوا لے بلا جھجک۔ پیسوں کی فکر نہ کرنا تیری اپنی دکان ہے۔ مشکل وقت میں اپنے ہی کام آتے ہیں۔

صبح بالا پھر آیا، ہاتھ میں شاپر پکڑے، دیکھ بھر جائی فکر نہ کرنا میں تیرے ساتھ ہوں۔ جہاں بھی جانا ہو میں تجھے لے جایا کروں گا۔ خود بھی دو ٹیم آتا رہوں گا جو بھی کام ہو بس تو حکم کرنا بندہ حاضر ہو جائے گا۔ آخر خدا کو بھی تو منہ دکھانا ہے، بالے نے رشیداں کے وجود پہ بھرپور نظر ڈالتے ہوئے کہا۔ رشیداں خالی نظروں سے سب دیکھتی، سنتی رہی تھی۔ یہ وہی مرد تھے جو چار دن کا ادھار نہیں رکھتے تھے۔ لیکن آج گامے کے بستر پہ پڑتے ہی اس پہ مہربان ہو گئے تھے۔ گاما ان کو دیکھ رہا تھا۔ سمجھ رہا تھا۔ لیکن بے بس تھا۔ اگر وہ ٹھیک ہوتا تو کس کی جرات تھی کہ اس کی بیوی کی طرف میلی نظر سے دیکھ سکتا۔ گاما تو اس کی آنکھیں ہی نکال دیتا۔ لیکن اس وقت وہ لاچار تھا۔ بھوک اور بیماری سے اس کی آنکھیں اندر کو دھنس گئی تھیں۔

بھوک بھی عجب شے ہے۔ ہمیشہ کے لیے ختم نہیں ہوتی۔ کتنا ہی پیٹ بھر کے کھا لو لیکن تھوڑے وقت کے بعد یہ پھر چمک اٹھتی ہے۔ پیٹ کی بھوک مٹتی ہے نہ جسم کی۔ پہلے خالی پیٹ بھرا جاتا ہے اور پھر جسم کی بھوک مٹائی جاتی ہے۔ پیٹ اور جسم ہمیشہ خالی ہی رہتے ہیں۔ دونوں کتنا ہی سیر ہو جائیں لیکن کچھ وقت کے بعد انھیں پھر بھوک ستانے لگتی ہے۔ اور ہر ایک کو صرف اپنی بھوک کی فکر ہوتی ہے۔ یہ کمبخت بھوک اتنی ظالم شے ہے کہ ہر چیز کا فرق مٹا دیتی ہے، حلال اور حرام کا بھی۔

لیکن رشیداں اس بھوک کے آگے ہتھیار نہیں ڈالنے والی تھی۔ آج بالا اور اچھو بھاگے بھاگے آرہے تھے۔ کل ان کی دیکھا دیکھی دوسرے مردوں کو بھی جرات ہوگی۔ رشیداں نے گامے کی عزت اور پرائے مردوں کو ان کی حد میں رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس نے عہد کیا کہ وہ خود گدھا گاڑی چلا کر اپنی اور بچوں کی بھوک مٹانے کا سامان کرے گی لیکن خود ان بھوکے مردوں کی خوراک نہیں بنے گی۔ مردوں کے اس معاشرے میں یہ مشکل تھا لیکن ناممکن نہیں۔ کہ اگر یہ لوگ حرام کھانے میں عار محسوس نہیں کر رہے تو وہ حلال کمانے میں شرم کیوں کرے۔ رشیداں نے صحن کے ایک کونے میں بندھا گدھا کھول کر ریڑھے میں جوتا اور منڈی کی طرف چلی گئی۔

زیبا شہزاد
Latest posts by زیبا شہزاد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments