زکواۃ کی ادائیگی کے طریقہ کار کے حوالے سے ایک جائزہ


ابھی رمضان المبارک کی آمد آمد ہے اور اس میں بہت سے مسلمان اپنی اپنی زکواۃ کی ادائیگی کا فریضہ ادا کریں گے۔ ویسے تو اس کی فرضیت رمضان المبارک میں نہیں ہے لیکن زیادہ ثواب اور یاد رکھنے کے حوالے سے زیادہ تر افراد کی یہی پریکٹس ہوتی ہے۔ یہ فرض عبادت ہے اور بنیادی رکن اسلام ہے۔ اسی طرح اس کی *اہمیت* کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ قرآن میں تقریباً 70 مقامات میں اس کا ذکر نماز کے ساتھ آیا ہے۔

مسلم دور حکومت یا کہہ لیں کہ جب ہم عروج میں تھے تب تو مسلمان اپنی اپنی زکواۃ ریاست کے *بیت المال* میں جمع کراتے تھے اور پھر ریاست اسے مفاد عامہ کو مدنظر رکھتے ہوئے خرچ کرتی تھی۔ جہاں باقی چیزوں کو زوال نے متاثر کیا وہیں زکواۃ بھی آج اجتماعی عمل سے نکل کر ایک *انفرادی عمل* کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اور ہر بندہ اپنی اپنی سمجھ بوجھ کو ، حالات کو ، اپنے اردگرد کے ٹرینڈز کو دیکھ کر اس کی ادائیگی کرتا ہے۔

اولین ترجیح تو یہی ہونی چاہیے کہ ہم دوبارہ اس کی *اجتماعی افادیت* کو بحال کرنے کے لئے جدوجہد کریں اور اسے دوبارہ اسی طرز پر لے کر جائیں۔ اور اس کی *مسلسل جدوجہد* کرتے رہیں۔ ساتھ ساتھ ہم یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح ہم اس کی ادائیگی کو بہتر کر سکتے ہیں، یا ہمیں کس سوچ سے اس کی ادائیگی کرنی چاہیے۔ اس حوالے سے میری اس پر جو سوچ ہے یا رائے کہہ لیں وہ میں آج آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔

سب سے بہتر یہ ہو سکتا ہے کہ ہم ایسا کام کریں، ایسی حکمت عملی یا طریقہ کار اختیار کریں یا اس طرح سے اگلے کی مدد کریں کہ وہ ”*اپنے پاؤں پر کھڑا ہو جائے *“ ۔ ہمیں سب سے زیادہ اپنی توانائیاں اس چیز کو سوچنے پر مرکوز کرنی چاہئیں کہ وہ کون سے طریقہ کار ہو سکتے ہیں۔ بجائے 20 لوگوں کی مدد کے، میں ٹارگٹ رکھوں کہ میں نے 1 گھر کو یا اس کے سربراہ کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنا ہے، اسے اس قابل بنانا ہے کہ وہ آئندہ کسی سے مدد نا لے بلکہ مدد کرنے والا بنے۔ یا اس کا ایسا مسئلہ حل کیا جائے جو اس کی پوری زندگی اسے فائدہ دے اور آپ کے لئے صدقہ جاریہ بنے۔ اور اس سب میں ہم سب سے پہلے اپنے قریبی دائرے سے شروع کریں۔ سب سے پہلے بہن بھائی، پھر قریبی رشتہ دار، دوست اور پھر باہر کے لوگ۔

اگر میں پاکستانی معاشرے کی بات کروں تو مجھے ابھی تک * 2 بنیادی سنگین مسائل* سمجھ آئے ہیں جو زیادہ تر لوگوں کے ساتھ منسلک ہیں۔

1۔ اپنے گھر کا نا ہونا۔
2۔ روزگار یا ملازمت کا نا ہونا۔

اس حوالے سے ہم یہ کر سکتے ہیں کہ * 2.5۔ 3 مرلہ* کا مکان سنگل سٹوری بنا کر دیں۔ میں جانتا ہوں یہ مشکل کام ہے، لیکن اگر پورا خاندان مل کر ایک جگہ زکواۃ اکٹھی کرے، اور 2۔ 3 سال بیشک لگ جائیں، لیکن یہ کام کردے تو ایک خاندان کا زندگی بھر کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ اگر نہیں تو اس کے *کرایہ کی ادائیگی* اپنے سر پر لے لیں۔ یہ بھی بہت بڑا ریلیف ہو سکتا ہے۔

دوسرا کسی کو موٹر سائیکل، رکشہ، ٹیکسی، سوزوکی یا گاڑی لے دیں جو آن لائن چلا کر کمائی کر سکے۔ چھوٹا سا کریانہ ڈال دیں، عورتوں کے لئے سلائی کڑھائی کا انتظام کر دیں۔

کسی بچے یا بچی کی *تعلیم کا خرچہ* اپنے سر لے لیں۔ کل کو وہ پڑھ لکھ کر کسی جگہ پہنچ کر اپنے خاندان کو سپورٹ کرے گا / کرے گی، صدقہ جاریہ ہے۔

یہ صرف مثالیں ہیں آپ اس طرح کا ملتا جلتا کچھ بھی کر دیں مقصد یہ کہ وہ بندہ یا فیملی ایک وقت آئے تو خود اپنے اخراجات اٹھانے کے قابل ہو جائے۔ اپنی زکواۃ کو اس طرح سے قابل عمل میں لے کر آئیں۔

باقی جو انفرادی سطح پر جتنے بھی اعمال ہیں وہ قابل تحسین ہیں، اللہ پاک ان کا اجر بھی دیتا ہے، لیکن ہم نے یہ دیکھنا ہے اس کا نتیجہ کیا نکل رہا ہے۔

میں یقین سے کہتا ہوں کہ 15۔ 20 سالوں میں آپ اپنا پورا خاندان سیٹ کر سکتے ہیں۔
ذرا سوچیئے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments