معاشرے کی بیٹی سوچ میں ہے کہ کیا وہ شادی نہ کرے؟


”میں اگر شادی کا لائسنس بناتا تو تین قسم کے نکاح نامے ہوئے سفید نکاح نامے ان لوگوں کے لیے جو دن رات ایک دوسرے کے قرب کی آرزو رکھتے ہیں۔ گلابی کارڈ دنیاوی وجوہات والوں کے لیے مثلاً تنہائی سے بچنے کے لیے ماں باپ کی ناک بچانے کے لیے۔ وغیرہ وغیرہ۔ اور سبز کارڈ صرف ان کو دیا جاتا جو افزائش نسل کے لیے لائسنس چاہتے ہیں۔ صرف سبز کارڈ مستقل ہوتا، باقی سب کارڈ سال دو سال کے بعد ری نیو کرانے پڑتے۔

”لائسنس سب سفید رنگ کا بنواتے اور بچے سب کے ہو جاتے پھر۔“
(راجہ گدھ۔ بانو قدسیہ)

اور جب کوئی لڑکی پوچھتی ہے کیا ہم صرف بچے پیدا کرنے کے لیے دنیا میں آئے ہیں تو سمجھ آتا ہے کہ یہ سوال معاشرتی نا انصافی کی ایسی زمین میں بوئے گئے انسانی احتجاج کے بیجوں سے پھوٹا ہے جس میں بچہ پیدا کرنا کسی نہ کسی طرح ایک کم تر درجے کا کام سمجھا گیا تھا۔ پھر نیم پختہ سماجی فلسفے اس کو پانی دیتے ہیں یہاں تک کہ اکیسویں صدی کے باشعور خود آگاہ دماغ کا سوال بھی یہی ہوتا ہے آخر میں ہی کیوں؟ یہ عورت دماغ اپنی بے تاب تخلیقی توانائی سے چور۔ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اسے اور اس کی ہم جنسوں کو کس بنیاد پر پیدا ہوتے ہی باقی آدھی آبادی سے کم تر قرار دے دیا گیا ہے۔

کہیں تو اسے جینے کا حق تک نہیں دیا جاتا۔ لیکن اگر زندہ رکھا بھی جائے تو پہلے ہی دن اسے زندگی کی دوڑ میں ہارا ہوا تصور کر لیا جاتا ہے اور ایک لوزر ہی کی طرح ٹریٹ کیا جاتا ہے ۔ تب وہ پوچھنے پر مجبور ہوجاتی ہے کہ اس میں اور کسی بھی مادہ جانور میں کیا فرق ہے۔ مغربی معاشرہ اسے تسلی دیتا ہے کہ وہ کوئی جانور نہیں۔ وہ اور معاشرے کا کوئی بھی مرد ہر لحاظ سے برابر ہیں اور کوئی ایسا کام نہیں جو وہ نہیں کر سکتی۔ اور اگر کوئی ایسا نہیں سمجھتا تو وہ پدر سری معاشرے کا مارا ہوا ہے اور اس کی عقل میں فتور ہے۔

لیکن مقام حیرت ہے کہ یہی سوال ایک ایسے معاشرہ میں بھی اٹھایا جاسکتا ہے جس کی نظریاتی بنیادوں میں عورت کو ماں بننے کے بعد انسانیت کا بلند ترین مقام حاصل ہو جاتا ہے اور انسانی کامیابی کی حقیقی ترین سند اس کے قدموں تلے آجاتی ہے۔ اور اسے اولاد کی غیر مشروط محبت اور حسن سلوک کے سزاوار ہونے کا تہرا حق حاصل ہوجاتا ہے۔

آج معاشرے کی بیٹی سوچ میں ہے کہ کیا وہ شادی نہ کرے؟ یا پھر بچہ نہ پیدا کرے یا یہ کہ کتنے بچے پیدا کرے؟ وہ کنفیوزڈ ہے کیونکہ معاشرے کی ماں نے اسے صحیح جوابات نہیں مہیا کیے۔ اس نے کبھی اس پر بچہ پیدا کرنے اور انسان بنانے کا فرق واضح نہیں کیا۔ اس نے کبھی اپنی بیٹی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اقرار نہیں کیا کہ پدر سری معاشرہ میں جس مرد کی سوچ خلل پیدا کر رہا ہے وہ دراصل اس ہی کی گود میں کھیلا تھا۔

یہ وہی ماں تھی جو شاید کبھی گھر سے نہیں نکلی۔ کیریر نہیں بنایا۔ راتوں کو جاگی، اپنی اولاد کو کھلایا، پلایا اٹھایا بٹھایا سکھایا سمجھایا۔ پڑھایا۔ وہی ماں جس کی زندگی کا مقصد بچے کی دیکھ بھال کے سوا کچھ نہی تھا۔ آج کی کنفیوزڈ عورت اور اس کے ناپسندیدہ مرد کی تربیت کا بوجھ اس ہی ماں کے کاندھوں پر تھا۔ جس نے اپنی خواہشات، دلچسپیاں، عزائم، دوستوں کی محفلیں سب قربان کر دیں تھیں۔ لیکن عورت کی اتنی قربانیوں کے بعد بھی ظلم عورت پر کیوں؟ شاید اس لیے کہ اسی ماں کے باورچی خانے میں پدرسری معاشرے کی پہلی زیادتی رات کے کھانے کی نامنصفانہ تقسیم پر ہوئی تھی۔

پھر ان نا انصافیاں کی لمبی لسٹ کی وجہ سے ہی آج کی نئی عورت اپنی خواہشات دلچسپیاں اور عزائم مزید قربان نہیں کرنا چاہتی۔ کبھی وہ اولاد اور کیریر کو ساتھ ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کرتی ہے۔ کبھی اولاد پیدا کرنے کے سوال پر سوچ بچار کرتی ہے۔ بیشتر تو اس کی نئی نسل کی ایک کثیر تعداد نیم تعلیم یافتہ پرائیویٹ سکول نرسریز میں اور کہیں گھروں رہن رکھی ہوئی گاؤں کی غیر تعلیم یافتہ بچیوں کی گودوں میں ان کی گھر کیوں تلے پروان چڑھ رہی ہے۔

اس نا انصافی، ناکافی جذباتی پرداخت۔ کم سنی میں روا رکھے سماجی تشدد اور زیادتیوں کی فہرست ابھی رقم ہونی ہے۔ نہیں بلکہ مغرب میں معاشرے کے اس پہلو پر بہت کام ہوا ہے۔ ان کی ریسرچ کی روشنی میں ہم بھی اپنے مستقبل میں جھانک سکتے ہیں۔ ماضی میں مغرب کی صنفی نا انصافیاں نسبتاً متشدد تھیں۔ اور بہت سے بنیادی مسائل کا حل وہاں کی عورتوں نے ابھی پچھلی صدی ہی میں نکالا ہے۔ عورت کی تعلیم، ووٹ کا حق، تنخواہوں کا مسئلہ۔ مساوی حقوق وغیرہ کو بہت حد تک حل ہوئے ہیں۔ پھر بھی ان کے جسم پر ان کے حق اور اسقاط کا مسئلہ ابھی پوری طرح حل نہیں ہوا۔ بلکہ کام جاری ہے

ہمارے معاشرے کا ایک بڑا طبقہ جذباتی طور پر ناپختگی کا شکار ہونے کے باعث اپنے تمام تر مسائل کا الزام دوسروں کے سر ڈالنے کا عادی ہے۔ اور اسی لحاظ اس کا حل بھی باہر سے ہی متوقع ہوتا ہے۔ لیکن اس دفعہ حل معاشرے کے اندر ہی سے نکالنا پڑے گا۔ انسان کا بچہ ہی وہ مخلوق ہے جو پیدا ہونے کے بعد بھی ایک عرصے تک اپنی نگہداشت کے لیے والدین خصوصاً ماں پر انحصار کرتا ہے۔ اور قدرت اس کی ماں ہی کو ان عناصر سے ودیعت کرتی ہے جس کی اسے جسمانی جذباتی و روحانی ضرورت ہوتی ہے۔

بچہ صرف ماں کے جسم سے صرف پیدائش سے پہلے اور فوراً بعد ہی توانائی اخذ نہیں کرتا بلکہ وہ پیدا ہونے کے بعد بھی روحانی اور جذباتی طور پر منسلک ہوتا ہے۔ بہت سی تحقیقات اس بات کی توثیق کرتی ہیں کہ ماں کی آواز اس کے موڈ کا اتار چڑھاؤ خوشی غم وغیرہ سے بچہ براہ راست متاثر ہوتا ہے۔ مفکرین سمجھتے ہیں عظیم مائیں عظیم قومیں پروان چڑھاتی ہیں۔ پہلے سات سال ہی وہ وقت ہے جب ماں اپنے بچوں کو آنے والے دنوں کے لیے جذباتی ذہانت کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔

معاشرتی نا انصافیوں اور استحصالی رویوں سے تنگ عورت اگر اس وقت اپنے پلو سے چپکے بیٹے کو عورت سمجھائے۔ خود اپنی بیٹی کی عزت کر کے اپنے بیٹے کو اس کا مقام سکھائے۔ بنیادی حقوق میں بچوں کے درمیان انصاف کا معیار قائم رکھے۔ اللہ کے اصولوں کی پابندی کر کے اپنے نقش قدم پر چلتے انسان کے بچے کی بہشت تک راہنمائی کرپائے تو ہی اس کی بیٹی سمجھ سکے گی کہ معاشرے کیسے تخلیق ہوتے ہیں۔ ان کی پرداخت کیسے ہوتی ہے۔ کامیابی کی سمت دراصل کون متعین کرتا ہے۔ تب پھر وہ نہ صنفی برابری کے مصنوعی معیار تراشے گی اور نہ اپنی ذات پر اپنی مرضی کی دلیل سڑکوں پر تلاشے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments