بھوپال کی والی ریاست نواب شاہ جہاں بیگم کے قومی و علمی کارنامے


نواب شاہ جہاں بیگم کے قومی و علمی کارنامے
1838 تا 1901

بھوپال ہندوستان میں خود مختار ریاست بھوپال کا دارالخلافہ ہوتا تھا۔ اس کو جھیلوں کا شہر بھی کہا جاتا کیونکہ یہاں بہت سی قدرتی اور انسان کی بنائی جھیلیں پائی جاتی ہیں۔ برطانوی دور میں اس کا فرمانروا نواب آف بھوپال ہوتا تھا۔ یہاں بدھ مذہب کے عروج و زوال کے نقوش پائے جاتے ہیں۔ ایک قدیم خانقاہ ہے جس کی تاریخ 250 ق م سے شروع ہوتی ہے۔ بھوپال کا نام قدیم بادشاہ راجہ بھوجہ کے نام پر ہے اور پال سے مراد پانی کا ذخیرہ یا ڈیم۔

اس کی بنیاد گیارہویں صدی میں راجہ بھوجہ نے رکھی تھی۔ اس لئے ایک دور میں اس گاؤں کا نام بھوجپال رہا تھا۔ جدید بھوپال شہر کی بنیاد 1723 میں سردار دوست محمد خاں دلیر جنگ ( 1660۔ 1726 ) نے رکھی تھی جو مغل فوج میں پشتون سپاہی تھا۔ بھوپال کے گاؤں میں اس نے اپنی رفیق حیات فتح بی بی کے نام پر فتح گڑھ قلعہ تعمیر کیا جو اگلی چند دہائیوں میں شہر کی صورت اختیار کر گیا۔ بھوپال کا آخری فرماں روا نواب حمید اللہ خاں 1926۔ 49 r۔ تھا۔

برطانوی راج کے دوران بھوپال میں چار اولو العزم، بیدار مغز بیگمات قدسیہ بیگم، سکندر بیگم، شاہ جہاں بیگم اور سلطان جہاں بیگم ایک سو سات سال تک 1819۔ 1926 کے عرصہ میں حکمران رہیں۔ انہوں نے اپنے اوصاف کریمانہ سے ایک زمانے کو متحیر کر دیا کہ حکمرانی کی صفات محض مردوں ہی کے لئے مخصوص نہیں بلکہ عورتیں بھی اس سے بہرہ ور ہیں۔ بھوپال کو ایک فلاحی اور قابل تقلید ریاست بنانے میں بیگمات کا بے نظیر کردار تاریخی حیثیت رکھتا ہے۔

نواب گوہر بیگم قدسیہ اٹھارہ سال تک 1819۔ 1837 مسند آرائے ریاست رہیں۔ قدسیہ ذی فہم، دلیر اور نہایت بہادر خاتون تھی۔ ہندوستان کے مختلف علاقوں سے عالموں، طبیبوں، کو بھوپال میں آباد کیا جس سے علم و ادب کو فروغ ملا۔ ان کی اکلوتی بیٹی سکندر بیگم تھی جس نے اپنی بیٹی شاہ جہاں کے عہد طفولیت 1844۔ 1868 میں حکمرانی کی اور بیٹی ولی عہد تھی۔ وہ آزادی نسواں کی حامی تھیں اس لئے نقاب اور پردہ ترک کر دیا بلکہ شیر کا شکار کرتیں اور پولو کھیلتی تھیں۔ سواری اسپ اور نشانہ بازی کی بھی ماہر تھیں۔

نواب سکندر بیگم ( 1860۔ 1868 ) نے آٹھ سال تک حکومت کی۔ اپنے دور حکومت میں انہوں نے ٹکسال قائم کیا، سیکریٹیریٹ (دفتر معتمدین) پارلیمنٹ (مجلس شوریٰ ) اور جدید عدلیہ (بشمول کورٹ آف اپیل ) کے ادارے قائم کیے ۔ انہوں نے کتابوں کی اشاعت و طباعت کے لئے مطبع سکندری شروع کیا۔ بھوپال کی تاریخ جمع کر نے کے لئے دفتر تاریخ قائم کیا اور صاحب نظر عالم دین مولوی صدیق حسن کو اس کا ناظم مقرر کیا۔ پہلی خاتون حکمران تھیں جس نے حج کیا، ان کے وفد میں ایک ہزار افراد شامل تھے جس میں زیادہ تر عورتیں تھیں۔ مکہ میں چار ماہ قیام رہا۔ واپسی پر سفر نامہ حجاز لکھا جو 1922 میں نواب سلطان جہاں بیگم نے شائع کیا تھا۔ نہ جانے کیوں یہ اردو میں ابھی تک طبع نہیں ہوا۔ البتہ اس کا انگلش ترجمہ 1870 میں شائع ہوا جو برطانوی افسر کی بیوی مسز اوزبورن  نے کیا تھا۔ ایک اور ترجمہ کرنل ولکنسن نے کیا جو 2008 میں برطانوی پروفیسر شوبان لیمپرٹ ہرلی نے ایڈٹ کر کے انڈیانا یونیورسٹی پریس، امریکہ سے شائع کیا۔

عالموں اور احباب کو تاکید کی ہوئی تھی کہ جس قدر نایاب کتابوں کے قلمی مسودے جہاں کہیں مل جائیں وہ بھوپال بھجوائے جائیں۔

بھوپال سے شائع ہونے والی کتابوں کے مصنفین کو انعام دیا جاتا تھا۔ انہوں نے ترکی کے عالم شیخ احمد داغستانی سے قرآن مجید کا ترکی میں ترجمہ کروایا۔ شاہ عبد العزیز کے انتقال کے بعد قرآن کی تفسیر فتح العزیز کی تکمیل ایک عالم کو پانچ سو روپے کے مشاہرہ پر رکھ کر مکمل کروائی۔

رسالہ تقویت الا ایمان کو اپنے ہاتھ سے نقل کیا نیز اپنی پسند کی احادیث کا مجموعہ شائع کیا۔ اردو کو ریاست کی سرکاری زبان 1859 میں قرار دیا۔ انگریزوں نے جنگ آزادی کے دوران 1857 میں جامع مسجد دہلی کو بند کر دیا تھا۔ انہوں نے جامع مسجد کو کھلوایا اور وہاں دوران سفر اس کی خود صفائی کی اور نماز ادا کی۔ سکندر بیگم نے 1857 کی جنگ آزادی کے دوران برطانیہ کی حمایت کی جس کے صلے میں ان کو 1858 میں بادشاہ کے خطاب سے سرفراز کیا گیا۔

سکندر بیگم نے اپنے انتقال 1868 تک حکومت کی جس کے بعد ان کی بیٹی شاہ جہاں بیگم 1901 تک حکمران رہیں۔ اس کے بعد شاہجہاں بیگم کی لخت جگر فردوس آشیاں سلطان جہاں بیگم ( 1858۔ 1930 ) سریر آرائے سلطنت ہوئی۔ وہ پچیس سال تک حکومت کر کے 1926 میں اکلوتی اولاد نواب زادہ حمید اللہ خاں ( 1894۔ 1960 ) کے حق میں دست بردار ہو گئیں۔ ماں اور بیٹی کے درمیان 27 سال تک کشیدگی رہی اور کوئی بات چیت نہیں کی جس کے ذمہ دار کچھ لوگ تھے جن کی منفعت اسی رنجش پر منحصر تھی۔

سلطان جہاں کی یادداشتیں تین جلدوں میں شائع ہوئیں۔ وہ پہلی خاتون تھیں جو 1920 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی چانسلر مقرر ہوئی تھیں۔ علی گڑھ میں طلباء کی رہائش گا نام بیگم سلطان جہاں ہوسٹل ہے۔ حج کی سعادت سے بہرہ ور 1903 میں ہوئیں، انگلش میں یہ سفرنامہ ”دی سٹوری آف پلگرے میج آف حجاز“ لائبریری آف کانگریس کی ویب سائٹLOC۔ GOV پر پڑھا جا سکتا ہے۔

نواب شاہ جہاں بیگم

ملکہ یا رانی کی بجائے والی ریاست کو بیگم کا لقب ملتا تھا۔ اس لئے جتنی خواتین نے یہاں بھوپال میں حکمرانی کی ان کے نام کے ساتھ بیگم لکھا جاتا تھا۔ خلد مکان نواب شاہ جہاں بیگم 20 جولائی 1838 کو قلعہ اسلام نگر میں منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئیں تھیں۔ والد کا نام محمد جہانگیر خاں اور والدہ نواب آف بھوپال سکندر بیگم تھیں۔ سن بلوغت کو پہنچنے کے بعد 1868 میں مسند آرائے ریاست ہوئیں۔ پہلے شوہر نظر محمد خاں کی وفات کے بعد حکومت برطانیہ کے مشورے سے تین سال بعد منشی سید صدیق حسن خاں قنوجی سے دوسری شادی 1871 میں ہوئی۔

اس دور میں بیواؤں کا شادی کرنا معیوب سمجھا جاتا تھا۔ صدیق حسن ( 1832۔ 1890 ) عربی، فارسی، اردو کے سکہ بند عالم تھے۔ اردو میں ان کے اشہب قلم سے ایک سو سے زیادہ کتب نمودار ہوئیں۔ ان کی عربی کی کتابیں قاہرہ میں طبع ہوتیں اور عرب ممالک میں مفت تقسیم کی جاتیں۔ انہوں نے کل 222 کتابیں تصنیف کیں۔ بلکہ بعض ایک مصدر کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان کے اپنے چھاپہ خانے کا نام مطبع صدیقی تھا۔ صدیق حسن بھوپال میں اس وقت ناظم دفتر تاریخ، مدرسہ سلیمانیہ کے سرشتہ تعلیم کے افسر کی خدمات سرانجام دینے پر مامور تھے۔ ان کی زریں خدمات کے عوض میں ان کو خانی کا خطاب ملا تھا۔ نواب صدیق حسن متبحر عالم تھے اور شاہ جہاں بیگم کے تحقیقی و علمی کاموں میں صلاح کار تھے۔ نواب شاہجہاں بیگم کی ازدواجی زندگی میں چھبیس بہاریں گزارنے کے بعد فروری 1890 کو راہی ملک عدم ہوئے۔

تعلیم کا فروغ

زمام اقتدار سنبھالنے کے بعد مدبر اور اعلیٰ منتظم شاہ جہاں بیگم نے ریاست کا دورہ کیا۔ ٹکسال قائم کیا جس سے ایک نیا سکہ جاری کیا جس پر محض ش اور سن ہجری نقش ہوتا تھا۔ تیس سال بعد 1898 میں ریاست میں حکومت برطانیہ کا سکہ جاری کیا۔ جب بنگال، مدراس اور گوالیار میں قحط پڑا تو حضور عالیہ نے کمال فیاضی سے قحط زدگان کی مدد کی۔ جرائم کو روکنے کے لئے نئے قوانین تشکیل دیے۔ ایک جیل بنوائی جہاں قیدیوں کو ہنر سکھانے کا بندوبست تھا۔

ریاست میں دو شفا خانے پرنس آف ویلز ہسپتال (حمیدیہ ہسپتال) اور زنانہ لیڈی لینز ڈاؤن ہسپتال (سلطانیہ زنانہ ہسپتال) تعمیر کیے گئے۔ چیچک کے ٹیکے لگانے کے لئے خاص انتظام کیا گیا۔ بلکہ ٹیکہ لگوانے والوں کے لئے انعام بھی مقرر کیا۔ زنانہ شفاخانے میں یتیم لڑکیوں کو دایہ گیری اور تیمار داری کی تعلیم دی جاتی تھی۔

تعلیم کے فروغ کے لئے دو بچیوں کے سکول اور 76 پرائمری سکول شروع کیے ۔ تعلیم کے فروغ کے لئے تعلیم کا شعبہ قائم کیا جس کا نام نظارۃ المعارف العمومیہ تھا۔ والد کی یاد میں مدرسہ جہا نگیر یہ شروع کیا۔ صنعتی تعلیم کو عام کر نے کے لئے پرنس آف ویلز ٹیکنیکل سکول کی بنیاد رکھی۔ مد ر سہ سلیمانیہ میں چار زبانوں (اردو، عربی، فارسی انگلش) کی تعلیم شروع کی گئی۔ مدرسوں کے نصاب مقرر کیے ۔ سر سید احمد خاں کے محمڈن اینگلو اوریئنٹل کالج کی مسجد کی تعمیر کے لئے دس ہزار روپے کا عطیہ دیا۔ سائینٹفک سوسائٹی علی گڑھ کی سر پرست تھیں۔ سلائی اور دست کاری میں اتنی دلچسپی تھی کہ اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئی اشیاء ملکہ وکٹوریہ کو تحفہ میں بھیجا کرتی تھیں۔

ایک کارخانہ کاٹن مل تعمیر کروایا جس میں روئی کا کام ہوتا نیز آٹا بھی پیسا جاتا تھا۔ ٹیکنیکل سکول قائم کیے جہاں دری، نواڑ، قالین، چکن، خیمہ سازی، جراب سازی، درزی کا کام اور زیورات بنانے کا کام سکھایا جاتا تھا۔ لڑکیوں کے لئے چاندی کے تاروں سے گوٹا، پٹھا، پیچک، لیس، کلابتو کا کام، کامدانی، دو شالہ بانی اور جوتے بنانا سکھا یا جاتا تھا۔ اوجین، بھوپال، جھانسی اور اٹارسی کے درمیان ریل گاڑی شروع کی جس سے سفر اور تجارت میں دن دوگنی ترقی ہوئی۔

ڈاک کے نظام کو برطانوی اصولوں پر ترتیب دیا۔ ریاست میں ہر قیمت کے ڈاک ٹکٹ جاری کیے ۔ محکمہ ڈاک میں پوسٹ ماسٹر جنرل مقرر کیا۔ ڈاک کی ترسیل و آمد کو آسان بنایا۔ برقی تار شروع کی گئی۔ گلی کوچوں میں روشنی کے کھمبے لگائے گئے۔ ایک مینا بازار قائم کیا جس کے لئے پروین منزل (عرف عام میں پری بازار) کی سنگین عمارت تعمیر کروائی، تمام دکاندار عورتیں تھیں۔ دربار میں مرد اور عورتیں ایک ہی قسم کا لباس زیب تن کرتے تھے۔

کریمیا کی جنگ ( 1853۔ 1856 ) میں سلطنت عثمانیہ، فرانس، برطانیہ ایک طرف اس کے مقابل رشین ایمپائر تھی۔ ہندوستان میں سلطنت عثمانیہ کے زخمی سپاہیوں کے لئے فنڈز جمع کرنے کی تحریک شروع ہوئی تو اس فنڈ میں حضرت بیگم نے ایک لاکھ روپے کی رقم عطیہ کی۔ اس کے جواب میں سلطان ترکی عبد الحمید نے حضور ممدوحہ کو تمغہ مجیدی درجہ اول عطا کیا اور فارسی میں خط کے ذریعہ اظہار تشکر کیا۔

جنگ افغانستان کے مقتولین کی بیواؤں کے لئے گرانقدر رقم مدد کے طور پر دی۔ فرانس اور جرمنی کی جنگوں کے مجروحین کے لئے چندہ دیا جس کے جواب میں شہنشاہ فرانس نے تمغہ اور ایک خط جواب میں بھیجا۔ درحقیقت ان کی فیاضیاں ضرب المثل تھیں۔

برطانیہ میں آباد مسلمانوں کے لئے ان کا عظیم احسان شاہجہاں مسجد کی تعمیر ہے۔ یہ مسجد 1899 میں ووکنگ شہر میں تعمیر کی گئی تھی۔ اگرچہ کئی مسلمانوں نے اس کی تعمیر میں مالی تعاون کیا مگر سب سے زیادہ رقم نواب شاہ جہاں بیگم نے اس کی تعمیر کے لئے دی۔ اس وقت اس کا شمار تاریخی مساجد میں ہوتا ہے۔ مسجد کے قریب مسلمانوں کے قبرستان میں عبد اللہ یوسف علی اور محمد مارما ڈیوک پکتھال کے مزار ہیں۔

علمی کارنامے

دنیا میں بہت کم ایسے حکمران ہوں گے جن کے نام کے ساتھ مصنف کا لقب شامل ہو۔ کیونکہ مسند شاہی تصنیف و تا لیف کے لئے وضع نہیں ہوئی ہے۔ کسی حکمراں کے لئے تصنیف و تالیف کے کام میں مشغول رہنا مشکل ہوتا ہے جو سیاست کی گتھیاں سلجھانے، رعایا کی دیکھ بھال، اور حکمرانی کے پیچیدہ مسائل حل کرنے میں مصروف رہتا ہو۔ نواب شاہ جہاں بیگم کا تصنیف و تالیف کا کام کرنا حیرت ناک واقعہ ہے۔ مبداء فیض سے ان کو غیر معمولی ذہانت ملی تھی۔ وہ فطری طور پر حا ضر دماغ، جفاکش، فیاض، اولوالعزم خاتون تھیں۔

سرکار خلد نشین نواب شاہ جہاں بیگم نے ریاست بھوپال میں جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کیا اور پرنٹنگ پریس مطبع شاہجہانی قائم کیا جس سے قرآن مجید کے نسخے طباعت کے بعد مفت تقسیم کیے جاتے تھے۔ انہوں نے متعدد نایاب کتابوں جیسے تفسیر ابن کثیر، نزل الابرار، روضہ الندیہ، جلاء العینین اور فتح باری، جلا لین کو زر کثیر سے طبع کروایا جو اقصائے عالم میں مفت تقسیم کی گئیں اور تشنگان علم نے استفادہ کیا۔

ہفت روزہ عمدۃ الاخبار شروع کیا جو ریاست کے دو مطبع خانوں میں چھپتا تھا۔ اس علمی گہماگہمی کی وجہ سے بھوپال کو بغداد ہند کہا جاتا تھا۔

سید صدیق حسن ( 1832۔ 1890 ) اور نواب شاہ جہاں بیگم کے دور میں بہت سارے صاحب کمال ادیب و شعراء اور اساتذہ علم و فن بھوپال کی طرف مقناطیسی کشش کی طرح جوق در جوق کھینچے آئے تھے۔ تعلیم کو عام کر نے کے لئے مدرسہ سلیمانیہ کو مزید ترقی دی۔ اس کا الحاق کلکتہ یونیورسٹی سے کیا۔ مدرسہ کے ساتھ ایک لائبریری کی بنیاد رکھی۔ مدرسوں میں انگریزی تعلیم ضروری قرار دی گئی۔ والد گرامی کی یاد میں مدرسہ جہانگیریہ قائم کیا جس کے لئے شاندار عمارت تعمیر کروائی جہاں طالب علموں کو وظیفے دیے جاتے تھے۔ نواسی بلقیس (پیدائش 1875 ) کی یاد میں بلقیسیہ نرسنگ ہوم شروع کیا۔ ہسپتالوں اور سکولوں میں ملازمت کے لئے ٹیچنگ سرٹیفکیٹ لازمی قرار دیا۔

ایک ڈکشنری خزینۃ الغات ( 1886 ) ترتیب دی گئی جو سات زبانوں (اردو، عربی، فارسی، ترکی، سنسکرت، ہندی اور انگلش ) میں تھی۔ اس لغت کی خاص خوبی یہ تھی کہ الفاظ حروف تہجی کی ترتیب سے فارسی رسم الخط کے علاوہ دیگر زبانوں کے رسم الخط میں بھی درج کیے گئے تھے۔ قادر الکلام شاعر تھیں، تخلص شیریں تھا جو کہ دہلی کی حکمراں رضیہ سلطان کا بھی تھا۔ ان کے دو مجموعہ کلام تاج الکلام اور دیوان شیریں 1872 منصہ شہود پر آئے تھے۔

ایک مثنوی صدق البیان نظم کی۔ دیگر کتابیں جو ان کے قلم سے صفحہ قرطاس پر اتریں وہ یہ ہیں : تاج الاقبال تاریخ ریاست بھوپال، (تین جلدوں میں ) ، تہذیب نسواں و تربیت الانسان 1889، قا طع جدری، عفت المسلمات، سیرت مصطفی تقاریر کا مجموعہ 1901، ذکر مبارک (شبلی نعمانی کی فارسی کتاب کا اردو ترجمہ جو میمونہ شاہ بانو سے حضر ت بیگم نے کروایا) ، تربیت اطفال یعنی بچوں کی تربیت کے اصول، حیات سلطانی :سوانح عمری یعنی دو بیٹوں اور تین بیٹیوں کے حالات زندگی (بشمول محمد نصر اللہ خاں صاحب بہادر، ولی عہد) ، تذکرہ باقی ) ، سوانح عمری نواب باقی محمد خاں صاحب بہادر نصرت جنگ (، حیات قدسی ) سوانح عمری نواب قدسیہ بیگم صاحبہ تاج ہند (۔ مرآۃ النسواں 1891، سبیل الرشاد، صدق البیان، آئینہ دیوانی تنظیمات شاہجہانی۔

ہر ہائنس نواب سلطان جہاں بیگم نے اپنی والدہ پر کتاب حیات شاہ جہانی 1914 تالیف کی جو کہ نواب شاہ جہاں بیگم کر اؤن آف انڈیا کی سوانح عمری ہے۔ یہ ٹائم پریس ممبئی سے 1926 میں شائع ہوئی تھی۔

شاہ جہاں بیگم نہایت اعلیٰ علمی ذوق کی حامل تھیں۔ کتاب تاج الاقبال تاریخ ریاست بھوپال (تین جلدیں ) کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا اور الگ الگ کتاب کی شکل دی گئی۔ تاج الاقبال کا انگلش میں ترجمہ ہسٹری آف بھوپال جو H۔ C۔ Barstow نے کیا کلکتہ سے 1876 میں طبع ہوا تھا۔ کتاب گو ہر اقبال (حصہ اول ) کے سرورق پر مصنف کا نام یوں لکھا گیا ہے : مرتبہ، قدردان فیض رساں علیا حضرت نواب سلطان جہاں بیگم صاحبہ تاج ہند، جی، سی، ایس، آئی۔ جی، سی، آئی، ای۔ فرمانروائے بھوپال، دامہا اللہ بالعز و الاقبال۔ ( جی سی آئی ای: یعنی گرینڈ کمانڈر آف انڈین ایمپائر۔ جی سی ایس آئی: گرینڈ کمانڈر آف دی سٹار آف انڈیا) ۔ کتاب کے (حصہ دوم) کا نام اختر اقبال تھا۔ گورنمنٹ آف انڈیا نے 2017 میں ایک ڈاکومنٹری بنائی جس کا نام بیگموں کا بھوپال ہے۔

کتابیات
بیگمات بھوپال :محمد لطیف مارہروی سکرٹری دفتر تاریخ بھوپال: حصہ اول، آن لائن rekhta۔ org 1918
حیات سلطانی سوانح عمری سلطان جہاں بیگم : محمد امین زبیری، مہتمم تاریخ بھوپال 1938 آن لائن
نواب شاہجہاں بیگم : از قلم ڈاکٹر رضیہ حامد، مطبع اردو بازار نئی دہلی 2015

ؓB. Metcalfe, The making and unmaking of a Princess. Feb 2011 https://academic.oup.com/ahr/article/116/1/1/41579


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments