کیا یہ ادھورا انصاف نہیں؟


چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے جسٹس شوکت صدیقی کی اسلام آباد ہائی کورٹ سے برطرفی کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا ہے۔ تحریری فیصلے میں واضح طور پر لکھا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے جج صاحب کو ہٹانے کا فیصلہ غیر قانونی تھا۔ اس وقت کے وزیر اعظم کی ایڈوائس پر صدر نے شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کا جو نوٹیفیکیشن جاری کیا تھا، اعلیٰ عدلیہ نے اسے بھی کالعدم قرار دے دیا ہے۔

فیصلے میں لکھا ہے کہ شوکت عزیز صدیقی ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ چکے ہیں، اس لئے انہیں جج کے منصب پر بحال نہیں کیا جا سکتا۔ وہ ریٹائرڈ جج تصور ہوں گے۔ وہ پنشن سمیت ان تمام مراعات کے حقدار ہوں گے جو ایک ریٹائرڈ جج کو حاصل ہوتی ہیں۔ آئین اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھنے والوں نے اس فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔

یہ قصہ 2018 میں شروع ہوا تھا۔ یہ جنرل قمر جاوید باجوہ اور جنرل فیض حمید کا زمانہ تھا۔ نواز شریف، مریم نواز، خاندان اور پارٹی سمیت زیر عتاب تھے۔ جسٹس شوکت صدیقی نے ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن راولپنڈی میں ایک تقریر کی تھی۔ اس تقریر میں انہوں نے انکشاف کیا تھا کہ جنرل فیض حمید چاہتے ہیں کہ جسٹس شوکت صدیقی اسلام آباد ہائی کورٹ میں نواز شریف اور مریم نواز شریف کے خلاف فیصلہ سنائیں۔ تاکہ وہ جیل سے باہر نہ آ سکیں۔

جج صاحب کا جواب تھا کہ وہ آئین و قانون کے مطابق فیصلہ سنائیں گے۔ اس پر جنرل فیض حمید نے کہا کہ اس طرح تو ان کی کئی سال کی محنت ضائع ہو جائے گی۔ اس کے بعد جسٹس شوکت صدیقی کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے سپریم جوڈیشل کونسل میں آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت جج صاحب کے خلاف کارروائی کر کے انہیں عہدے سے ہٹا دینے کی سفارش کی۔ اس وقت کے صدر عارف علوی نے اکتوبر 2018 کو جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا۔

یہ فیصلہ اس طرح ہوا کہ جسٹس شوکت صدیقی کو سنا گیا اور نہ انہیں اپنی صفائی میں کچھ کہنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ جسٹس صدیقی نے اس فیصلے کے خلاف آرٹیکل 184 / 3 کے تحت درخواستیں دائر کی تھیں۔ لیکن ان کی اپیلیں سماعت کے لئے مقرر نہیں کی گئیں۔ اس سارے عرصے میں جسٹس شوکت صدیقی کا میڈیا ٹرائل ہوتا رہا۔ انہیں سرکاری خزانے سے گھر کی تزئین و آرائش کے الزامات کا سامنا رہا۔ ان کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے جوڑا جاتا رہا۔ ان کے بارے میں پروپیگنڈا جاری رہا۔

اب کم و بیش پانچ برس کے بعد جج صاحب کو ان الزامات سے بری کر دیا گیا ہے جن کا انہیں سامنا تھا۔ ان کے خلاف ہونے والا فیصلہ بھی غیر قانونی قرار پایا ہے۔ جج صاحب کو مالی فوائد اور مراعات کا حق دار قرار دے دیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ کافی ہے؟ کیا اس فیصلے سے انصاف کے سارے تقاضے پورے ہو گئے ہیں؟ اس کا جواب یقیناً نفی میں ہے۔ ایک معروف قول ہے کہ justice delayed is justice denied۔ مطلب یہ کہ انصاف میں تاخیر، انصاف سے انکار ہے۔

جسٹس صدیقی کے قصے میں بھی ایسا ہی محسوس ہوتا ہے۔ اگرچہ جج صاحب کو پانچ برس کے بعد عائد کردہ الزامات سے بری کر دیا گیا ہے۔ لیکن ان کی زندگی کے وہ پانچ قیمتی سال کون واپس لائے گا جن میں انہیں عائد کردہ الزامات کی وجہ سے شرمندگی اور رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس دوران ان کے خاندان نے جو ذہنی اذیت برداشت کی اس کا ازالہ کون کرے گا؟ جب انہیں نوکری سے برخاست کیا گیا وہ اپنے کیرئیر کے عروج پر تھے۔ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سینئر ترین جج تھے اور امکانی طور پر چیف جسٹس بننے والے تھے۔ اس وقت جسٹس اطہر من اللہ جیسے ان کے جونئیر سپریم کورٹ آف پاکستان کے جج ہیں۔ اگر جسٹس صدیقی کو غیر قانونی طور پر برطرف نہ کیا جاتا تو شاید وہ بھی سپریم کورٹ آف پاکستان کے جسٹس کے طور پر ریٹائرڈ ہوتے۔ کیا اس نقصان کا کوئی ازالہ ممکن ہے؟ یقیناً نہیں۔

ایک اہم سوال یہ بھی ہے کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار سمیت وہ جج صاحبان جو جسٹس شوکت عزیز صدیقی کو راستے سے ہٹانے کی سازش میں شریک رہے، انصاف کی مسند بلند پر بیٹھ کر انصاف کا قتل کرتے رہے۔ ملک و قوم کے مفاد سے کھیلتے رہے۔ بد دیانتی اور بے انصافی پر مبنی ان ججوں کے فیصلوں کا ازالہ کیسے ہو گا؟ اس موقع پر نواز شریف اور مریم نواز شریف کا ذکر بھی ضروری ہے۔ سیاسی پسند نا پسند سے قطع نظر، ذرا غور کیجئے کہ جس طرح میاں نواز شریف اور مریم نواز کو جھوٹے مقدمات میں پھنسایا گیا۔ ان کے گرد سازشوں کا جال بنا گیا۔ انہیں جیل کی کال کوٹھریوں میں بند رکھا گیا۔ ان کی زندگی اور کیرئیر کے قیمتی سال ضائع کیے گئے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس سازشی کھیل میں ملک و قوم کو جو نقصان اٹھانا پڑا، کیا اس سب کا ازالہ کیا جا سکتا ہے؟ اس کا جواب بھی یقیناً نفی میں ہے۔

عدالت نے جسٹس شوکت صدیقی کے حق میں فیصلہ سنا دیا ہے۔ لیکن یہ فیصلہ ادھورا ہے۔ ہماری عدالت عظمی کے فیصلے میں جن بڑے کرداروں کے نام آئے ہیں۔ ان کے بارے میں عدالت ابھی تک خاموش ہے۔ اس سازش کا بڑا کردار، جنرل فیض حمید ابھی زندہ ہیں۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور ان کے وہ ساتھی جج جو اس سارے کھیل کا حصہ رہے، وہ بھی حیات ہیں۔ ہماری سپریم کورٹ اس نتیجے پر کیوں نہیں پہنچتی کہ اس سازشی کھیل میں شامل سارے کرداروں کو کٹہرے میں بلائے۔

ان سے جواب طلبی کرے۔ انہیں کیفر کردار تک پہنچائے۔ یہ سب سازشی کردار ریٹائرڈ جج یا ریٹائرڈ جنرل کہلاتے ہیں۔ کیا یہ سب لوگ اس عزت افزائی کے مستحق ہیں؟ یہ سازشی کردار حکومتی خزانے سے لاکھوں روپے ماہانہ کی پنشن اور مراعات وصول کر رہے ہیں۔ اور نہایت عیش و عشرت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ کیا یہ لوگ ان مراعات کے مستحق ہیں؟ کیا ان سے کوئی جواب دہی، کوئی حساب نہیں ہونا چاہیے۔

کیا ہماری پارلیمنٹ اس ضمن میں کوئی قانون سازی نہیں کر سکتی کہ اس طرح کی سازشیں کرنے والوں، اپنے حلف کی خلاف ورزی کرنے والوں اور اپنے منصب کا ناجائز استعمال کرنے والوں کو قانون کے شکنجے میں لا کر نشان عبرت بنایا جا سکے۔ تاکہ آئندہ کوئی طاقت ور اس قسم کی سازش کرنے کی جرات نہ کر سکے۔ آخر کب تک ہم اس طرح کا ادھورا انصاف کرتے رہیں گے۔ اگرچہ جسٹس شوکت صدیقی خوش قسمت ہیں کہ انہیں اپنی زندگی میں ہی یہ فیصلہ سننا نصیب ہو گیا۔ ورنہ ہمارے سامنے کئی مثالیں ہیں جب مرنے کے کئی برس کے بعد لوگوں کو انصاف ملا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ اس کی ایک تازہ مثال ہے۔

اس معاملے کا ایک اور پہلو قابل توجہ ہے۔ جسٹس شوکت صدیقی کیس کا فیصلہ آنے کے بعد اس موضوع پر بہت سے اداریے لکھے گئے۔ ٹی۔ وی اور سوشل میڈیا پر بھی تبصرے ہوئے۔ یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اردو کا سب سے بڑا اخبار اپنے اداریے میں جنرل فیض حمید، ثاقب نثار اور دیگر کرداروں کا نام لینے کے بجائے اشارے کنایوں میں اداریہ لکھتا ہے۔ یہاں تک کہ نواز شریف اور مریم نواز شریف کا نام لکھنے سے بھی گریز کرتا ہے۔ سمجھ سے بالا ہے کہ سپریم کورٹ کا واضح فیصلہ آنے کے بعد ظالم اور مظلوم کا نام لینے میں کیا امر مانع ہو سکتا ہے؟ بہرحال نہایت ضروری ہے کہ سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ اس ضمن میں کوئی ٹھوس اقدام کریں، تاکہ مستقبل میں اس طرح کی بے انصافی کا راستہ روکا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments