جنت میڈ ایزی


ہماری طالبِ علمی کے زمانے میں درسی کتب کے علاوہ مزید دو طرح کی کتابیں طالبِ علموں کے درد کا مداوا ہوا کرتی تھیں۔ ایک کہلاتے تھے درسی ماڈل ٹیسٹ پیپرز، جن میں درسی کتب کے اسباق کی مشقوں کا حل دیا گیا ہوتا تھا اور ان کے اختتام میں پرانے بورڈ کے پیپرز سمیت کچھ نمونہ پیپرز دیے گئے ہوتے تھے۔ دوسری ہوتی تھیں میڈ ایزی بکس۔ یہ عموماً انگریزی میں ہوا کرتی تھیں اور مختلف مضامین کی گائیڈ بکس ہوتی تھیں جیسے انگلش میڈ ایزی۔ فزکس میڈ ایزی وغیرہ۔

ان کتب کو غیر معیاری اور ناقص سمجھا جاتا تھا۔ اور سرکاری سطح پر سکولوں میں ان پر پابندی بھی ہوتی تھی۔ اس کے باوجود یہ تن آسان طلبہ اور اتنے ہی تن آسان اساتذہ کے لئے گیدڑ سنگھی کا درجہ رکھتی تھیں۔ یہ کامیابی کے لئے ایک مکمل اور تفصیلی پڑھائی کی بجائے ایک آسان اور شارٹ کٹ راستے کی حیثیت رکھتی تھیں۔ طلبہ کو متعلقہ مضامین پر عبور حاصل ہو یا نہ ہو، وہ امتحان پاس کرنے کے قابل ضرور ہو جاتے تھے۔

پچھلے پندرہ بیس سالوں میں ہم نے دینی معاملات میں بھی ایسے ہی تن آسان اور شارٹ کٹ رستے ڈھونڈ لئے ہیں۔ کون جنت کے حصول کے لئے ساری عمر اسلام کو ضابطہ حیات بنا کر رکھے۔ کون اسلامی تعلیمات کو پڑھے، ان کو عصری تقاضوں کے تناظر میں سمجھے، نئے معاشی، معاشرتی اور سیاسی چیلنجوں کا جواب ڈھونڈنے کے لئے اجتہاد کی راہ ڈھونڈے، ساری عمر حقوق العباد پورے کرے۔ اس تیز رفتار زمانے میں جنت کا حصول بھی تو فاسٹ فارورڈ میں ہونا چاہیے۔ لہٰذا دین میں گنجائش ہو نہ ہو، یاروں نے جنت میڈ ایزی مارکیٹ میں اتار دی ہے۔

جب تین دفعہ قل ہو اللہ پڑھ کر پورے قرآن کا ثواب مل جاتا ہے تو پورا قرآن پڑھنے اور اس پر غور و خوض کرنے کی کیا ضرورت ہے۔

جب وظیفوں، وردیوں اور تسبیحوں سے گناہ دھل جانے کی نوید ہے تو گناہوں سے بچنے کی تپسیا کیا معنیٰ؟

ہمارے اسلامی بھائی ڈاکٹروں کو بیماری کے علاج کے لئے میڈیکل ریسرچ، سٹریس اور ڈپریشن کی مینیجمنٹ کے لئے سائیکو تھراپی کے صبر آزما مراحل کی کیا ضرورت، جب سورہ رحمان کی ریکارڈنگ سے کام چل جاتا ہو۔ کس کو ایمان (اور آج کل کے حالات میں جان بھی) پیارا نہیں کہ اثر ہونے سے انکار کی جرات کرے؟

کون ساری زندگی گناہوں سے بچے، اس سے آسان نہیں کہ کسی پر توہین کا الزام لگا کراس کے خلاف بلوے میں شامل ہوجائیں، جنت کا ٹکٹ کنفرم۔

حقوق العباد پورے کرنے کا تردد کیوں؟ کسی کے کپڑوں پر اعتراض کر کے دو پتھر پھینک دیں جنت آپ کے قدموں میں۔

ہمسائیوں کی مدد، رشتہ داروں کی دلجوئی کا کیا فائدہ جب دوسرے فرقے کو گستاخ کہہ کر چھرا لے کر ٹوٹ پڑنے سے جنت کی کنجی مل جائے۔

فلسطین پر ظلم ہو رہا ہے تو ہمیں اپنی معاشی، اقتصادی طاقت بڑھا کر، عصری علوم میں یہود و نصاریٰ کا مقابلہ کر کے اپنی کمزوریوں کا ازالہ کرنے کی کیا ضرورت۔ فیس بک پر بائیکاٹ کافی ہے ناں۔ بھلے نتیجتاَ اپنی ہی اکانومی کا بیڑا غرق ہو رہا ہو۔

اور کسی کو زیادہ ہی گارنٹی چاہیے ہو تو جیکٹ پہن کر گھس جائے کسی سکول، کسی مزار، کسی فوجی ٹھکانے میں، ایسوں کو تو سنا ہے ٹرائی سائیکل کے تالے کی چابی کی شکل میں جنت کے محل کی کنجی بھی ہاتھ میں تھما دی جاتی ہے۔ یا جہالت تیرا آسرا

تو عرض یہ ہے کہ انگلش میڈ ایزی کی طرح آج کل جنت میڈ ایزی کے بھی کئی نسخے دستیاب ہیں۔ جس طرح بھلے وقتوں میں یہ گائیڈیں اور خلاصے حکومت کی جانب سے بین ہونے کے باوجود طلبہ اور اساتذہ دونوں میں یکساں رائج تھیں ویسے ہی جنت میڈ ایزی کے یہ ایڈیشن بھی غیر اسلامی ہونے کے باوجود ملاؤں اور ان کے پیروکاروں میں بھر پور مقبول ہیں۔ ان وقتوں کے اساتذہ بھی بخوبی جانتے تھے کہ ان میڈ ایزیوں کی مدد سے امتحان تو پاس کیا جاسکتا ہے لیکن طالبِ علم کی ذہنی، اور علمی استعداد کماحقہُ بلند نہیں کی جا سکتی۔

ویسے ہی آج کے علما جانتے ہیں کہ یہ ورد و وظائف، یہ نعرہ بازی، یہ سنگ باری یہ جنون امہ کی انفرادی و اجتماعی کردار سازی (جو دین کا حقیقی مطمعِ نظر ہے ) کے ارفع مقصد کے حصول کا ذریعہ نہیں ہو سکتی، لیکن سطحیت کے جس گرداب میں ہم من حیث القوم پھنس چکے ہیں وہاں کوئی بھی اپنے قبیلے سے بغاوت کرنے کو تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے سے بڑا جید عالمِ دین بھی کھلے عام لگی لپٹی کے بغیر، کسی قیل و قال کے بغیر واضح الفاظ میں اسلام کے نام پر دہشت گردی، خود کش حملوں اور انتہا پسندی کے خلاف آواز اٹھانے سے قاصر نظر آتا ہے۔

ہمارے علما کو اپنے اس بے عملی کے رویے پر نظر ثانی کرنا ہوگی پیشتر اس کے کہ مسلمان بھی یہ مغرب کی طرح انہیں مسجدوں تک محدود کرنے کا فیصلہ کر لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments