ڈاکٹر خالد محمود سنجرانی: زمانہ طالب علمی اور میری خوش قسمتی


پہلی جماعت سے ایم فل تک بہت سارے اساتذہ سے استفادہ کیا۔ جن میں سے کئی یاد رہے اور کچھ کا صرف نام تک یاد ہے۔ نام یاد رہنے اور یاد رہنے میں بہت فرق ہے۔ ایک جماعت میں تقریباً 50 ہم جماعت ہوتے ہیں لیکن دوست چند ہی بن سکتے ہیں۔ اسی طرح استاد ہو کر استاد بھی کوئی ہی بنتا ہے۔ 18 سالہ تعلیمی سفر میں مجھے جو صحیح معنوں میں استاد ملے اور جو استاد کہلائیں تو اس پیشے کا وقار بڑھ جائے ان کے ساتھ اپنی یادیں اور اپنی خوش قسمتی کو باری باری بیان کروں گا۔ آج استاد محترم پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود سنجرانی صاحب کا ذکر کروں گا۔ انٹرمیڈیٹ کے بعد گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں بی اے آنرز اردو میں داخلہ لیا تو سنجرانی صاحب صدر شعبہ اردو کے فرائض سر انجام دے رہے تھے۔ پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود سنجرانی صاحب خوش لباس، اکثر پینٹ کوٹ پہنتے ہیں۔ مناسب قد، دبلا پتلا جسم، عینک لگاتے ہیں، چہرے پہ مسکراہٹ اور ہاتھ میں دفتری بیگ۔ اگر کوئی واقف نا بھی ہوتو پہنچان جائے کہ علمیت سے بھرپور اک باوقار شخصیت ہیں۔ اکتر لوگ شخص ہوتے ہیں جبکہ سنجرانی صاحب شخصیت ہیں۔
ابتدائی چار میقات اردو، پنجابی، اسلامیات، سیاسیات، انگریزی اور دیگر شعبہ جات کے مشترکہ مضامین ایک ساتھ پڑھے جاتے اور پانچویں سمسٹر سے اپنا مضمون ہی پڑھنا ہوتا تھا۔ پہلے چار سمیسٹرز میں اپنے شعبہ کے چند اساتذہ سے ہی واقفیت ہوئی۔ جن میں ڈاکٹر سیدہ مصباح رضوی صاحبہ، ڈاکٹر شائستہ حمید صاحبہ اور ڈاکٹر رفاقت علی شاہد صاحب نمایاں ہیں۔ ماس کمیونیکیشن کی اسائنمنٹ میں کسی بھی موضوع پر ایک ویڈیو رپورٹ بنانا تھی۔ چونکہ ادب کا طالب علم تھا تو میں نے “اردو ادب عصر حاضر میں” کے عنوان پہ ریکارڈنگ شروع کی۔ طالب علموں سے انٹرویوز لیئے، اپنے اساتذہ سے اشعار پڑھنے کی درخواست کی اور انھیں ریکارڈ کیا۔ اب پہلی بار ڈاکٹر خالد محمود سنجرانی صاحب سے ملنا تھا اور چند جملے ریکارڈ کرنے کی درخواست کرنا تھی۔ شعبہ اردو اپنی الگ طلسماتی کشش رہتا تھا۔ شعبہ کی پرانی عمارت جہاں زبان کی چاشنی اور ادب کی مہک سے فضا ہمیشہ خوشگوار رہتی۔ اپنے شعبہ اردو میں پہنچے ریکارڈنگ کا سامان دوبارہ ترتیب دیا اور دفتر کے دروازے پہ دستک دی اور اجازت ملنے پر اندر جا پہنچے۔ استاد محترم نے انتہائی محبت سے ہماری التجا سنی اور بہت شفقت کرتے ہوئے ہماری مطلوبہ خواہش کے مطابق اردو کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو فرمائی۔ اس دن کے بعد ڈکٹر خالد محمود سنجرانی صاحب کے لیئے دل میں الگ جگہ بن گئی (اگرچہ نام اور طالب علموں سے شفقت کا ذکر پہلے سے سن رکھا تھا) اس دن سے آج تک جہاں بھی استاد محترم کو دیکھتا ہوں قدم رک جاتے ہیں اور ہاتھ باندھے وہیں کھڑا ہو جاتا ہوں۔
میرے والدین نے بچپن سے ایک سبق بہت یاد کروایا اور ہم نے بھی اس پہ عمل کرنے کی بھرپور کوشش کی کہ استاد سے اگر کہیں کوئی اختلاف بھی ہوتو عزت ہمیشہ دل سے کرنی ہے، کیونکہ مراد وہی پاتا ہے جو استاد کی قدر کرتا ہے اور ہمیں تو استاد بھی باکمال نصیب ہوئے۔
ڈاکٹر خالد محمود سنجرانی صاحب ہمیشہ خوش لباس رہتے ہیں۔ ہاتھ میں ایک بیگ اور کئی لوگوں میں بھی موجود ہوں تو بہت محبت سے ملتے ہیں۔ پانچواں چھٹا اور ساتواں سمیسٹر ایک انتظار اور خوشی میں گزرا کہ آٹھویں سمسٹر میں استاد محترم سے اقبال پڑھیں گے۔ ہوا کچھ یوں کہ آٹھویں سمیسٹر کے وقت کرونا وائرس تشریف لے آیا اور ہمیں گھروں میں قید کردیا۔ آٹھواں سمسٹر آن لائن کمپیوٹر اور موبائل سکرینوں پہ پڑھا۔
گلزار کے اشعار یاد آرہے ہیں کہ
کتابیں جھانکتی ہیں بند الماری کے شیشوں سے
بڑی حسرت سے تکتی ہیں
مہینوں اب ملاقاتیں نہیں ہوتیں
جو شامیں ان کی صحبت میں کٹا کرتی تھیں’ اب اکثر
گزر جاتی ہیں کمپیوٹر کے پردوں پر
بڑی بے چین رہتی ہیں کتابیں
استاد محترم سے بات کرنے کے لیئے میں چار برس سے منتظر تھا۔ اب موقع بھی خوب تھا تو ویسے بھی کلاس میں سی آر تھا تو آن لائن کلاس کا لنک سنجرانی صاحب مجھے بھیجتے۔ سنجرانی صاحب سے عقیدت تھی اور اقبال سے محبت کہ دن رات ایک کرکے وہ لیکچرز بہت محنت سے تیار کیئے۔ اسائنمنٹس اور فائنل پراجیکٹ میں بھی تحقیقی موضوعات پہ کام کرنا تھا۔ کلاس میں سنجرانی صاحب طالب علموں کو اکثر مولانا کہہ کر مخاطب کرتے۔ کلاس میں استاد محترم نے بتایا کہ ایم اے میں اقبال کو پڑھا اور پھر دلچسپی زیادہ بڑھی۔ وقتاً فوقتاً اپنا زمانہ طالب علمی سے آگاہ کرتے۔ ایک دن فرماتے ہیں کہ آپ میں سے چند طالب علموں سے مجھے بہت امید ہے کہ وہ زندگی میں خوب نام کمائیں گے۔ جیسے ضیاء اور چند دیگر طالب علموں کا نام پکارا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس دن سے میں نے اپنی پوری کوشش کی کہ استاد کی امید پہ پورا اترنا ہے۔
انھی دنوں مَیں چند دن علیل رہا اور کلاس نہیں لے سکا۔ کچھ دنوں بعد لیکچر میں شامل ہوا تو سنجرانی صاحب بات کرتے کرتے رک گئے اور میری طبیعت کے بارے پوچھا اور دعاؤں سے نوازا۔۔۔۔ سمیسٹر کے اختتام پہ جب آخری کلاس تھی تو ساری کلاس کو اپنے تعلیمی سفر کے بارے بتایا اور نوکری کی ابتدا سے آج تک کا سفر بتایا۔ ہمت، امید اور حوصلہ دیا کہ آپ سب بہت خاص ہو خوب محنت کرو اور ان شاءاللہ کامیاب ہوگے۔ فائنلز ہوئے اور کچھ دنوں بعد نتیجہ تیار ہوا تو مجھے استاد محترم خالد محمود سنجرانی صاحب کی کال موصول ہوئی۔ فون اٹھایا تو استاد محترم نے بہت پرجوش انداز میں فرمایا کہ مولانا ضیاء مبارک ہو آپ کی ساری کلاس کی کارکردگی بہت شاندار رہی۔ مجھ سے اتنے نمبر آج تک کسی کلاس نے نہیں لیئے۔ اور ضیاء تمہیں اور بھی مبارک ہو تم نے ٹاپ کیا ہے۔ بہت اچھا اور بہت شاندار لکھا ہے۔
میں اب وہ دن یاد کرتے ہوئے اپنے آنسو نہیں روک پا رہا۔۔۔ اور اپنی خوش قسمتی پہ رشک آتا ہے کہ اللہ کا خاص کرم ہوا مجھ پہ جو استاد محترم پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود سنجرانی صاحب کے شاگردوں میں شمار ہوتا ہوں۔ آنرز کے بعد یونیورسٹی گیا۔ استاد محترم سے ملا۔ مجھے اب بھی وہ سب آنکھوں کے سامنے آرہا کہ استاد محترم نے بہت شفقت فرمائی۔ جب بھی ملے کاندھے پہ ہاتھ رکھا اور ہمیشہ دعائیں دیں۔ اوریئنٹل کالج پنجاب یونیورسٹی لاہور میں ایم فل اردو میں داخلہ ہوا تو مجھے فرماتے ہیں اچھا فیصلہ ہے وہاں میرا دوست ضیاء بھی ہے۔ جب سر ضیاء کی پہلی کلاس تھی تو انھوں نے بھی پوچھا کہ سنجرانی کے شاگرد کون ہیں۔ ضیاء صاحب سے ملاقات اور احوال پھر تفصیل سے شیئر کروں گا۔
مجھے ایک جگہ اپلائی کرنا تھا تو وہاں ریفرنس کی ضرورت پڑی۔ اجازت لینے کے لیے سنجرانی صاحب کو میسج کیا کہ ایک جگہ ریفرنس شامل کرنا ہے آپ اجازت دیں تو آپ کا نام لکھ دوں۔ جس پہ استاد محترم نے فرمایا کہ ضیاء جب چاہو، جہاں چاہو بے فکر ہوکر میرا نام لکھ سکتے ہو۔۔۔۔ استاد کی طرف سے یہ ایسے الفاظ ہیں جو شاگرد کے لیئے انتہائی قیمتی ہیں۔ ایک جگہ اسکالرشپ کے لیئے یونیورسٹی سے ریفرنس لیٹر درکار تھا تو استاد محترم کو میسج کیا اس پر فوراً ہاں کی اور کئی مفید معلومات سے آگاہ کیا۔
گزشتہ برس استاد محترم کی طبیعت ناساز تھی تو وہ چند دن جو سنجرانی صاحب علیل رہے ہمیشہ دل سے دعاؤں کا سلسلہ جاری رہا۔ اتنی شفقت کے باوجود آج تک میں نے کبھی براہ راست کال نہیں کی۔ میسج کرتا ہوں اور اجازت لے کر کال کرتا ہوں۔۔۔ استاد ہمیشہ ایک طالب علم کی زندگی کا سرمایہ ہوتا ہے۔ باپ انسان کو اس دنیا میں لاتا ہے تو استاد آسمان کی بلندیوں تک پرواز سیکھاتا ہے۔
ہمیشہ دل سے دعا کہ پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود سنجرانی صاحب صحت وتندرستی کے ساتھ تادیر سلامت رہیں۔ ہمیں ان سے استفادہ کرنے کا موقع ملتا رہے اور ان کی شفقت سے دعاؤں سے ہم کامیابی حاصل کریں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments