کنفیوژن کا دور


مشتاق احمد یوسفی کی شہرہ آفاق تحریروں پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر ظہیر فتح پوری کا کہنا ہے کہ ”ہم اردو مزاح کے ’عہد یوسفی‘ میں جی رہے ہیں۔“ مجھ جیسا نرگسیت کا شکار ناچیز جب ملک کی تاریخ اور موجودہ حالات کو دیکھتا ہے تو یہ کہنا چاہتا ہے کہ ہم ’عہد کنفیوژن‘ میں جی رہے ہیں۔ اردو گرائمر کے حوالے سے یہ اصطلاح یقیناً قابل گرفت ہے لیکن ناچیز اس پر کچھ رعایت کا طلبگار ہے۔

ہماری کنفیوژن کا آغاز تو قیام پاکستان کے آس پاس ہی شروع ہو گیا تھا جب قائداعظم محمد علی جناح نے 11 ستمبر 1947 ء کو اپنی شہرہ آفاق تقریر کی تھی جس میں انھوں نے نئی ریاست کے آئینی خد و خال اور لائحہ عمل کا اظہار کیا تھا۔ وہ تقریر جس قدر واضح تھی، مختلف حلقوں نے اسے اسی قدر متنازعہ بنانے کی کوشش کی۔ مذہبی طبقوں نے اسے میثاق مدینہ سے تشبیہ دینے کی کوشش کی تو دوسرے حلقے نے اسے ”سیکولر“ رنگ دیا۔ اور ہم جیسے عامی کو کنفیوژن کا شکار کر دیا کہ بابائے قوم درحقیقت کس طرح کی ریاست چاہتے تھے؟ دوسری کنفیوژن تب لاحق ہوئی کہ جب بھرے مجمع میں قائد ملت لیاقت علی خان کے قاتل کو جسے بآسانی پکڑا جاسکتا تھا گولی مار دی گئی۔ سونے پر سہاگہ کہ قاتل کو گولی مارنے والے سے کوئی باز پرس نہ ہوئی۔ آج تک نہ اصلی قاتل سامنے آ سکے اور نہ قتل کا اصل محرک ہی سامنے آ سکا۔

کنفیوژن کا سلسلہ چلتا رہا۔ ذہن اور دل دونوں ہی اداس ہو جاتے ہیں یہ سوچ کر کہ قائداعظم کی بہن مادر ملت فاطمہ جناح کو دھاندلی زدہ الیکشن میں شرمناک طریقے سے ایک آمر نے شکست دی اور اس قوم نے ٹھنڈے پیٹوں یہ ہضم بھی کرلی اور چپ سی سادھ لی۔ احتجاج کیا بھی تو ”غدار بنگالیوں“ نے اور احتجاج بھی ایسا ہے کہ ہم بے حسوں سے مستقل الگ ہو گئے۔

کنفیوژن کا یہ سلسلہ آ کر ٹھہر گیا 1970 ء کے انتخابات پر ۔ سوال یہ کہ اگر شیخ مجیب الرحمان غدار تھا تو دوسرے کردار کہاں سے محب وطن تھے؟ کیا یہ محض سیاسی غلطی تھی (جیسا کہ ایک سابقہ ”چیف صاحب“ فرما چکے ہیں ) ؟ اگر سیاسی غلطی تھی تو اس وقت بھی سیاست کے اصل بازی گر اور بادشاہ گر تو حسب معمول راولپنڈی تشریف فرما تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر یہ محض سیاسی غلطی تھی تو ”ان“ کی ہی غلطی تھی۔ دنیا کی ایک بہت بڑی ریاست کو دولخت کرنے والے کرداروں کو جو بادشاہ گر بھی تھے، کیا سزا ملی؟ کیا یہ ریاست اس قدر بے وقعت تھی کہ اسے توڑنے والے باعزت طریقے سے رخصت کیے گئے؟ ذہن الجھ کر رہ جاتا ہے کہ اس ملک کا جغرافیہ اور حیثیت تار تار کرنے والے کب سزا کے مستحق ٹھہریں گے؟

بات طویل ہو جائے گی لیکن بحیثیت قوم ہمیں کبھی حقیقت سے روشناس کیا ہی نہیں گیا۔ اس ملک میں ایسے ایسے سانحے ہوئے کہ کہیں اور ہوتے تو شاید قیامت آجاتی لیکن ہم نے سب خاموشی سے برداشت کر لیا۔ معمولی سا احتجاج ہوتا ہے اور بعض اوقات وہ بھی نہیں ہوتا۔ سانحات پر کمیشن بنتے ہیں، جوڈیشنل انکوائریاں بھی ہوتی ہیں، جے آئی ٹی بھی بنتی ہیں لیکن حقیقت سامنے نہیں آتی۔ سامنے آتی ہے تو کنفیوژن! ہم یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کا ہر دوسرا ملک اپنے کام کاج چھوڑ کر ہمارے خلاف سازش کر رہا ہے۔ لیکن ہمارا دشمن ہمارے سوا اور کوئی نہیں۔ ہم بیرونی ہاتھ اور بیرونی سازشوں کی بات تو کرتے ہیں لیکن اندرونی ہاتھ سے ڈرتے ہیں۔ ہماری تاریخ کو ہمیشہ اندرونی غداروں نے داغدار کیا۔ میر جعفر یا میر صادق بیرونی نہیں بلکہ اندرونی ہاتھ تھے۔

اقتدار کس کے پاس ہونا چاہیے؟ رائے کس کی مقدم ہونی چاہیے؟ جمہوریت کس چڑیا کا نام ہے؟ کچھ سمجھ نہیں آتی۔ ہمارے ملک یہ سب چیزیں کتابوں کی حد تک تو بہت درست لکھی ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اقتدار جن کے پاس ہونا چاہیے ان کے پاس نہیں ہوتا۔ اقتدار پر وہ قابض ہوتے ہیں جن کا یہ کام ہی نہیں۔ عوامی رائے بالکل بے وقعت سمجھی جاتی ہے۔ آزادی رائے ہر شخص کا بنیادی حق ہوتا ہے لیکن یہاں بقول غالب

بات پر واں زبان کٹتی ہے
وہ کہیں اور سنا کرے کوئی

ایک شخص کو غدار کہہ کر سیاسی منظر سے ہٹایا جاتا ہے تو کچھ عرصے بعد اسے ہی دوبارہ عظیم محب وطن ثابت کر کے اقتدار کی ہما اس کے سر بٹھا دی جاتی ہے۔ سمجھ ہی نہیں آتی کہ پہلا والا الزام درست تھا یا اب والا نجات دہندہ کا سرٹیفیکٹ درست ہے؟ ہر طرف عجیب سے ذہنی افراتفری اور کنفیوژن ہے۔ ہم نے کتنوں کو غدار کہا اور پھر انہی کے ہاتھوں بیعت کی یا کرائی گئی۔

ہماری درسی کتابوں کے مطابق ہمارا ملک زراعت میں خودکفیل ہے۔ بارآور فصلوں کی بہتات ہے۔ کسان سونا اچھالتے پھرتے ہیں۔ جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم ہر سال گندم کبھی اِس ملک سے منگواتے ہیں تو کبھی اُس ملک سے۔ اور ہمارا کسان ہر سال اپنے جائز حق کے لیے رسوا ہوتا پھرتا ہے اور اس دفعہ تو پولیس سے مار بھی کھا رہا ہے۔ پتہ نہیں درسی کتابیں درست ہیں یا ہر سال دکھایا جانے والا منظر نامہ؟ نجانے کب یہ کنفیوژن دور ہوگی۔ کمیشن کوئی کھاتا ہے اور مار کوئی!

مہنگی بجلی کے معاہدے کرنے والے، رینٹل پاور پلانٹس میں کمیشن کھانے والے آج بھی اپنے راجکماروں، چیلوں کے ساتھ اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں اور عوام کے دکھ میں ”ہلکان“ ہو رہے ہیں۔ ان شاہی خاندانوں سے کوئی پوچھنے والا نہیں کیوں کہ ان کی ”ضرورت“ ہر وقت رہتی ہے۔ یہ وہ پوتر ہستیاں ہیں جو ہر طرح کی باز پرس سے بالاتر ہیں۔ تمام سہولتیں، آسائشیں بلاقیمت ان کا ابدی اور پیدائشی حق ہیں۔ رہے عوام تو اگر انھیں روٹی میسر نہیں تو کیک کھا لیں۔

اس ریاست کو ”بنانا ریپلک“ بنانے والے اس پر ابھی تک مسلط کیوں ہیں؟ کیا ان کے لیے کوئی قانون نہیں؟ جن کو عدالتیں سزائیں دیتی ہیں، وہ بعد میں وزیراعظم، سپیکر اسمبلی اور چیئرمین سینٹ بنا دیے جاتے ہیں۔ کیا یہ عدالتوں کے منہ پر طمانچہ نہیں؟ کیا عدالتیں غلط فیصلے دیتی ہیں؟ یہ بھی ایک عجیب اور شرمناک کنفیوژن ہے کہ ایک معمولی سے جرم کی سزا پانے والا سرکاری ملازمت کے لیے مستقل نا اہل ٹھہرتا ہے لیکن ملک اور عوام کی ہڈیاں تک کھا جانے والے ملک کے اعلیٰ انتظامی عہدوں کے قابل سمجھے جاتے ہیں۔

شہزاد احمد رضی
Latest posts by شہزاد احمد رضی (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments