پدرسری سماج میں عورت کا نسائی تصور


میں نے ایک لاکھ بھیج دیا ہے، آپ کی پوسٹ ڈاکٹرل فیلو شپ کی فیس ادا ہو جائے گی، میسج پڑھ کر آنکھیں نم ہو گئیں، میں سوچنے لگا کہ ایک لڑکی جس سے میرا تعلق کچھ دیر قبل امتحانی ڈیوٹی کے دوران استوار ہوا ہے، وہ میری ضرورت کو مہنگائی کے دور میں یوں پورا کرے گی، یہ امر میرے لیے واقعی حیران کن تھا۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ اگر کوئی مجھ سے سلام خیریت کے بعد براہ راست لاکھ روپیہ چھے ماہ کے لیے ادھار مانگ لے تو میرا کیا جواب ہوتا۔

میرا یہی جواب ہوتا کہ میرے پاس بچت میں اتنی رقم نہیں ہے، میں آج کل مشکلات میں گھرا ہوا ہوں، مہنگائی نے جینا محال کر رکھا ہے، کرائے کا مکان ہے، بجلی کا بل نہیں دیا، والدین کو اس ماہ کا جیب خرچ نہیں بھجوا سکا، وغیرہ وغیرہ۔ ایک پڑھی لکھی لڑکی جو برسر روزگار ہے، اس کے بارے میں پدرسری نظام کے پروردہ مرد سماج معاشرے میں عموماً یہی رائے قائم کی جاتی ہے کہ اس کا ناز نخرہ رعونت بھرا ہے، یہ کمانے والی لڑکیاں کسی پر پیسہ خرچ نہیں کرتیں اور کسی پر بھروسا بھی نہیں کرتیں حتیٰ کہ ان کی آزادی اور معاشی آسودگی میں روڑے اٹکانے والے کو دن میں تارے دکھا دیتی ہیں۔

میں نے جب سے ہوش سنبھالا اور شعور کی آنکھ سے دنیا کو دیکھنے کی کوشش کی ہے، مردوں اور عورتوں سے برابر تعلق قائم رہا ہے۔ مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی طرف توجہ زیادہ رہی ہے، اس کی وجہ سمجھ میں آتی ہے اور نہیں بھی آتی۔ جذباتی عمر کے قصص اپنی جگہ تاہم بطور عورت عورت کو تسلیم کرنا اور اس کی شخصیت کا احترام ایک مرد کے لیے یقیناً مشکل کام ہے۔ میری زندگی میں درجن بھر کے قریب ایسی عورتیں آئیں جن سے قرب کا تعلق قائم رہا۔

ان میں بیشتر تعداد خواتین اساتذہ کی ہے جن سے بہت سیکھا، اس کے بعد ملازمت پیشہ ہیں اور علاوہ ازیں وہ ہیں جو رشتے، واقفیت، اتفاًقا، ضرورتاً اور حادثاتی طور پر میسر آئیں اور میل ملاقات میں ان سے رسم و راہ استوار ہوئی۔ ان درجن بھر عورتوں کو میں نے ذاتی حیثیت میں پرکھ ٹٹول کر دیکھا تو ہر ایک میں ایک الگ دنیا آباد نظر آئی۔ ایک عورت دوسری سے اتنی مختلف ہو سکتی ہے، یہ میرے لیے حیرت کی بات ہے، شادی کے لیے جس عورت کا انتخاب گھر والوں نے میرے لیے کیا تھا، وہ بھی ایک پڑھی لکھی اور صاحب شعور عورت تھی جن سے بمشکل دو برس کا ساتھ رہا پھر ہم ایک دوسرے سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئے۔

علاحدگی کی وجہ بظاہر کچھ بھی نہیں تھی، دونوں انا پرست تھے، انا کی حائل دیوار کو سمجھوتے کے ہتھوڑے سے گرا نہ سکے، ایک عورت جس سے زندگی کے سبھی ارمان وابستہ ہوں اور وہ ہمیشہ کے لیے آپ سے جدا ہو جائے، یہ ایک بڑا ناقابل فراموش سانحہ ہے جس سے نکلنا اتنا آسان نہیں جتنا تصور کیا جاتا ہے، بیگم کے رویے، سوچ، ذہن اور جملہ حرکات و سکنات سے عورت کی شخصیت کو سمجھنے کا بخوبی موقع ملا۔ اس سانحہ کے بعد صورتحال یوں ہوئی کہ معاشی تنگ دستی کی و جہ سے اپنے دوستوں کے آگے اتنی بار ہاتھ پھیلانا پڑے کہ دوست شرمندہ ہوتے رہے لیکن مجھے شرم نہیں آئی۔

دوستوں میں مرد حضرات کی کثیر تعداد نے ہمیشہ مایوس کیا جبکہ عورت دوستوں نے میری ہر موقع پر مدد کی اور یہ تاثر دیا کہ کوئی بات نہیں، انسان سے زیادہ پیسے کی وقعت نہیں ہے، آپ ادھار لیں اور جب آسانی میسر آئے واپس کر دیں، ہم تقاضا کر کے آپ کو شرمندہ نہیں کریں گی، یہ رقم لاکھوں میں تھی۔ بیگم کے ساتھ ہوئے تجربے کے پیش نظر میں اکثر سوچتا ہوں کہ ایک عورت کے برے سلوک سے عورت ذات کو سرے سے نفرت و تعصب کا ذمہ دار قرار دینا کس حد تک درست ہو سکتا ہے۔

ایک عورت جس کا تجربہ مرد کے بارے میں اچھا نہیں رہا تو وہ کائنات کے سبھی مردوں کے بارے میں نفرت و تعصب کا رویہ کیوں اختیار کر لیتی ہے۔ ایک عورت نے دھوکا دیا تو سبھی عورتیں دھوکا باز کیسے ہو سکتی ہیں، اسی طرح ایک مرد نے فریب سے کام لیتے ہوئے اپنا مطلب نکال کر راستہ علاحدہ کر لیا تو زمانے بھر کے مرد بھروسے کے لائق کیوں نہیں رہتے۔ مرد اور عورت کے درمیان وہ کون سا رشتہ یا احساس ہے جو ہمیں کائنات بھر کے مردوں اور عورتوں سے نفرت کرنے پر اکساتا ہے۔

یہ ہماری خواہشات ہیں، آرزوئیں ہیں، خواب ہیں، دنیاوی مفادات ہیں یا کچھ اور جس کی ہمیں سمجھ نہیں یا ہم جان بوجھ کر سمجھنا اور اس کا اعتراف نہیں کرنا چاہتے۔ مرد، عورت ایک دوسرے کے بغیر زندگی کے جملہ تصور اور معنویت کے ساتھ بسر نہیں کر سکتے۔ ایک عورت جس نے آپ کے ساتھ زندگی گزارنے کا عہد کیا، باجوہ کچھ نزاعات و اسباب کے وہ اپنے عہد کی پاسداری نہیں کر سکی تو کیا عمر بھر عورت ذات کو ایک عورت کے روئیے کی سزا دی جائے گی، ایک مرد جس نے اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے سے انکار کیا اور تعلق سے برات کا اعلان کر دیا تو کیا اس مرد کو زمانے بھر کے مردوں کے لیے بطور عبرت ثابت کرنے کی ٹھان لی جائے گی۔

مرد عورت کے درمیان دنیاداری کے تقاضوں، معاملات، تصورات اور رجحانات کو لے کر جو اختلافات موجود ہیں، ان کو باہمی افہام و تفہیم سے کہاں تک حل کیا جاسکتا ہے اور باہم اکٹھے رہ کر زندگی گزارنے کی کہاں تک راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔ میں گزشتہ چھے ماہ سے فیمینزم ( فیمینزم ) یعنی نسائیت کے موضوع پر یوٹیوب پر پوڈ کاسٹ سن رہا ہوں۔ ایک سے بڑھ کر ایک دلائل دیے جاتے ہیں، حیران کن معلومات اور شرمندہ کر دینے والے حقائق سے پردہ ہٹایا جاتا ہے۔

ان خواتین کو سننے کے بعد معلوم ہوا کہ پدر سری سماج میں عورتوں کو بھیڑ بکری سمجھا جاتا ہے، عورت کا مطلب سیکس باڈی ہے اور کچھ بھی نہیں۔ نسائیت کے مغربی تصور کا پرچار کرنے والی ان خواتین کو سننے کے بعد سمجھ میں نہیں آتا کہ عورت آخر مرد سے چاہتی کیا ہے۔ عورت کو مرد سے، معاشرے سے، مذہب سے اور ریاست سے چاہیے کیا ہے، اس سوال کا جواب عورت کے پاس نہیں ہے، یہ آزادی چاہتی ہیں لیکن نہیں چاہتی، یہ ملازمت کرنا چاہتی ہیں اور نہیں کرنا چاہتیں، انھیں مذہب، سماج، معاشرے سے آزادی چاہیے اور نہیں چاہیے۔

خواتین اپنی ذات کے جملہ تصورات و تعصبات کے حوالے سے کنفیوز ہیں، انھیں شاید مردوں کو سمجھانا نہیں آتا یا پھر یہ مردوں کو اپنی مرضی سے ہانکنا چاہتی ہیں، ان کے اندر ایک کبھی نہ ختم ہونے والا خوف موجود ہے جس سے آزادی اور اسیری کی ملی جلی کیفیت کا چلن ان کی خواہش اولیں بن چکا ہے۔ دنیا بھر میں عورت کی آزادی کی بات ہو رہی ہے، عورت کو آزاد کس طرح کیا جائے، اس کے بارے میں کوئی لائحہ عمل ہنوز سامنے نہیں آیا۔

پاکستانی عورت سرے سے اس بحث کا حصہ ہی نہیں ہے، وہ تو اپنی ذات کی اسیری کی گم ہے اور اپنے تئیں مطمئن زندگی کے رائج چلن کو ذہنی طور پر قبول کیے وقت گزار رہی ہے۔ مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ معاملہ صرف دنیاوی اختیارات کا ہے، مرد طاقتور ہو گا تو عورت پر ظلم کرے گا اور اس کے حقوق سلب کرے گا، اسی طرح عورت طاقتور ہوگی تو مرد کی ذات، حیثیت، شخصیت اور تشخص کو کچلنے کی کوشش کرے گی۔ گویا اس حمام میں دونوں ننگے ہیں تاہم یہ بات ضرور ہے کہ ہزاروں برس سے مردوں نے عورتوں کے حقوق کا استحصال کیا ہے لہذا اب یہ موقع عورت کو دیا جائے کہ وہ بھی آزاد، خود مختار اور صاحب اقتدار ہو کر مردوں کے ساتھ جو سلوک کرنا چاہتی ہے کر گزرے تاکہ صدیوں سے محروم اس کے جملہ نسائی احساسات و تعصبات کو تسکین مل سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments