ہماری اشرافیہ کے نمائندے- جناب سرسید احمد خان


جناب سرسید احمد خان سر بھی تھے، سید بھی اور خان بھی، یعنی نشہ اور وہ بھی سہ آتشہ۔ آپ ایک جگہ فرماتے ہیں ”وہ وقت آیا چاہتا ہے جب ہمارے بھائی پٹھان، سادات، ہاشمی، اور قریشی جن کے خون میں ابراہیم کے خون کی بو آتی ہے، وہ زرق برق کی وردیاں پہنے کرنیل اور میجر بنے ہوئے فوج میں ہوں گے۔ “ ؛ دوسری جانب زمین زادوں کا سوچیے تو جناب سرسید جولاہے، حجام، نائیوں وغیرہ کو ”بدذات“ کہہ کر پکارا کرتے، ایک بار خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ مقابلہ کے امتحان کی بات چلی، جناب سرسید اس بابت اپنے خطبہ لکھنو 1887 میں فرماتے ہیں ؛

”میں مسلمانوں اور اپنے ملک کے ہندوؤں کو اکٹھا کر کے کہتا ہوں کہ بنگالی کیا دونوں سے مقابلہ کر سکتے ہیں؟ اس ملک میں یہ امتحان کیونکر جاری ہو سکتا ہے اگر یہ امتحان جاری ہو تو غور کرنا چاہیے کہ کیا نتیجہ ہو گا نہ صرف مسلمان بلکہ ہندو جو بہادر راجہ اور راجپوت ہیں، ایک بنگالی جو چھری دیکھ کر کرسی سے نیچے گر پڑے گا، کیا یہ ان کی برابری کر سکتا ہے؟“

ہماری سوچی سمجھی رائے ہے کہ بھٹو زندہ ہو نہ ہو، سرسید ضرور زندہ ہیں، سرسیدی سوچ اور سرسیدی الفاظ صدی بعد سفر کرتے جنرل ایوب خان، بنگال کے قصائی جنرل ٹکا خان، بنگال کے لٹیرے جنرل غلام عمر، آخر میں ان تمام ”بد ذاتوں“ کی بدنامی سمیٹنے والے جنرل یحیی خان اور جنرل نیازی تک جا پہنچے۔ جون ایلیا جہاں فرماتے ہیں کہ پاکستان علی گڑھ کے لونڈوں کی شرارت تھی تو اس بظاہر سطحی جملے میں ہمارا یہی سرسیدی کلچر چھپا ہے جس کی بدترین شکل طبقاتی نظام کی بدترین اور کریہہ شکل والا وی آئی پی کلچر ہے۔

جناب سرسید نے ”اسباب بغاوت ہند“ نامی رسالہ لکھا، یہ انگریز راج کی چاپلوسی میں لکھا اہم لٹریچر ہے، جس کا انگریزی میں ترجمہ ہوا اور انگلستان کی پارلیمان میں اس پر مباحثے ہوئے، ان میں مسلمانوں کی سرکشی کی وجوہات بیان کی گئی ہیں، اور ہاں اس ’بغاوت ہند‘ کو ہم جنگ آزادی کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ اسی طرح کی ایک اور کتاب کا عنوان
An Account of the Loyal Mohammedan ’s of India
ہے جو تین والیم پر محیط کتاب ہے۔ جس میں ایسی ایسی مذہبی تاویلات سے مسیحیوں سے مسلمانوں کے تعلق جوڑے ہیں کہ بندہ عش عش کر اٹھتا ہے، اور ممکن ہے کچھ مغالطہ پاکستان کو تاریخ سمجھنے والے غش کھا جائیں۔

سرسید نے ان کتب میں مجاہدین آزادی کے مجاہدین پر باقاعدہ دشنام طرازی کی ہے۔ اب یا تو آپ اس تحریک کو آزادی کی تحریک نہ مانیں تو پھر تو ٹھیک ہے مگر ہماری تاریخ ایسے عجیب و غریب تضادات سے بھرپور ہے کہ ایک جانب وہ تحریک آزادی ہے اور دوسری جانب تحریک آزادی کے سب سے بڑے مخالف سرسید بھی ہمارے ہیرو ہیں اور اسی قوم کے ہمدرد بھی، یہ ویسا ہی معاملہ ہے جیسا قبلہ جون ایلیا نے اقبال پر ایک جگہ فرمایا کہ ”وہ شاعر عظیم کیسے ہو سکتا ہے جس نے متضاد کرداروں کی مدح سرائی کی ہو۔ مثلاً ڈاکٹر اقبال کا ہیرو بیک وقت اورنگ زیب بھی ہے اور سرمد بھی۔ ایک ہی شاعر بیک وقت قاتل اور مقتول دونوں کو بلند کردار کہہ رہا ہے؟ برٹش امپائر کے شہنشاہ کے سامنے اقبال نے سر تسلیم کیسے خم کر دیا؟“

برٹش ایمپائر کے سامنے سر خم کرنا ویسے دیکھنا ہو تو جناب سرسید کو پڑھیے، آپ جنرل بخت خان کو فسادی لکھتے ہیں اور بغاوت کا بڑا مجرم گردانتے ہیں۔ ایک اور مجاہد آزادی محمود خان کو نامحمود کہتے ہیں، مجاہد بہادر خان کو بدمعاشوں کا سردار بیان کرتے ہیں، جناب احمداللہ خان کو بدذات لکھتے ہیں، ایک مجاہد عنایت رسول کو مشہور حرام زادہ، اور امام بخش کو قدیمی بدمعاش کے ساتھ حرام زادہ لکھتے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ

” بالفرض اگر بندوق کے آگے سور کی چربی تھی تو اسے کاٹنے سے دین تو نہیں جاتا۔ وہ گناہ شرعاً اس غدر میں بدذات فسادیوں کے گناہ سے کم ہی ہوتا“ ۔

ایک جگہ سرسید خدا کا شکر ادا کرتے ہیں، ”شکر خدا کا کہ اس ناگہانی آفت میں جو ہندوستان میں ہوئی، فدوی بہت نیک نام اور سرکار دولت مدار انگریزی کا طرفدار اور خیرخواہ رہا“ ۔ آگے حسب روایت جواز میں مذہب استعمال کرتے ہیں کہ ”مجھ سے اچھی خدمت اور گورنمنٹ سے وفاداری ہوئی تو وہ بالکل میں نے اپنے مذہب کی پیروی کی۔ میں نے جو کچھ کیا خدا اور رسول کی اطاعت ہی کی“ ، ایک جگہ سرسید قوم کو آگاہ کرتے ہیں کہ ملکہ وکٹوریہ کا اشتہار جو جہاد کے خلاف ہے، الہامی ہے، منجانب خدا تعالی ہے اور اس کے خلاف جانے والے جہنمی ہیں۔

”وفادر محمدیوں“ والی کتاب میں انہوں نے باقاعدہ مشاہرات اور وہ تمام مراعات فرداً فرداً بیان کی ہیں جو انگریزوں کی وفاداری اور اپنی قوم سے غداری کے جرم میں مسلم اشرافیہ نے پائیں۔

نگینہ میں سرسید کی مخبری پر مقامی مسلمانوں کا بیوی بچوں سمیت وہاں کے ہندو چودھری نے اپنے تین ہزار وفاداروں کے ساتھ قتل عام کیا اور ہمدرد دوراں سرسید چودھری صاحب کے گھر بیٹھے رہے، جناب سرسید فرماتے ہیں ؛

”چودھری صاحب نے ہلدور کے تمام راستے گھیر لیے اور جس قدر مسلمان حلوائی اور چھیپی اور کمہار وغیرہ ہلدور میں دستیاب ہوئے سب کو برابر قتل کر دیا اور بہت سی عورتیں گرفتار ہو کر کوٹھے میں قید کی گئیں اور کچھ عورتیں“ اتفاقیہ ”ماری بھی گئیں اور کچھ مرد اور کچھ عورتیں اور کچھ بچے زخمی بھاگ بھاگ چاند پور پہنچے۔ جو حلوائی اور چھیپی مفسد اور حرام زادے تھے اور غالباً انہوں نے ہی فساد کیا تھا۔“

اس کے بعد فرماتے ہیں کہ شام تک ان ’حرام زادوں‘ کا قتل عام ہوتا رہا۔ انہی ’حرام زادوں‘ کے گھروں کے بارے میں گویا ہیں کہ ”بجز پکی حویلیوں کے پھونس کے، پھونس کا کوئی گھر جلنے اور خراب ہونے اور لٹنے سے باقی نہ رہا۔ پھونس کا نام بلدور سے جاتا رہا یہاں تک کہ اگر کوئی چڑیا ایک پھونس کا تنکا اپنا گھونسلہ بنانے کو قرض مانگتی تو وہ بھی نہ ملتا“ ۔

خود بھی چار و ناچار نکلنا پڑا اور پھر آگے رقمطراز ہیں کہ بلوائی پکار پکار کر کہتے تھے کہ چودھریوں سے مل کر نگینہ میں مسلمانوں کو مروا دیا اور لوگوں کی جورو بیٹی کی بے عزتی کرائی اور اپنے سامنے بلدور میں مسلمانوں کو ذبح کرایا، اب ہم (سرسید کو ) زندہ نہ چھوڑیں گے۔

حیرت اس وقت ہوتی ہے جب اچھے خاصے کتب بین احباب سرسید کی سفارش پر کسی کی نوکری لگنے کو ان کی قوم سے ہمدردی پر خیال کرتے ہیں، بہرحال اپنی خدمات کا انہوں نے صلہ بھرپور پایا، موج کوثر میں علامہ اقبال کے شاگرد، آئی سی ایس افسر شیخ محمد اکرام، کچھ یوں گویا ہیں، ”سرسید نے صاحبزادے کو جج بنوا لیا انگریزوں کی مدد سے مگر وہ کثرت شراب نوشی کے باعث جنون کا شکار ہو کر انتقال فرما گئے۔“

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).