ریاستی ستونوں کے مابین سنگین ہوتی کشاکش


منگل اور بدھ کے روز سینٹ کے جو اجلاس ہوئے انہیں پارلیمان ہاﺅس جاکر نہیں دیکھا۔ لیپ ٹاپ کھول کر براہِ راست نشریات کی بدولت کارروائی کا مشاہدہ بھی نہیں کیا۔ محض ”تازہ ترین“ جاننے کے ارادے سے ٹی وی کھولا تو ہر نیوز چینل پر منگل کے روز سینیٹر فیصل واوڈا صاحب کی جانب سے ہوئی طولانی تقریر براہِ راست دکھائی جارہی تھی۔

واوڈا صاحب دبنگ آدمی ہیں۔ ٹی وی کیمروں کے روبرو گفتگو کے ذریعے ناظرین کی توجہ موہ لینے کی فطری صلاحیت سے مالا مال ہیں۔ ان کا انداز ڈرامائی حد تک جارحانہ ہونے کی وجہ سے رونق لگا دیتا ہے۔ منگل کی شام مگر ہر ٹی وی چینل ان کی سینٹ میں جاری تقریر کو براہِ راست دکھانے کو مائل یا مجبور ہوا تو اس کی واحد وجہ میری دانست میں واوڈا صاحب کی ٹی وی سکرینوں پر چھاجانے کی صلاحیت ہی نہیں تھی، اہم ترین وہ ”معاملہ“ تھا جس نے انہیں گزشتہ چند دنوں سے غیر معمولی حد تک متحرک بنا رکھا ہے۔

قارئین کی یاددہانی کیلئے محض اتنا یاد دلانا کافی ہوگا کہ چند روز قبل آزادکشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک شاعر پلس صحافی کی ”گمشدگی“ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے عزت مآب جج محسن اختر کیانی صاحب کو ریاست کے طاقتور ترین ادارے سے وابستہ چند افسروں اور اہلکاروں کے خلاف مشتعل کردیا۔وہ گمشدہ شاعر کو بازیاب کروانے کیلئے ڈٹ گئے۔ اس ضمن میں پولیس افسران کو بھی مسلسل دباﺅ میں رکھنے کیلئے تنقیدی ریمارکس دیتے رہے۔

عزت مآب جج کے سخت گیر رویے نے مجھ بزدل کا جی دہلادیا۔ یہ فکر لاحق ہو گئی کہ وطن عزیز میں ایک بار پھر عدالت اور انتظامیہ کے مابین چپقلش شدید تر ہونا شروع ہو گئی ہے۔ ماضی میں ایسی چپقلش کا انجام اچھا نہیں ہوا۔ حالیہ سیاسی تاریخ پر نگاہ رکھنے والوں کی کماحقہ تعداد مگر سنجیدگی سے یہ سوچتی ہے کہ اپریل 2007ء میں ان دنوں کے چیف جسٹس افتخار چودھری کے ”انکار“ نے ”عدلیہ آزادی“ کی جس تحریک کو انگیخت دی تھی وہ بالآخر جنرل مشرف کی اقتدار سے رخصتی کا کلیدی سبب ہوئی۔ مختصر لفظوں میں یوں کہہ لیں کہ وہ ”راﺅنڈ“ ریاست کے طاقتور ترین ادارے نے نہیں بلکہ عدلیہ اور اس کی ”آزادی“ کے لئے سڑکوں پر نکلے وکلا اور سول سوسائٹی کے متحرک کارکنوں نے جیتا تھا۔

مذکورہ تحریک کا بطور صحافی نہایت لگن اور جستجو سے اس کے آغاز سے انجام تک مشاہدہ کیا ہے۔ ان دنوں ”بولتا پاکستان“ کے نام سے جس ٹی وی شوکی میزبانی کرتا تھا وہ بتدریج عدلیہ بحالی کی تحریک کا بلکہ ڈھنڈورچی محسوس ہونا شروع ہو گیا۔ میرا جھکی مزاج اگرچہ عدلیہ کی حمایت میں دیوانگی سے کھڑا ہوجانے پر سوال بھی اٹھاتا رہا۔ کبھی کبھار یہ حقیقت بھی تنگ کرنا شروع کردیتی کہ ریاست کے نام نہاد ستونوں کے مابین تخت یا تختہ والی کشمکش شروع ہوجائے تو بالآخر ”ہاکیوں والے“ ہی جیتا کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ قیام پاکستان کے بعد عدلیہ کا سیاست دشمن رویہ بھی یاد آتا رہا۔ جسٹس منیر کا متعارف کردہ ”نظریہ ضرورت“ جس نے ہمیں فقط ایوب خان ہی نہیں بلکہ ان کے بعد جنرل یحییٰ، ضیا اور مشرف کے لگائے مارشل لاء بھی دیے۔ ”بولتا پاکستان“ کے ساتھی میزبان مشتاق منہاس مگر ٹی وی سکرین پر ہی نہیں بلکہ تنہائی میں بھی میرے ساتھ بیٹھ کر اصرار کرتے رہے کہ ”پاکستان بدل چکا ہے“۔ ”دیدہ وروں“ کو اب آئین کی تنسیخ یا معطلی سے قبل سوبار سوچنا پڑے گا۔

مشتاق منہاس کے اعتماد کے باوجود جنرل مشرف نے عدلیہ تحریک اور اس کی ٹی وی چینلوں پر لائیو کوریج سے اکتاکر 3 نومبر2007ء کو مارشل لاءلگائے بغیر ”ایمرجنسی پلس“ متعارف کرواتے ہوئے ٹی وی سکرینوں کے ذریعے پھیلتے بیانیے پر پابندی لگادی۔ میرے سمیت تقریباََ 8 اینکر ٹی وی سکرینوں سے غائب ہوگئے۔ افتخار چودھری سمیت ججوں اور ان کی حمایت میں متحرک وکلا کی کافی بڑی تعداد کو ان کے گھروں میں نظربند کردیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی لیکن عام انتخابات کا ا علان بھی ہوگیا۔ اہم سیاسی جماعتیں عدلیہ تحریک بھول کر ان میں حصہ لینے کو متحرک ہوگئیں۔ دریں اثناءمحترمہ بے نظیر بھٹو کے 27 دسمبر2007ء کی سہ پہر دہشت گردوں کے ہاتھوں راولپنڈی کے لیاقت باغ کے قریب ہوئے قتل نے ماحول کو مزید سوگوار بنا دیا۔ ٹی وی سکرین سے بین ہونے کے بعد دیگر معتوب اینکروں کی طرح میں بھی شہر شہر جاکر فٹ پاتھوں پر ”ٹی وی پروگرام“ ریکارڈ کرنے لگا۔ چند ہفتوں کے بعد تھک گیا اور گھر بیٹھ کر ”اچھے وقت“ کا انتظار کرنا شروع ہوگیا۔ٹی وی سکرین پر لوٹنے میں مجھے چھ ماہ لگے۔ یہ واقعہ بھی جنرل مشرف کی ایوان صدر سے رخصتی کے بعد ہی ممکن ہوا۔

معتوب اینکروں کے ٹی وی سکرینوں پر بحال ہونے کے باوجود افتخار چودھری اور ان کے حامی جج اور وکلا اپنا ہدف حاصل نہ کر پائے۔ افتخار چودھری کو چیف جسٹس کے منصب پر بحال کروانے کو بالآخر ایک سیاستدان -نواز شریف- ہی کو متحرک ہونا پڑا۔ وہ لاہور سے لانگ مارچ لے کر اسلام آباد آنا چاہ رہے تھے۔ ابھی مگر گوجرانوالہ ہی پہنچے تھے تو ان دنوں کے آرمی چیف جنرل کیانی کے فون نے انہیں اطمینان دلایا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت افتخار چودھری کو ان کے منصب پر بحال کرنے کو تیار ہے۔ لانگ مارچ کی ضرورت باقی نہ رہی۔

بحال ہوجانے کے بعد افتخار چودھری مگر اس گماں میں مبتلا ہوگئے کہ وہ کسی سیاسی جماعت کی تحریک کے طفیل نہیں بلکہ ”عوامی حمایت“ کے بل بوتے پر چیف جسٹس کے منصب پر لوٹے ہیں۔ عوام کے منتخب کردہ نمائندوں اور حکومتوں کو بلکہ انہوں نے خود ساختہ مسیحا کی طرح ازخود نوٹسوں کے ذریعے راہ راست پر ہانکنے کی کاوشیں بھی شروع کر دیں۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو گھریلو ملازموں کی طرح فارغ کردیا۔ چودھری صاحب کی متعارف کروائی روایت کو ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ جیسے ججوں نے انتہا تک پہنچانے کی ٹھان لی۔ ان کی وجہ سے فقط عدلیہ ہی ریاست پاکستان کا طاقتور ترین ستون نظر آنا شروع ہوگئی۔یہ دریافت کرنے میں ہماری سادہ قوم کو بہت دیر لگی کہ دلاور اورمسیحا نظر آتے ثاقب نثار اور آصف سعید کھوسہ درحقیقت ریاست کے ”اصلی تے وڈے“ ادارے کے ساتھ مل کر سیاستدانوں کو دیوار سے لگا رہے تھے۔

منگل اور بدھ کے دن سینٹ میں ہوئی تقاریر مگر عندیہ دیتی رہیں کہ ”اتحادی“ اب کی بار بدل چکے ہیں۔ عدلیہ کو اس کے ”دائرہ کار“ تک محدود رکھنے کو اب ”پارلیمان“ متحرک بنا دی گئی ہے۔ ”بنادی گئی ہے“میں نے سوچ سمجھ کر لکھا ہے۔ اس کی تفہیم کا حوصلہ نہیں۔ ایک بات اگرچہ طے ہے کہ ریاستی ستونوں کے مابین کشاکش سنگین سے سنگین تر ہورہی ہے۔ دیکھنا ہوگا کہ خربوزہ چھری پر گرتا ہے یا چھری خربوزے پر۔

(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments