باغوں کا شہر


ایک روز میں گوگل میپ پر لاہور کا نقشہ دیکھ رہا تھا۔ میں اپنے آبائی شہر کے مقابلے میں لاہور کی وسعت دیکھ کر بہت حیران ہوا۔ میں جو لاہور تعلیم اور جاب کے سلسلے میں آیا تھا، شہر کی بوقلمونیوں میں کھو گیا اور اسی کا ہو کر رہ گیا۔ میں نے گریٹر اقبال پارک پر نقشے کو زوم ان کیا۔ اس قطعے میں لاہور کی تین مشہور تاریخی عمارات تھیں : شاہی قلعہ اور بادشاہی مسجد جو مغل دور کی علامت تھے اور مینار پاکستان جو تحریک پاکستان کی یادگار تھا۔ مجھے یاد آیا کہ میرے آبا و اجداد بھی انڈیا سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔

لیپ ٹاپ کی سکرین پر نقشہ کھلا ہوا تھا۔ گریٹر اقبال پارک کے جنوب مشرق میں لاہور کا تاریخی اندرون شہر تھا۔ شمال میں دو رہائشی کالونیاں نمایاں ہو رہی تھیں : شاد باغ اور بادامی باغ۔ لاہور کو کتابوں میں باغوں کا شہر کہا گیا ہے۔ مجھے بھی یہ باغ دیکھنے تھے۔ آج کل کے نیوز چینل لاہور کو آلودہ شہروں میں شمار کرتے ہیں۔ معلوم نہیں کہ میری آنے والی نسلوں کا پڑاؤ کہاں ہو گا!

میں شاد باغ اور بادامی باغ دیکھنے کار میں پرانے شہر کی طرف نکل پڑا۔ میں نے کار گریٹر اقبال پارک کی پارکنگ میں کھڑی کی اور ”باغوں“ کی طرف پیدل مارچ شروع کر دیا۔ دوپہر کا وقت تھا لیکن بہار کا موسم تھا اور فرحت بخش ہوا چل رہی تھی۔ سو میں کئی کلو میٹر چل سکتا تھا۔ پلان یہ تھا کہ میں پہلے شاد باغ جاؤں گا۔ اس کے بعد بھگت پورہ سے گزر کر رنگ روڈ تک پہنچوں گا۔ پھر بادامی باغ کے رستے سے کار پارکنگ کی طرف واپس آ جاؤں گا۔

میں سرکلر روڈ پار کر کے لاری اڈے کے ایریا میں داخل ہوا۔ موبائل میں جگجیت کی یہ غزل چل رہی تھی: ”آئینہ سامنے رکھو گے تو یاد آؤں گا۔“ ہر طرف مسافر، سواریاں اور کھانے پینے کی دکانیں تھیں۔ میں گلیوں گلیوں چلتا گاڑیوں کی ایک مارکیٹ میں پہنچا جو اس دن بند تھی۔ کچھ دیر کے بعد پیکو روڈ پر دائیں جانب مڑ گیا اور ریل کی پٹری کو کراس کیا۔ گوگل میپ برابر میری رہنمائی کر رہا تھا اور موبائل میں میوزک چل رہا تھا:

جن میں مل جاتے تھے ہم تم کبھی آتے آتے
جب بھی ان گلیوں سے گزرو گے تو یاد آؤں گا

میں شیر شاہ روڈ پر آ نکلا جو آگے مصری شاہ کی طرف جا رہا تھا۔ اپ یہ غزل لگی ہوئی تھی: ”اپنے ہاتھوں کی لکیروں میں بسا لے مجھ کو۔“ یہاں پر سریے کے بڑے بڑے شوروم تھے۔ میں نے سوچا کہ میری طرح کتنے لوگ اس شہر میں آ کر بس گئے۔ غیر محسوس طریقے سے شہر پھیلتا رہا۔ لوگوں کو چھت دینے کے لیے سریا اور دوسرا تعمیراتی میٹریل انہی جگہوں سے جاتا ہو گا۔ اس شعر کی مانند یہ شہر بھی ہم سب کو تھامے ہوئے ہے :

خود کو میں بانٹ نہ ڈالوں کہیں دامن دامن
کر دیا تو نے اگر میرے حوالے مجھ کو

وہاں سے میں ایک رہائشی گلی میں داخل ہوا۔ اب یہ غزل چل رہی تھی: ”کہیں دور جب دن ڈھل جائے۔“ یہ ایک نیم تاریک اور لوئر کلاس ایریا تھا۔ گھر سے گھر جڑے ہوئے۔ مکین بھی ایک دوسرے کے قریب قریب۔ بچے کھیل رہے تھے۔ برادری کی فضا بنی ہوئی تھی۔ اور میں ایک اجنبی کی طرح میوزک سنتا ہوا وہاں سے گزر رہا تھا:

تھمی تھی الجھن بیری اپنا من
اپنا ہی ہوکے سہے درد پرائے

اب سٹیل کی بڑی بڑی ورک شاپس شروع ہو گئیں۔ موبائل میں یہ غزل لگی ہوئی تھی: ”میری زندگی کسی اور کی میرے نام کا کوئی اور ہے۔“ وہاں کا ماحول بھی غزل کی طرح سررئیل قسم کا تھا۔ ہر طرف لوہا بکھرا ہوا، فضا میں رچی زنگ کی خوشبو، ہوا میں بکھرے دھات کے ذرے۔ ورک شاپس کے بڑے بڑے دالان۔ دیو ہیکل مشینیں۔

یہ کیسا باغوں کا شہر تھا؟ میں نے خود سے سوال کیا۔ یہاں کیا اگتا تھا؟ گاڑیوں کے پرزے؟ مشینوں کے اوزار؟ پھر میں نے سوچا کہ انہی چیزوں کی تو شہر کو ضرورت تھی! کیونکہ شہر تیزی سے پھیل رہا تھا۔ نئے لوگ آرہے تھے۔ پھول کس کو چاہئیں؟ سبزے میں کیا رکھا ہے؟ کچھ اتنا ہی پریشان کن میرے کانوں میں میوزک بج رہا تھا:

نہ گئے دنوں کو خبر میری نہ شریک حال نظر تیری
تیرے دیس میں میرے بھیس میں کوئی اور تھا کوئی اور ہے

میں شاد باغ کے رہائشی ایریا میں داخل ہوا۔ سورج بادلوں کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہا تھا۔ خوش نما گھروں کی دیواروں پر دھوپ چھاؤں کا کھیل چل رہا تھا۔ میں شاد باغ کے مرکزی پارک میں جا کر ایک طرف بینچ پر بیٹھ گیا۔ ایسا محسوس ہوا کہ ایک طویل کٹھن صحرا سے ایک نخلستان میں آ گیا تھا۔ میں نے موبائل نکالا اور کنڈل پر میلان کنڈیرا کا ناول ”Ignorance“ پڑھنے لگا۔ میں نے کچھ صفحات پڑھے اور ان جملوں کو ہائی لائٹ کیا:

”Regardless of whether we want to hear it, or whether we can grasp it, music becomes just noise, a noise among other noises, technically reproduced, proliferated, amplified, the stream has become an enormous river, it roars from everywhere.“

”Everyone is wrong about the future. For how can a person with no knowledge of the future understand the meaning of the present, what future the present is leading us toward.“

باغ میں تازہ دم ہو کر میں نے پھر سے سفر شروع کر دیا۔ میوزک دوبارہ چل پڑا۔ اب یہ غزل لگی ہوئی تھی: ”یہ بتا دے مجھے زندگی“ میں شاد باغ کے شمالی حصے سے گزر رہا تھا۔ میں اقبال روڈ سے دائیں جانب گلیوں سے ہوتا ہوا عامر روڈ کی طرف چل پڑا۔ ”پیار کی راہ کے ہمسفر،“ گیت کے ان لفظوں کو سن کر اچانک مجھے لگا کہ میں اپنے ماضی میں پہنچ گیا ہوں۔

وہ بھولے بسرے مناظر میری آنکھیں کے سامنے آ گئے جب بچپن میں ہم جگجیت کی غزلیں سنا کرتے تھے۔ مگر یہ گلی محلے تو اجنبی تھے! میں ان کے بارے میں کیوں ناسٹلجک ہو رہا تھا؟ پھر مجھے سمجھ آیا کہ یادوں کا تعلق صرف ماضی سے نہیں ہوتا بلکہ حال سے بھی ہوتا ہے۔ یادوں کے بیج ہم حال میں بوتے ہیں جو مستقبل میں جا کر گھنے درخت میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ اور یوں میں اس زمین پر یادیں کاشت کرتا آگے بڑھ گیا۔

طارق روڈ کے ساتھ ساتھ بہتے نالے کو پار کر کے میں بھگت پورہ میں داخل ہوا۔ میپ کے مطابق یہاں سے دو رستے رنگ روڈ کی طرف جا رہے تھے۔ ایک بازار کا رستہ۔ دوسرا رہائشی گلیوں سے ہوتا ہوا قدرے لمبا رستہ۔ میں نے دوسرے رستے کا انتخاب کیا۔ اب یہ غزل چل رہی تھی: ”تیرے آنے کی جب خبر مہکے۔“

میں گلی در گلی آگے بڑھ رہا تھا۔ گلیاں گلیوں کو کراس کر رہی تھیں۔ کشادہ اور ویران گلیاں۔ گلی کو آدھا دھوپ اور آدھا چھاؤں نے تقسیم کیا ہوا تھا۔ میں درمیان کی لکیر پر آگے چلا جا رہا تھا۔ گویا میرا دھوپ اور چھاؤں دونوں سے برابر کا رشتہ تھا۔ دونوں طرف چھوٹے چھوٹے نئی طرز کے مکان بنے ہوئے تھے۔ جن کے مکیں میرے وہاں آنے کی خبر سے یکسر لاعلم تھے۔ اگلی غزل کا آغاز ہو گیا۔

میں نے چلتے ہوئے میلان کنڈیرا کے کچھ دیر قبل پڑھے جملوں پر غور کیا۔ یہ میوزک پلیئر کے اندر لکھے الگورتھم کا ہی کمال تھا کہ وہ میرے لیے ایک کے بعد ایک غزل چلائے جا رہا تھا۔ اس کی اپنی ترتیب تھی۔ میرا اس پر کوئی اختیار نہیں تھا۔ بس میں مستقبل کی گلیوں، حال کے سروں اور ماضی کی یادوں میں بہتا چلا جا رہا تھا۔

جیسے جیسے میں آگے بڑھتا گیا، گلیاں تنگ ہوتی گئیں اور ان میں رش بڑھ گیا، گھر پرانے ہوتے گئے اور ان کے مکین گلیوں میں نظر آنے لگے۔ چھاؤں دھوپ پر غالب آ گئی۔ اور میں رنگ روڈ کے سروس روڈ پر پہنچ گیا۔ وہاں سے بائیں طرف جاتے ایک رکشہ میں بیٹھ گیا۔ اور عین اس گلی کے آگے اتر گیا جو بادامی باغ سے ہوتی ہوئی واپس مینار پاکستان کی طرف جا رہی تھی۔

یہ علاقہ کچھ پسماندہ معلوم ہوتا تھا۔ کچے گھر، تنگ و تاریک گلیاں، میلے کچیلے بچے اور آزادانہ گھومتے مویشی۔ دیواروں پر ایک سیاسی جماعت کے پوسٹر لگے ہوئے تھے۔ میں نے سوچا کہ یہاں کے بالغ لوگوں کا ووٹ ضرور ہو گا مگر اس کی سیاسی حیثیت نہ ہونے کے برابر تھی۔ اگر ہوتی تو یہ لوگ اتنی تنگ دستی کا شکار نہ ہوتے۔

اب میں بادامی باغ کے علاقہ میں داخل ہوا۔ یہاں زیادہ لوئر مڈل کلاس کے گھر تھے۔ گھروں کا ایک جنگل تھا۔ ہار کی طرح لڑیوں میں پروئے ہوئے گھر۔ بازاروں میں کھوے سے کھوا چلتا ہوا۔ کیا بادامی باغ کی بنیاد رکھنے والے شخص نے کبھی سوچا ہو گا کہ یہاں آبادی کی ایسی گنجانیت پیدا ہو جائے گی؟

میلان کنڈیرا ٹھیک ہی تو کہتا ہے کہ ہم مستقبل کے بارے میں نہیں جانتے۔ اور مستقبل کو جانے بغیر ہم اپنے حال کو نہیں سمجھ سکتے۔ نہیں جان سکتے کہ ہمارا حال کس مستقبل کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اور ہم، ہماری ہجرتیں اور ہمارے باغات اسی غیر یقینیت کی پیداوار تھے۔

میں کئی میلوں کا سفر طے کر کے واپس لوٹا تھا۔ مجھے شاد باغ کے مرکزی پارک کے علاوہ سبزے کا کوئی خاطر خواہ قطعہ نظر نہیں آیا۔ بادامی باغ کے قبرستان میں کچھ درخت تھے۔ شکر ہے مرنے کے بعد لوگوں کو نیچر کا سایہ نصیب ہو گیا۔ ایسے میں اقبال پارک کا وسیع میدان بھی غنیمت سے کم نہیں تھا۔ میں کچھ دیر وہاں سستا کر اپنے گھر واپس آ گیا۔

فرحان خالد
Latest posts by فرحان خالد (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

فرحان خالد

فرحان خالد تعلیمی اعتبار سے انجنیئر ہیں. ایک دہائی سے سافٹ ویئر انڈسٹری سے منسلک ہیں. بچپن سے انہیں مصوری، رائٹنگ اور کتابیں پڑھنے کا شوق ہے. ادب اور آرٹ کے شیدائی ہیں.

farhan-khalid has 51 posts and counting.See all posts by farhan-khalid

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments