عدلیہ کی بے توقیری


ہر انسان اپنی عزت و تکریم کا خود ذمہ دار ہے۔ اعلی اوصاف کا اظہار عزت اور تکریم کا سبب ہے تو اس کے برعکس رویے اور اقدامات عزت و توقیر کی نفی کا باعث ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ عدلیہ کے ساتھ ظلم خود عدلیہ نے کیا تو یہ غلط نہ ہو گا۔ جسٹس منیر نے ”نظریہ ضرورت“ ایجاد کیا وہ جسٹس بندیال تک پہنچا تو ”گڈ ٹو سی یو“ کی صورت میں سامنے آیا۔ جسٹس منیر نے اگر فوجی آمر کو سہارا دیا تو جسٹس بندیال اور اس قبیل کے دوسرے ججز نے ”ان“ کے اشارہ ابرو پر عمران خان کو کھلی چھوٹ دی اور اقتدار میں لانے کے لیے ایسے فیصلوں کے پاپڑ بیلے جو ان کے منصفی کے لیے داغ بنے۔

ایک ہی طرح کے مقدمات میں دو دو مختلف فیصلے دے کر اپنی اور عدلیہ کی سبکی کا سامان کیا گیا۔ اگر جسٹس منیر نے آمر کو ”نظریہ ضرورت“ کی بیساکھی دے کر چند سالہ نوکری کے لئے انصاف کا خون کیا تو ثاقب نثار سے عطا بندیال تک عدلیہ پر ”منیری“ رنگ مختلف انداز میں سامنے آتا رہا۔ ایوب خان سے شروع ہو نے والا سلسلہ جنرل ضیاء الحق، جنرل پرویز مشرف اور اس کے بعد جنرل باجوہ تک عدلیہ کا کردار نہایت المناک رہا۔ اے آر کارنیلس، بھگوان داس، جسٹس کیانی، دراب پٹیل، خلیل الرحمن رمدے، اعجاز چودھری، سعید الرحمن اور دیگر ججز بھی تو اسی عدلیہ کے تھے، وہ کبھی توہین کے تکلیف دہ احساس کا شکار کیوں نہیں ہوئے۔

ثاقب نثار، آصف کھوسہ، گلزار احمد اور عمرعطا بندیال، ان کے ساتھی جج، اعجاز الاحسن، مظاہر علی اکبر نقوی، اور دیگر تنقید کا نشانہ بنے تو اس کے وہ خود ذمہ دار ہیں۔ فیصل واوڈا دوہری شہریت کی بنیاد پر پارلیمنٹ کی رکنیت سے محروم کیے گئے۔ ان کے ذہن میں جسٹس بابر ستار کے گرین کارڈ ہولڈر ہونے کے باوجود جج کی مسند پر فروکش ہونا سوالیہ نشان ہے۔ رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ کی وضاحت ”عذر گناہ بد تراز گناہ“ کا مصداق ہے کہ ملکی آئین میں کوئی پابندی نہیں کہ گرین کارڈ رکھنے والا جج نہیں بن سکتا۔ کیا عام ذہنوں میں یہ سوال اٹھنا غیر فطری ہے کہ نواز شریف کا اقامہ بھی تو سفری سہولت کے لئے تھا۔ انہیں تاحیات نا اہلی کی سزا کیوں دی گئی؟

وہی منصفوں کی روایتیں وہی فیصلوں کی عبارتیں
مرا جرم تو کوئی اور تھا پہ مری سزا کوئی اور ہے

عمران تاخیر سے آئیں تو جج انتظار کی جان گسل گھڑیاں خوش دلی سے گزاریں، ادھر گرفتاری ادھر ضمانت، جیسی عدالتی سبک رفتاری، ملزم عدالت میں قدم رنجہ کرے تو ”گڈ ٹو سی یو“ کے مسرت آمیز الفاظ سے منصف اعلیٰ ان کا استقبال کریں۔ تو پھر اٹھنے والے سوالات توہین کے زمرے میں کیسے آتے ہیں؟ کسی کو اقتدار سے محروم کرنا کسی کو اقتدار میں لانا کیا کسی جج کے منصبی فرائض کا تقاضا ہے۔ جب اسٹیبلشمنٹ کی جنبش ابرو پر یہ سب کیا گیا اس وقت مداخلت کی دھائی کیوں نہ دی گئی؟

ٹرمپ کی آڈیو عدالت میں پیش ہوئی تو انہوں نے اپنی آڈیو کا اعتراف کیا۔ ٹرمپ نے سوال نہیں اٹھایا کہ یہ آڈیو ریکارڈ کس نے کی اور اس کا فرانزک ٹیسٹ کروایا جائے۔ اور نہ ہی جج نے کہا کہ ایسے تو میری اور آپ کی آواز سے آڈیو بنائی جا سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے یہ باریک بینی انصاف کے تقاضے کے لئے ہو، لیکن جب دیگر کیسوں میں ایسی باریک بینی نظر نہ آئے تو سوال تو اٹھیں گے۔ مسلمان جج کے لئے انصاف کا یہ معیار مقرر کر دیا گیا کہ اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرے گی تو اس کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں گے۔ مسند عدل پر جلوہ افروز ججز کو ایک دن بڑی عدالت میں پیش ہونا ہے۔ وہاں نہ عمران کی سوشل میڈیا کی ”عوامی مقبولیت“ کام آئے گی نہ پی ٹی آئی کا ٹرولنگ بریگیڈ اثر انداز ہو سکے گا۔ پاکستان میں پانچ ہائی کورٹس اور ایک سپریم کورٹ ہے۔ ان میں سے چند ججز ہی کیوں زیر بحث آتے ہیں؟

پاکستان جیسا غریب ملک بساط سے بڑھ کر ججوں کو مراعات اور سہولتیں مہیا کر رہا ہے۔ ان مراعات اور تنخواہوں پر نظر دوڑائیں تو انسان حیرت زدہ رہ جاتا ہے حتیٰ کہ ریٹائر منٹ کے بعد بھی انہیں سرکاری سہولتیں بہم پہنچائی جاتی ہیں۔ اور بیش قیمت سرکاری گاڑیاں معمولی ادائیگی پر مل جاتی ہیں۔ اس کے باوجود عدلیہ کے عملی معاملات حد درجہ ناگفتہ بہ ہیں۔ سچ یہی ہے کہ انصاف دینا اب ان حضرات کی استطاعت سے باہر نظر آ رہا ہے۔

مجموعی عدالتی نظام چھوڑیے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کا یہ حال ہے کہ وہ جسے باعزت بری کرتی ہے، اس کے بارے میں پتہ چلتا ہے وہ سالوں قبل فوت ہو چکا، جس کی پھانسی کی سزا ختم کی جاتی ہے تو انکشاف ہوتا ہے کہ وہ غریب تو کب کا پھانسی پر لٹک بھی چکا۔ کسی بھی کچہری میں جائیں، آپ کو سائلوں کا ہجوم نظر آئے گا جو سارا سارا دن مقدمے کی سماعت کا انتظار کرتے ہیں۔ اور شام کو نامراد واپس چلے جاتے ہیں۔ وکلاء کی فیسیں اس قدر زیادہ ہیں کہ عام سائل اچھا وکیل کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ کرپشن کی شکایات عام ہیں اور یہ فقرہ زبان زد عام ہو نا کہ وکلاء کے بجائے جج خرید لو۔ کیا یہ واضح نہیں کرتا منصف اپنی افادیت کھو بیٹھے ہیں۔

مولانا ابو الکلام آزاد نے کہا تھا ”تاریخ عالم کی سب سے بڑی نا انصافیاں میدان جنگ کے بعد عدالت کے ایوانوں میں ہوئی ہیں۔“ برطانوی وزیراعظم چرچل نے کہا تھا کہ اگر ہماری عدالتیں انصاف کر رہی ہیں تو ہمیں پریشانی نہیں، ہم سرخرو ہوں گے۔ انگریزی مقولے کے مطابق ”انصاف میں جلدبازی انصاف کو دفن کرنے اور انصاف میں تاخیر کا مطلب انصاف سے انکار ہے۔“

پاکستان میں عدالتیں اپنے دائرہ کار سے تجاوز کرتی ہیں عدالتوں کو مقننہ اور انتظامیہ کے دائرہ کار سے علیحدہ کرنے والی لکیر بہت باریک ہے۔ جوڈیشل ایکٹو ازم سے ایک دو کام تو عدالتی احکامات سے ہو جاتے ہیں لیکن کوئی دیر پا تبدیلی ممکن نہیں ہوتی ایسی تبدیلیاں سیاسی اور انتظامی ادارے ہی لا سکتے ہیں۔ بسا اوقات عدالتیں ایسے مسائل پر بات کرتی ہیں جن پر ان کی معلومات محدود ہوتی ہیں۔ ان کی روشنی میں دیے گئے احکامات اور فیصلے ملک کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں، جیسے سپریم کورٹ کا اسٹیل مل کی نجکاری روکنا، ایل پی جی کے معاہدے کو معطل کرنا، ریکوڈک پر کام رکوانا اور لاہور کی اورنج لائن ٹرین کا معاملہ 22 ماہ تک لٹکانا وغیرہ۔

مہذب ممالک میں قانونی ماہرین مقدمات کے فیصلوں پر تنقید کرتے اور ان کی حسن و قبح کا جائزہ لیتے ہیں۔ امریکی سپریم کورٹ کے جج جسٹس اولیور ہومز نے، ایک مشہور فیصلے میں اپنے اختلافی نوٹ میں یہ دل چسپ جملہ لکھا کہ، ”مشکل مقدمات کی طرح بڑے کیسز کے نتیجے میں سامنے آنے والا قانون بہت بُرا ہوتا ہے۔“ کیوں کہ جن کیسز میں ججز پر بہت زیادہ دباؤ، ہوتا ہے، ان کیسز کا فیصلہ ہومز کے بقول صحیح نہیں ہوتا۔ ہارورڈ کے ایک پروفیسر کی کتاب کا عنوان ہی یہ ہے کہ ”بڑے مقدمات برے قانون کو جنم دیتے ہیں“ کتاب میں امریکا کے چوبیس بڑے بڑے کیسز کا تجزیہ کیا گیا ہے ۔

انہی تجزیوں اور تبصروں کے نتیجے میں قانون آگے بڑھتا اور اصلاح کا عمل جاری رہتا ہے۔ دنیا بھر میں ججز کیس کی شنوائی میں متنازع ریمارکس کم ہی دیتے ہیں لیکن ہمارے ہاں یہ پریکٹس کچھ زیادہ ہی عام ہے۔ ججز کو اپنے فیصلوں کے ذریعے بات کرنی چاہیے، متنازع ریمارکس سے نہیں۔ وہ فیصلوں کے ذریعے بولتے ہی اچھے لگتے ہیں۔ ججز کے کوڈ آف کنڈکٹ کا تقاضا ہے کہ وہ آئین کے مطابق فیصلے کریں۔ تماشائیوں اور میڈیا کو خوش کرنے کے لیے ریمارکس پاس نہ کریں۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں یہ سلسلہ پچھلے دس پندرہ سالوں سے جاری ہے۔ یعنی:

کبھی آئین کو بدلا، کبھی ترمیم ہوتی ہے

بدقسمتی سے ماضی کی طرح آج کی عدلیہ کا کردار بھی کوئی اچھا نہیں۔ حالات بہت کشیدہ ہیں۔ مایوسی سے کہنا پڑتا ہے کہ آئینی یا عدالتی مستقبل بھی تابناک نظر نہیں آتا۔ چیف جسٹس صاحبان، سینئر ججوں اور سینئر وکلا کو سوچنا چاہیے کہ ملک کا اچھا اور بہتر عدالتی نظام ہی ججز اور عدلیہ کے وقار میں اضافے کر سکتا ہے۔ مہذب ملکوں میں کسی جج پر الزام آتا ہے۔ وہ اپنی عزت اور وقار کے لیے سب سے پہلے اپنے عہدے کو ٹھکرا تا اور آزاد ہو کر الزام کا سامنا کرتا ہے۔ الزام غلط ثابت ہونے پر وہ با عزت انداز میں واپس آتا ہے۔ اس کے اس عمل سے ادارے کی عزت اور وقار میں یقیناً بہت اضافہ ہو تا ہے۔ ہمارے ہاں ایسی کوئی روایت نہیں اس لیے عدلیہ کی بے توقیری میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments