میداس: اپنی بیٹی کو چھو کر سونے کی مورتی بنا دینے والا ترکی کا بادشاہ حقیقت یا افسانہ؟

بیلا فلک - بی بی سی ٹریول


ترکی، سونا، یونان
گوردیون تقریباً ساڑھے چار ہزار سال پُرانا شہر ہے اور یہ فریجیا سلطنت کا دارالحکومت تھا
آٹھویں صدی قبل مسیح میں موجودہ ترکی کے مشرقی علاقوں میں میداس نامی ایک بادشاہ کی حکومت تھی اور اس ہی بادشاہ سے ایک بہت مشہور کہانی بھی منسوب ہے۔

کہا جاتا ہے کہ میداس نے قدیم یونانی خدا دیانوسس کے لیے ایک کام سرانجام دیا اور بدلے میں یونانی خدا نے کہا کہ بادشاہ کوئی بھی ایک خواہش کرسکتا ہے اور اسے پورا بھی کیا جائے گا۔

بادشاہ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ ’میں جس چیز کو ہاتھ لگاؤں وہ سونے میں تبدیل ہوجائے۔‘

بادشاہ کو فوراً ہی اپنی غلطی کا احساس ہوگیا لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ میداس نے جیسے ہی اپنی بیٹی کو گلے لگایا وہ سونے کی ایک مورتی میں بدل گئی۔

اس کہانی میں ایک مقصد چھپا ہے: کسی بھی خواہش کا اظہار کرنے سے قبل سوچ لیجیے کہ کہیں یہ خواہش آپ کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی نہ بن جائے۔

اس کہانی میں کتنی سچائی ہے اس کا ذکر بعد میں کریں گے۔ پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ بادشاہ میداس کون تھا اور اس کی سلطنت کہاں واقع تھی۔

فریجیا، بادشاہ میداس کی سلطنت

ترکی جانے والے سیاح ہمیشہ ہی اس ملک میں موجود تاریخی مقامات کے حسن میں جکڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان ہی مقامات میں ایک قدیم شہر گوردیون بھی ہے جسے یونیسکو نے حال ہی میں آثارِ قدیمہ کا درجہ دیا ہے۔

گوردیون تقریباً ساڑھے چار ہزار سال پُرانا شہر ہے اور یہ فریجیا سلطنت کا دارالحکومت تھا۔ یہ شہر موجودہ ترکی کے دارالحکومت انقرہ سے تقریباً 90 کلومیٹر دور واقع ہے اور اسے اب دیکھ کر لگتا ہے جیسے یہاں کوئی آتش فشاں پھٹ پڑا ہو، کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا کہ ایک زمانے میں یہ ایک طاقتور سلطنت کا مرکزی شہر تھا۔

یہاں پر اب بھی ایک قلعے کے نشانات موجود ہیں جو کہ 1 لاکھ 35 ہزار مربع میٹر پر محیط تھا اور اس کے ارگرد بھی ایک بڑی آبادی موجود تھی۔

اس قلعے کی دیواریں تقریباً دس میٹر لمبی تھیں اور اس بات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایک بڑی سلطنت کا دارالحکومت واقع تھا۔

یونیورسٹی آف پینسلوینیا کے شعبہ آثارِ قدیمہ سے منسلک پروفیسر برائن روز کہتے ہیں کہ ’بہت سے لوگوں نے شاید فریجیوں کا نام بھی نہ سنا ہو لیکن یہ نویں سے ساتویں صدی قبل مسیح تک ایشیا کے بڑے حصے (موجودہ ترکی) میں ایک طاقتور قوم تھی۔‘

برائن روز نے سنہ 2007 میں گوردیون میں آثارِ قدیمہ کی کھدائی میں بھی حصہ لیا تھا۔

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’گوردیون مشرق اور مغرب کے تجارتی راستے کے درمیان واقع تھا، اس کے مشرق میں اشوریہ اور بابل کی سلطنتیں قائم تھیں جبکہ مغرب میں یونان اور لیڈیا واقع تھے۔‘

’فریجی اپنے محل و وقوع کا فائدہ اُٹھانے میں کامیاب رہے اور مالدار اور طاقتور بن گئے۔‘

بادشاہ میداس کون تھا اور اس سے منسوب کہانی کتنی درست ہے؟

اگر آپ نے فریجیا کا نام نہیں سُنا تو شاید آپ میداس کے نام سے واقف ہوں۔ ماہرِ آثارِ قدیمہ کا کہنا ہے کہ وہاں بادشاہ میداس کی حکومت تھی، جس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ جس چیز کو ہاتھ لگائے وہ سونے میں تبدیل ہوجاتی تھی۔

اس کہانی کے حوالے سے کیلیفورنیا یونیورسٹی کی پروفیسر لِن رولر کہتی ہیں کہ ’یہ کہانی حقیقتاً سچ نہیں۔‘

سنہ 1979 میں گوردیون پر تحقیق شروع کرنے والی پروفیسر لِن رولر کہتی ہیں کہ ’لیکن ایسی بہت سی کہانیاں اکثر تاریخ کا حصہ بن جاتی ہیں، انھیں بار بار دُہرایا جاتا ہے اور صدیوں بعد ان کی حقیقت تبدیل ہو جاتی ہے۔‘

لیکن میداس تھا کون اور اس سے منسوب سونے والی کہاںی آئی کہاں سے؟ اس بات کو معلوم کرنے کے لیے سب سے پہلے ماہرین آثارِ قدیمہ کو یہ بتانا ہوگا کہ بادشاہ میداس واقعی کوئی شخص بھی تھا یا صرف کسی کہانی کا ایک کردار۔

اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لیے انھیں قدیم خط و کتابت کو غور سے پڑھنا ہوگا۔

پروفیسر لِن رولر کہتی ہیں کہ ’فریجیا کے میداس نامی بادشاہ کا ذکر ہمیں بہت سے قدیم ذرائع سے ملتا ہے، جس میں اشوریہ بادشاہ سرگون دوئم کی ڈائری بھی شامل ہے۔‘

’اشوریہ سلطنت میداس کو ایک طاقتور بادشاہ تصور کرتی تھی اور ایک مخالف بھی جو کہ آٹھوِیں صدی قبل مسیح میں اپنی سلطنت کی زمینی حدود بڑھانا چاہتا تھا۔‘

میداس کی موجودگی کے نشانات ہمیں گوردیون سے دو گھنٹے دور کی مسافت پر بھی ملتے ہیں جہاں ’یزیلیکیا‘ نامی مقام موجود ہے، جسے حرفِ عام میں ’میداس شہر‘ کہا جاتا ہے۔

یہ انتہائی خوبصورت مقام ہمیشہ ہی سیاحوں کی توجہ کا مرکز رہتا ہے اور ایک پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے۔ یہاں قدیم غار اور مقبرے موجود ہیں اور 3 ہزار سال پُرانی سیڑھیاں بھی جو آپ کو ہاتھ سے بنی ایک سُرنگ میں لے جاتی ہیں۔

اسی جگہ پر موجود یادگاروں میں ایک مندر نما مقام بھی واقع ہے جہاں قدیم فریجی زبان میں درج ہے: ’اطس اپنا سب کچھ میداس کے نام کرتا ہے جو کہ فوج کا سپہ سالار اور حاکم ہے۔‘

اس سے یہ بات پتا چلتی ہے کہ میداس ایک حقیقی بادشاہ تھا اور اس علاقے میں موجود ایک بااثر شخصیت نے یہ مندر اسی بادشاہ کے لیے بنوایا تھا۔

پروفیسر برائن روز اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ’میداس ایک طاقتور بادشاہ تھا اور قوی امکان یہ ہے کہ اسے کہیں گوردیون میں ہی دفن کیا گیا ہوگا۔ اس کے مقبرے کا مل جانا ہمارے لیے ایک اہم دریافت ہوگی اور اس کی تلاش کے لیے سب سے موزوں جگہ یہاں موجود ٹیلے ہیں۔‘

گوردیون میں تقریباً 125 سے زائد ٹیلے موجود ہیں جنہیں دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انھیں اہم شخصیات کی مقبروں کی حفاظت کے لیے بنایا گیا تھا۔

یہاں ایک 53 میٹر لمبا ٹیلا بھی موجود ہے جو کہ زرد گھاس سے گِھرا ہوا ہے اور اس ٹیلے کو بنانے کے لیے تقریباً 1 ہزار لوگوں نے دو برس تک کام کیا ہوگا۔

پروفیسر برائن روز کے مطابق ’کچھ ماہرینِ آثار قدیمہ نے اسے میداس ٹیلے کا نام دیا تھا کیونکہ انھوں نے سوچا کہ باشادہ میداس کو یہیں دفن کیا گیا ہوگا، لیکن انھیں اس بات پر پورا یقین نہیں تھا۔‘

’اس مقام کی کھدائی کے دوران انھیں انتہائی احتیاط سے کام لینا پڑا تھا کیونکہ کسی بھی غلطی کی صورت میں یہ پورا ٹیلا ان کے سروں پر بھی گِر سکتا تھا۔‘

سنہ 1957 میں ترکی کے کان کنوں اور ماہرین نے اس ٹیلے کے اندر داخل ہونے کے لیے ایک سُرنگ بنائی اور انھیں تقریباً 3 ہزار سال پُرانی ایک تدفین گاہ کا سراغ ملا۔

آج سیاح اسی سُرنگ کا استعمال کرتے ہوئے تدفین گاہ دیکھنے جاتے ہیں۔ لکڑی کی مدد سے بنایا گیا یہ مقام دنیا کی وہ واحد جگہ ہے جو کہ آج بھی موجود ہے۔

اس مقبرے میں دفن شخص کی عمر شاید 60 کے پیٹے میں ہوگی اور اس کی قبر کے اردگر کانسی کے برتن، لکڑی کا فرنیچر اور کپڑوں کے ٹکڑے موجود ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید یہاں کوئی بادشاہ دفن ہے۔ لیکن کیا وہ بادشاہ میداس تھا؟

پروفیسر برائن روز کے مطابق تحقیق کے دوران ماہرین آثار قدیمہ کو معلوم ہوا کہ اس تدفین گاہ کی تیاری میں جو لکڑی استعمال ہوئی ہے وہ 740 قبلِ مسیح کی ہے جب کہ اشوریہ ذرائع کے مطابق بادشادہ میداس 709 قبلِ مسیح میں بھی زندہ تھا۔

’یہ مقبرہ میداس کا نہیں ہوسکتا۔‘

پروفیسر برائن روز کہتے ہیں کہ ’مقبرے میں دفن شخص شاید اس ہی برس مرا تھا جس برس میداس بادشاہ بنا تھا، ہمیں اب یقین ہے کہ یہاں دفن شخص ضرور گوردیاس ہے، میداس کا باپ۔‘

یہاں اس مقبرے میں رسی کی ایک گانٹھ بھی بنائی گئی تھی اور کہانیوں میں لکھا ہے کہ جو شخص بھی اس گانٹھ کو کھول پائے گا وہ پورے براعظم ایشیا پر حکومت کرے گا۔

بہت سے لوگوں نے اس گانٹھ کو کھولنے کی کوشش کی لیکن ان سب کو ہی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔

پروفیسر برائن روز کہتے ہیں کہ ’قدیم یونانی تاریخ دان بتاتے ہیں کہ 333 قبلِ مسیح میں سکندر اعظم سلطنتِ فارس کے خلاف جنگ سے قبل یہاں آئے تھے اور انھوں نے بھی اس گانٹھ کو کھولنے کی کوشش کی تھی اور اپنی تلوار سے اسے کاٹ دیا تھا۔‘

’تو ہمارا خیال ہے کہ یہاں ضرور کوئی رسی کی گانٹھ موجو رہی ہوگی۔ بعد میں سکندرِ اعظم نے ایشیا کے ایک بڑے حصے پر حکومت کی، یعنی وہ پیش گوئی پوری ہوئی۔‘

چیزوں کو سونے میں تبدیل کرنے والی کہانی کہاں سے آئی؟

ان تمام باتوں میں میداس اور ان کی چیزوں کو سونے میں بدل دینے والی صلاحیت پیچھے ہی رہ گئی۔ یہ کہانی آئی کہاں سے؟

حیران کُن طور پر ماہرینِ آثار قدیمہ کو گوردیون کی کھدائی کے دوران 40 ہزار سے زائد نوادرات ملے لیکن ان میں زیادہ سونا موجود نہیں تھا۔

ماہرینِ آثار قدیمہ کو یہاں صرف سونے کے چند سکّے ملے اور کچھ زیورات۔ اگر یہاں کوئی سونے کا شہر تھا تو اسے شاید گذری ہوئی صدیوں میں ڈاکوؤں نے لوٹ لیا ہو، یا پھر شاید یہ سونا اب بھی ان 85 ٹیلوں میں چھپا ہو جہاں اب تک کھدائی نہیں شروع کی گئی ہے۔

لیکن ماہرینِ آثار قدیمہ کے پاس اس پہیلی کو سلجھانے کے لیے ایک تھیوری اور بھی ہے۔ پروفیسر لِن رولر کہتی ہیں کہ ’میرا خیال میں یہ کہاںی ایک سبق دینے کے لیے بنائی گئی ہے۔‘

’میداس کے دورِ اقتدار میں گوردیون ایک مالدار اور طاقتور علاقہ بن گیا تھا اور یہ کہانی اُس مال کی سچائی بیان کرنے کے لیے بنائی گئی ہے۔‘

’آج بھی جب ہم کسی مالدار شخص کو دیکھتے ہیں تو اکثر کہتے ہیں کہ یہ شخص جس چیز کو ہاتھ لگا لے وہ سونا بن جاتی ہے۔ شاید بادشاہ میداس بھی ایک ایسا ہی شخص تھا۔‘

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 33062 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments