سلیم صافی،نقلی اکاؤنٹ اور بے لگام سوشل میڈیا



سوچ کا آزاد ہونا اچھی بات ہے لیکن زبان کا استعمال بھی سوچ کر کرنا چاہئے۔ ہم خوشامد میں تو شروع سے ہی مشہور ہیں۔ کیونکہ مغل دور ہوتا تھا تو بادشاہ سلامت سے انعام کے چکر میں ہم غلام ہوتے تھے۔ لیکن اب تو خوشامد کی شائد ضرورت نہیں ہے۔ سلیم صافی نے بھی خوشامد کی تسبیح پڑھتے ہوئے شاید کچھ زیادہ ہی کہ دیا تھا۔ لیکن ان کی بات کا جواب دلیل سے بھی تو دیا جا سکتا تھا۔جو حالت ان کی سوشل میڈیا پر ہو رہی ہے۔ ایسا کوئی معاشرہ نہیں کرتا اور گالی دینا بزدلوں کا آسان اور سستا ہتھیار ہے جو ہماری قوم سوشل میڈیا پر کر رہی ہے۔

تعلیم ،پانی اور صحت جیسے مسائل کو چھوڑ کر ہم ایک بندے کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ ایک پر مل جائے ہم اس کو مرغی بنا کے چھوڑتے ہیں۔ یورپ میں بھی لوگ سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں لیکن اپنے مسا ئل کے حل کے لئے یا کسی نہ کسی ایشو کو لے کر مگر پاکستان میں تو سوشل میڈیا پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ نواز کی جاگیر ہے کوئی عام بندا اپنی رائے کا اظہار نہیں کر سکتا جس پہ تنقید کرے وہ اسکا جینا حرام کر دیتے ہیں۔

کوئی فوج کو گالیاں دے رہا ہے تو کوئی صحافیوں کو تو کوئی عورتوں کو۔ عجیب و غریب قسم کے ہتھکنڈے اپنائے جاتے ہیں۔ عمران خان سے لوگوں کی توقعات ہیں لیکن بے صبری اتنی ہے کہ جیسے مجھے اپنے بچپن میں دیگ پکنے والے چاولوں کی ہوتی تھی۔

سلیم صافی نے ایک بات کی۔ اس کا دلیل کے ساتھ جواب دینا بنتا تھا۔ لیکن یہ آواز کو دبانے کی کوشش ہے۔ تعریف سن کر خوش ہونا ہے تو تنقید بھی برداشت کرنی چاہئے۔ مجھے اختلاف ہے کہ دو پارٹیاں ہاتھ دھو کر فوج اور صحافیوں کے پیچھے پڑی ہیں۔ کہتے ہیں دھاندلی ہوئی ہے، خلائی مخلوق نے کرائی ہے لیکن چوھدری نثار کو عوام نے مسترد کر دیا ہے۔ لاکھ اختلاف سہی لیکن پیپلز پارٹی میں یہ حالت اور مقابلہ بازی نہیں ہو رہی۔ کتنا کچھ لوگ زرداری صاحب کو کہتے رہے ہیں۔ لیکن اُن میں برداشت ان دونوں پارٹیوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔

کہتے ہیں ایک آدمی بہت تیار ہو کر پوشاک لگا کر سقراط کے پاس آیا تو سقراط کہنے لگا تم کچھ بولو تاکہ تمھاری قابلیت کا پتا چلے۔ ہماری قوم کا شعور یا قابلیت دیکھنی ہو تو سوشل میڈیا پر دیکھی جا سکتی ہے۔ وجاہت مسعود صاحب نے اپنے پلیٹ فارم پر سب کو بولنے کا موقع دیا ہے ورنہ میرے جیسا بندہ تو ہمت ہی نہ کرتا جو سلیم صافی کے ساتھ یہ مخصوص ٹولہ کر رہا ہے اور سب نقلی اکاؤنٹ بنائے ہوئے ہیں۔

مردوں نے خود کو عورت بنا کر اور عورت نے خود کو ڈاکٹر بنا کر لکھا ہوتا ہے۔ مردم شماری کے حساب سے اور سوشل میڈیا کو دیکھ کر ستر فیصد عورتوں کی تعداد زیادہ ملے گی سوشل میڈیا پر اور ڈاکٹرز تو اتنے کہ مریضوں سے بھی زیادہ ہیں۔

انسان کی ایک ہی تو پہچان ہوتی ہے جنس اور نام جب وہ بھی نقلی ہو تو کیا فائدہ اور گالیاں اتنی کہ بندے کا دل کرتا ہے اکاؤنٹ ہی ڈیلیٹ کر دے۔ سلیم صافی پڑھا لکھا ہے۔ ایک منصب پر بیٹھا ہے کچھ تو احساس ہوتا ہے۔ لیکن شاہد تمیز اور انسانیت ختم ہورہی ہے اور ہم آنے والی نسلوں کو کیا سکھا رہے ہیں۔ نہ ہمارے صحافی ٹھیک نہ ہماری فوج ٹھیک، جب ہم ایک دوسرے کو برداشت ہی نہیں کر سکتے تو فرشتے آکے پاکستان کو چلائیں گے۔ کیونکہ انسان تو کوئی بھی پر فیکٹ نہیں ہوتا وہ سیکھتا ہے دلیل سے یا تنقید سے جو ہمیں برداشت نہیں ہے۔

جو بھی ہو میری سپورٹ سلیم صافی کے ساتھ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).