ایدھی بس ایک ہی تھا



عبدالستار ایدھی صاحب کے صاحبزادے فیصل ایدھی وزیراعظم عمران خان کو اپنی فاونڈیشن کی طرف سے ایک کروڑ روپے کا چیک کورونا فنڈ کے لیے دینے کیا گئے۔ سوشل میڈیا پر سب ان کے پیچھے پڑگئے۔ حالانکہ فیصل بھائی تو اتنے سادہ ہیں کہ خان صاحب کے ان کو نہ پہچاننے کا بھی انھوں نے برا نہیں منایا۔ بلکہ ندیم ملک کے ساتھ ایک انٹرویو میں بہت ہی معصومیت کے ساتھ انھوں نے پورے واقعے کا احوال بھی بیان کردیا۔

اب کوئی یہ کہہ کر ان کے لتے لے رہا ہے کہ لوگوں کی طرف سے دیے گئے عطیات کا پیسہ وہ ایسے حکومت کو کیسے جا کر دے سکتے ہیں؟ اور کوئی ان کے اس عمل کو ایک ایسے حکمران وقت کی چاپلوسی قرار دے کر صلواتیں سنا رہا ہے جو ان کو پہچانتا تک نہیں ہے۔ کوئی ان کو کچھ عرصہ پہلے ان ہی کے دیے انٹرویو کا حوالہ دے رہا ہے جس میں انھوں نے اس بات کا شکوہ کیا تھا کہ ان کے والد کی وفات کے بعد ان کو عطیات کم ملنا شروع ہو گئے ہیں۔ اور اب جا کر وہ ایک کروڑ روپے حکومت کو دے کر آگئے ہیں۔ اسی طرح کچھ لوگ ان کو ان کے والد کی یاد بھی دلا رہے ہیں کہ اگر وہ ہوتے تو اس صورتحال میں بالکل ایسا نہ کرتے۔

سب سے پہلے بات تو یہ ہے کہ فیصل صاحب جو کہ دکھنے میں سادہ نظر آتے ہیں۔ اتنے سادہ ہیں نہیں۔ بھلے ہی ان کو عمران خان صاحب نے نہ پہچانا ہو۔ مگر جب وہ چیک دے رہے تھے اس وقت تو ان کے علم میں فیصل صاحب کی خدمت ضرور آگئی ہو گی۔ اس لیے یہ تو اب ہو نہیں سکتا کہ ان کو اس سے کوئی فائدہ ملنے کا امید نہ ملی ہو۔ اگر انھوں نے ایک کروڑ دیا ہے تو ہو سکتا ہے کہ کل کلاں اس کے بدلے زیادہ کروڑ کا فائدہ مل جائے۔ اس لیے فیصل صاحب کا اس طرح سے وزیراعظم سے ملنا چاپلوسی تو بالکل بھی نہیں ہے۔ بلکہ اس کو آج کے دور میں عقلمندانہ اقدام کہتے ہیں۔

اب آجاتے ہیں اس پر کہ ان کے والد عبدالستار ایدھی کیا ایسا کرتے؟ تو جناب وہ بالکل ایسا نہ کرتے۔ وہ ایسی صورتحال میں سب عطیات سے بالکل اسی طرح خود لوگوں میں راشن تقسیم کرتے اور اس حوالے سے اور عطیات عام لوگوں سے مانگتے جیسے انھوں نے 1957 میں فلو کی وبا پھیلنے پر کیا تھا۔ یہ وہی وقت تھا جب ایدھی صاحب نے اپنی فاونڈیشن کی طرف سے پہلی ایمبولینس خریدی تھی۔ جن کی تعداد اس وقت اٹھارہ سو سے زائد ہے۔ اور یہ دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس ہے۔

عبدالستار ایدھی تو وہ تھے کہ جن کا نام بیس ہزار لاوارث بچوں کی ولدیت میں لکھا ہوا ہے۔ کیا کوئی انسان اس بات کا تصور بھی کرسکتا ہے کہ اتنے لاوارث بچوں کو کسی نے کیسے ناصرف پہچان دی بلکہ ان کی کفالت بھی کی۔ جس پیار سے وہ ان بچوں کو نہلاتے، کپڑے پہناتے، کھانا کھلاتے تھے شاید ان کے حقیقی باپ بھی ایسے نہ کرسکتے تھے۔ اس پر ان کو ملاوں کے فتووں کا بھی سامنا کرنا پڑا مگر انھوں نے اس کی ذرا برابر بھی پرواہ نہ کی اور اپنا مشن جاری رکھا۔

وہ تو دنیا کے واحد امیر ترین غریب تھے۔ جن کے پاس ضرورت مند لوگوں کی مدد کے لیے تو بے تحاشا پیسہ تھا مگر خود پر لگانے کے لیے ایک روپیہ بھی نہیں تھا۔ ان کا سادہ طرزِ زندگی اس بات کا غماز ہے کہ ان کو دنیاداری سے دور دور تک بھی کوئی واسطہ نہیں تھا۔ اپنے پیاروں کی مدد کی خاطر وہ سڑک کنارے کشکول پکڑ کر ایک روپیہ بھی قبول کرلیتے تھے۔ وہ ایک ایسے فرشتہ صفت انسان تھے۔ جنھوں نے اپنی زندگی میں تو نیکیاں بانٹیں ہی مگر مرتے وقت بھی اپنی آنکھیں عطیہ کرگئے۔ اکثر ان کی خدمات کے عوض ان کے لیے نوبل امن ایوارڈ کی مانگ کی جاتی ہے بلکہ ان کو اس کے لیے نامزد بھی کیا گیا۔ ایک ایسا انسان جو کروڑوں انسانوں کے دلوں میں بستا ہو اور جس کے دنیا سے چلے جانے پر پورا ملک خود کو یتیم محسوس کرے، وہ اپنے مرتبے کے لیے بھلا کیا کسی ایوارڈ کا محتاج ہوگا؟

اس لیے جو لوگ فیصل ایدھی صاحب کے حکومت وقت کو پیسے دینے پر سیخ پا ہو رہے ہیں ان سے التماس ہے کہ وہ تحمل کا مظاہرہ کریں اور ان سے اپنے والد جیسے طرزِعمل کی توقع ہرگز نہ رکھیں کیونکہ فیصل صاحب، عبد الستار ایدھی صاحب کے بیٹے ضرور ہیں۔ اور ان کو ایدھی فاونڈیشن ورثے میں بھی ملی ہے۔ مگر وہ اپنے باپ جیسا کسی صورت بھی نہیں بن سکتے۔ کیونکہ ایدھی بس ایک ہی تھا اور تا ابد وہ ایک ہی رہے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments