شیکسپیئر، عمیرہ احمد اور کتاب کا بوجھ


ریل گاڑی جیسے ہی اسٹیشن پر آ کر رکی۔ میں فوری طور پر اپنے سامان سمیت اس پر سوار گیا اور اپنی ٹکٹ پر لکھے سیٹ نمبر کو تھوڑی سی کوشش سے تلاش کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ اپنا سامان رکھ کر اب میں سیٹ پر بیٹھ چکا تھا اور کچھ ہی دیر میں ریل گاڑی اپنی تمام تر برق رفتاری سے رواں ہوچکی تھی۔

میرے سامنے والی سیٹ پر میرا ہم عمر ایک نوجوان بیٹھا کتاب پڑھنے میں مشغول تھا۔ دائیں جانب سات افراد پر مشتمل ایک فیملی بیٹھی تھی۔ جن میں صرف بزرگوں کو چھوڑ کر سب ہی لوگ اپنے اپنے موبائل فون میں مصروف تھے۔

خیر میری توجہ اب وہاں سے ہٹ کر اس نوجوان کی جانب ہوچکی تھی جو اس دنیا سے بے فکر کتاب پڑھنے میں مصروف تھا۔ کچھ دیر تک تو میں نے صبر کیا اور پھر صبر کا باند ٹوٹ گیا۔

آپ کیا پڑھ رہے ہیں؟ میں نے نوجوان سے استفسار کیا۔ نوجوان نے ایک اچٹتی سی نظر مجھ پر ڈالی اور جواب دیا کہ ہیملیٹ پڑھ رہا ہوں۔ اس کے بعد وہ پھر سے کتاب پڑھنے میں مصروف ہو گیا تھا۔ جس سے یہی ظاہر ہوتا تھا کہ وہ بات چیت کے موڈ میں نہیں۔ ویسے، میں بھی ہار ماننے والوں میں سے نہیں تھا۔ میں کسی طرح باتوں کاسلسلہ شروع کرنا چاہتا تھا کیونکہ میرا سفر طویل تھا اور خاموشی سے سفر کرنا میری فطرت کے منافی تھا۔

کیا آپ جانتے ہیں میں بھی کتابوں کا شوقین ہوں۔ اور میں نے بھی بہت سی کتابیں پڑھ رکھی ہیں۔

اب کی بار اس نے کتاب ایک طرف رکھ دی تھی۔ میرا تیر نشانے پر لگا تھا۔ اب وہ میری جانب متوجہ ہوگیا تھا۔ اس کے چہرے پر خوشی کی چمک صاف دیکھی جا سکتی تھی۔

اچھا آپ بھی کتابوں کے شوقین ہیں۔ بہت خوب۔
آپ کے پسندیدہ رائیٹرز کون سے ہیں اور کس قسم کا ادب پڑھتے ہیں آپ؟

میں خوشی سے نہال ہوچکا تھا کیونکہ اسی بہانے اب امید تھی کہ سفر اچھا گزر جائے گا۔ لہذا میں نے بھی خوشی خوشی بتایا کہ میں مظہر کلیم ایم اے، ابن صفی، نسیم حجازی کو پڑھتا آیا ہوں لیکن آج کل عمیرہ احمد کو پڑھ رہا ہوں۔ باقی مجھے کہانیاں پڑھنا پسند ہیں اور یہ رائیٹرز کمال کا لکھتے ہیں۔ ویسے آپ جو کتاب پڑھ رہیں ہیں یہ کس نے لکھی ہے؟ میں نے سوال پلٹ دیا تھا۔

شیکسپیئر نے لکھی ہے۔ اور اب کی بار اس نے آگے کچھ نہ کہا اور دوبارہ کتاب کا مطالعہ شروع کردیا تھا۔ اور اس کے چہرے پر چھائی چمک اب غائب ہوچکی تھی۔

میں نے پھر بات کا آغاز کرنا چاہا اور اس نوجوان سے پوچھا کہ ہیلمیٹ کے بارے میں کیا خیال ہے آپ کا؟
جی کیا کہا آپ نے؟ اس نوجوان سے حیرت سے پوچھا؟

میں نے کہا کہ جو کتاب ہیلمیٹ آپ پڑھ رہے ہیں اس کی کیا کہانی ہے کیا یہ جاسوسی ہے، یا رومانوی یا پھر ایکشن والی کتاب ہے؟

اب کی بار اس نے مجھے دیکھا اور مسکرادیا تھا۔ مجھے یہ ناگوار گزرا تھا کہ کوئی مجھ پر ہنسے۔ آخر میں نے کیا غلط کہا تھا۔ تمیز کے دائرے میں ہی سوال کیا تھا۔

سامنے بیٹھے شخص نے کہا۔ دوست پہلی بات تو اس کتاب کا نام ہیملیٹ ہے ہیلمیٹ نہیں۔ اگر اس کہانی کا خلاصہ کردیا جائے تو کہانی کا مزا کرکرا ہوجائے گا مختصر اتنا بتا دیتا ہوں کہ یہ انتقام پر مبنی ڈرامہ ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ اس میں سب کچھ ہے۔ اس میں ڈرامہ بھی ہے، ایکشن بھی ہے، درباری سیاست بھی ہے، سنسنی بھی ہے، تجسس بھی ہے اور ہاں تھوڑا بہت رومان بھی ہے۔ اور سب سے بڑھ کر اس میں ٹریجڈی بھی ہے۔ شیکسیپیئر، اس ڈرامے کا خالق، اپنی ذات میں خود ایک پہیلی ہے اور یہ ڈرامہ یورپ میں بہت زیادہ مقبول ہے۔ اور آج بھی کئی ملکوں کی درس گاہوں میں یہ نصاب کا حصہ ہے۔

وہ بولنے پر آیا تو بولتا ہی چلا گیا۔ جس سے یہی ظاہر ہوا کہ یہ کتاب اور اس کا خالق اس کے پسندیدہ ہیں۔

”معذرت خواہ ہوں“ اس نوجوان نے کہا۔ مجھے اس طرح آپ پر ہنسنا نہیں چاہیے تھا۔ میرا نام اشتیاق احمد ہے اور میں ایم اے کا طالبعلم ہوں۔ آپ کا نام کیا ہے اور آپ کیا کرتے ہیں؟

نوجوان کی معذرت سے میں کافی حد تک نارمل ہوچکا تھا۔ میرا نام شہزاد ہے اور میری گارمنٹس کی دکان ہے۔ میں نے فخریہ اپنا تعارف کرایا تھا۔

ٹھیک۔ چلیں اب آپ بتائیں کہ عمیرہ احمد کے ناولوں سے کیا سیکھا آپ نے۔ اشتیاق احمد نے کہا۔

مجھے اس سوال کی ہرگز امید نہ تھی کیونکہ میں نے تو بس اچھی دھاک بٹھانے کے لیے ان سب کا نام لے دیا تھا کیونکہ میرا دوست اکثر ان کی تعریفیں کرتا تھا۔ پر میں تو کچھ نہ جانتا تھا تو سوچا کہ بہتر ہے سچ بول دیا جائے۔

بات دراصل ایسی ہے کہ میں نے ابھی تک اس کا کوئی ناول نہیں پڑھا۔ وہ تو بس آپ سے گپ شپ کرنے کے لیے میں نے ان کا نام لے دیا تھا۔ اور سچ کہوں تو اب کتابیں پڑھنے کا وقت ہی نہیں ملتا کیونکہ معاشی مسائل میں بری طرح جکڑ چکا ہوں تو ایسے میں بھلا کتاب کی عیاشی کس طرح ممکن ہے۔ میں معذرت چاہتا ہوں کہ میں نے آپ سے غلط بیانی کی۔ مقصد اچھا وقت گزارنا تھا کیونکہ یہاں سب اپنے اپنے کام میں مصروف تھے اور مجھ سے اس طرح سفر نہیں ہوتا تو لہذا آپ کی توجہ حاصل کرنے کے لیے کچھ مشہور مصنفین کے نام لے دیے تھے۔

دوست کوئی بات نہیں۔ خوشی اس بات کی ہے کہ آپ میں سچ بولنے کی ہمت ہے۔ اور تھوڑا سا افسوس ہے اور رہی بات کتاب کی تو آپ کو کوئی نہ کوئی کتاب ضرور پڑھنی چاہیے۔ بے شک فکشن سے آغاز کرو یا کاروبار سے متعلق کتابیں پڑھو۔ ایسی بہت سی کاروباری کتابیں مارکیٹ میں دستیاب ہیں جو آپ کے کاروبار کو بلندی پر پہنچا دیں گی۔

آپ کی بات درست ہے پر آج کل کے حالات میں کتب بینی ممکن نہیں ہے۔ ایک شخص جس کے کندھوں پر گھر کی ذمہ داری ہو اور ذریعہ معاش کی گارنٹی نہ ہوتو بھلا کوئی کتاب کیسے پڑھ سکتا ہے۔ اور ویسے بھی آج کل کتابوں کے پڑھنے والے انگلیوں پر گنے جاتے ہیں۔ اور ٹیکنالوجی کے دور میں کتب بینی عجیب شے لگتی ہے۔ میں نے اپنی بات میں وزن پیدا کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کا سہارا لیا تھا اور خود کو باشعور ثابت کرنے کے لیے فلسفیانہ جواب دیا تھا۔

یہ درست ہے کہ معاشی تنگدستی کے باعث کتب خانے کم ہوتے جارہے ہیں کیونکہ انھیں پڑھنے والے دستیاب نہیں پر ایسا کہنا بھی تو جائز نہیں کہ اب کتب بینی عجیب شے لگتی ہے۔ کتاب کے مطالعے سے وسعت نظری پیدا ہوتی ہے۔ ملک، قوم اور سماج کو جاننے میں مدد ملتی ہے۔ تاریخ سے واقفیت ملتی ہے۔ بطور شہری ملک سے متعلق اپنے حقوق و فرائض جاننے میں مدد ملتی ہے۔ معاشرے میں میانہ روی، بھائی چارہ اور صلح رحمی جیسے جذبات اجاگر ہوتے ہیں۔ اور ایک کتاب کے ذریعے ایک مصنف کی زندگی کے تجربات کا نچوڑ حاصل ہوتا ہے۔

پر افسوس ہماری آج کی یوتھ اسے خود پر بوجھ تصور کرتی ہے۔ کیونکہ نئی نسل اب اپنا سارا وقت گیمز کھیلنے اور انٹرنیٹ براٶزنگ میں گزار دیتی ہے۔ ٹیکنالوجی کی غلام بن کر رہ گئی ہے جس کی وجہ سے ان میں سوچنے کی صلاحیت کم ہوتی جارہی ہے۔ تو بتاٶ ایسی ٹیکنالوجی کا فائدہ ہے یا نقصان۔

میں خاموش رہا کوئی دلیل نہ تھی۔ پھر کچھ توقف کے بعد کہا کہ بھائی ٹیکنالوجی کے ذریعے بہت سے مفید کام بھی تو ہو رہے ہیں۔ اب کسی بھی ملک کی معلومات چند سیکنڈز میں مل جاتی ہیں۔ دنیا میں کیا کچھ ہو رہا ہے سب معلوم ہوجاتا ہے اب کوئی ملک جھوٹ نہیں بول سکتا اور ”سب اچھا ہے“ کا بیان پکڑا جاتا ہے لوگ اب کھل کر اپنی بات دوسروں تک پہنچا دیتے ہیں۔ میں نے بھی مدلل جواب دیا تھا۔ اور خود کو دل ہی دل میں شاباشی دی تھی۔

دیکھو شہزاد میں ٹیکنالوجی کے خلاف نہیں۔ پر اس کے غلط استعمال کی بات کر رہا ہوں۔ ہر چیز کی زیادتی نقصان کا سبب بنتی ہے۔ اور میں اسی نقصان کی بات کر رہا ہوں جس کے سبب اب کتاب بوجھ لگنے لگی ہے۔

وجہ جاننا چاہو گے اب کتب بینی بوجھ کیوں لگنے لگی ہے۔ کیونکہ اب ہماری ترجیحات بدل گئی ہیں ہمارے رجحانات بدل گئے ہیں۔ ہم نے اپنے بزرگوں کو وقت دینا چھوڑ دیا ہے ان کی باتیں سننا چھوڑ دی ہیں، بطور طالب علم نصابی کتب سے ہٹ کر کوئی دوسری کتاب پڑھنا خود پر حرام کر لیا ہے۔ پہلے لوگ پڑھتے تھے علم حاصل کرنے کے لیے اور اب نوجوان نسل پڑھتی ہے ڈگری کے لیے تاکہ اچھی نوکوی مل سکے۔ تو لہذا اب ڈگری تو مل جاتی ہے پر علم نہیں ملتا۔ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ

”اگر کسی قوم کو برباد کرنا چاہتے ہو تو اس سے کتاب نہ چھینو بلکہ کتاب سے بد ظن کردو وہ قوم اپنے آپ ہی تباہ ہو جائے گی“

تو اب خود سوچو کہ ملک دشمن اس میں کتنا کامیاب ہوئے ہیں۔ اور ملک کی نوجوان نسل کس طرح غیر محسوس طور پر خود کو برباد کر رہی ہے۔ اور کتاب کا پڑھنا بوجھ سمجھنے لگی ہے۔ افسوس کے انھیں راہ دکھانے والے اور ان میں سوال کا بیج بونے والے اب خود ایک سوالیہ نشان بن کر رہ گئے ہیں۔

اسی کے ساتھ ہی ٹرین سیٹی بجاتے ہوئے اسٹیشن پر رکی اور وہ شخص بنا کچھ مزید کہے اپنا بیگ اٹھا کر ریل گاڑی سے اتر کر لوگوں کی بھیڑ میں گم ہوگیا اور مجھے سوچ کے بھنور میں ڈوبتا چھوڑ کر چلا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments