اسرائیل کی ”ضاہیہ ڈاکٹرائن“ کیا ہے؟


دنیا کے ہر باضمیر شخص کے لیے اسرائیل ظلم، استحصال، جھوٹ اور مکر کی علامت ہے۔ صہیونی ریاست انھی بنیادوں پر قائم ہوئی اور انھی ستونوں پر کھڑی ہے۔ اسرائیل کی افواج جب بھی مظلوم اور نہتے فلسطینیوں پر دھاوا بولتی ہیں اسرائیل اور اس کے سرپرست و دوست ہم آواز ہو کر ان ظالمانہ کارروائیوں کو ردعمل اور ”سیلف ڈیفینس“ قرار دینے لگتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ فلسطینی ریاست تسلیم کرنا تو دور کی بات اسرائیل فلسطینیوں کا وجود تسلیم کرنے کے لیے بھی تیار نہیں اور وہ اپنے ”عظیم تر اسرائیل“ کے شیطانی منصوبے پر عمل کرتے ہوئے بہانے بہانے سے فلسطینیوں پر قیامت ڈھا کر انھیں ہجرت پر مجبور کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ یہ سب پوری منصوبہ بندی سے کیا جا رہا ہے۔

اس وقت اسرائیل غزہ کی پٹی ہی پر بم نہیں برسا رہا، اسرائیلی حدود میں رہنے والے فلسطینی بھی یہودی انتہاپسندوں کے حملوں کے شکار ہیں۔ یہ غزہ میں بسنے والے معصوم فلسطینی شہریوں پر اسرائیل کا چوتھا بڑا فوجی حملہ ہے۔ امریکا اور صیہونیت کے ہمنواؤں اور مغربی میڈیا کے لیے اسرائیل کا اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ اس کے حملوں کی ذمے دار حماس ہے، جس کے بعد نہ انھیں معصوم بچوں کی ننھی ننھی لاشیں نظر آ رہی ہیں نہ ریت کے گھروندوں کی طرح ٹوٹ کر بکھرتے گھر نظر آرہے ہیں۔

اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ اس کا ہدف صرف ”دہشت گردوں کی تنصیبات“ ہوتی ہیں، ان کے علاوہ ہونے والا نقصان غیرارادی طور پر ہوتا ہے۔ جسے اسرائیلی ”کولیٹرل ڈیمیج“ (collateral damage) قرار دیتے ہیں وہ کسی فلسطینی کے شیرخوار بچے، کسی کی ماں، کسی کا شوہر، کسی کے پیارے ہوتے ہیں، صہیونیوں کا اصل ہدف بھی یہی ہوتے ہیں۔ اسرائیل دعوے دار ہے کہ فلسطینیوں سے جنگ کا آغاز وہ نہیں کرتا، جو ایک سفید جھوٹ ہے۔ بڑی مکاری سے اور منصوبہ بندی کے ساتھ کوئی ایسی کارروائی کرتا ہے جس سے فلسطینیوں میں اشتعال پھیلے، ماضی کی جنگوں میں ہم یہ سب دیکھتے رہے ہیں، کبھی کسی فلسطینی راہ نما کو شہید کر کے، بم باری کر کے، پابندیاں لگا کر، فلسطینیوں کو ان کی اراضی سے بے دخل کر کے، ان کی زمینوں پر قبضہ کر کے، غیرقانونی بستیاں بسا کر اور مسلمانوں کے مقدس مقامات پر حملے کر کے اسرائیل فلسطینی حریت پسندوں کو مشتعل اور ردعمل پر مجبور کر دیتا ہے، پھر اپنے دفاع کے نام پر فلسطینی آبادیوں پر بم برسائے جاتے ہیں۔

جو کچھ اسرائیل کر رہا ہے وہ نیا نہیں۔ وہ شروع دن سے یہی کچھ کر رہا ہے۔ جب اس ناجائز ریاست کو وجود میں لایا گیا اس وقت بھی فلسطینیوں پر ظلم ڈھا کر انھیں ان کے وطن سے نکالا گیا تھا۔ صہیونی یہ جھوٹ بولتے رہے کہ فلسطینیوں نے رضاکارانہ طور پر اپنے قصبوں اور دیہات سے ترک وطن کیا، لیکن آج خود اسرائیل کے نئے مؤرخین اعتراف کر رہے ہیں کہ اسرائیل نے ایک سوچے سمجھے اور مہارت سے بنائے گئے منصوبے کے ذریعے فلسطینی سرزمین پر نسلی صفائی کا عمل انجام دیا تھا، جس کا مقصد فلسطینیوں کو جلاوطن کر کے ان کے متروکہ علاقوں میں روس، مشرقی یورپ اور جرمنی سمیت دنیا بھر سے یہودیوں کو لاکر بسانا تھا۔ اپنے مقصد کی تکمیل کے لیے صہیونی دہشت گردوں نے فلسطینیوں پر حملے کیے اور ایک بہت بڑی تعداد کو خوف زدہ کر کے ہجرت پر مجبور کر دیا، جب کہ اسرائیلی فوج نے فلسطینیوں کے سیکڑوں گاؤں اور قصبے تباہ کر دیے۔

یہ وہ دور تھا جب اسرائیلی قیادت منافقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے خود ہی مارتی اور خود ہی روتی تھی۔ لیکن اب صہیونی ریاست کے قائدین منافقت کا مظاہرہ بھی نہیں کرتے، مارتے ہیں اور لاشوں پر قہقہے لگاتے ہیں۔ صاف لگتا ہے کہ انھیں یقین ہے کہ امریکا اور مغربی ممالک کے ”انسانی حقوق کے علمبردار“ حکمراں انھیں روکیں گے نہ ٹوکیں گے، انھیں مسلم ممالک پر بھی پورا ”اعتماد“ ہے کہ اسرائیل کچھ بھی کر لے یہ ممالک مذمت کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔

اسرائیل کی جن وحشیانہ کارروائیوں کو محض انتقام، ردعمل اور دفاع کا حق باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے، وہ دراصل اسرائیلیوں کی طے شدہ عسکری پالیسی ہے۔ اس پالیسی کے تحت فی الحال غزہ کی پٹی کا ہر باسی ہدف ہے، اور غزہ سے فلسطینیوں کی ”صفائی“ کر لینے کے بعد مغربی کنارے اور اسرائیل میں بسنے والے فلسطینیوں پر یہی حکمت عملی آزمائی جائے گی۔ جب اسرائیلی فوج کے ترجمان Jonathan Conricus سے پوچھا گیا کہ کیا غزہ پر حملوں میں شدت آئے گی؟ تو اس کا جواب تھا، ”مجھے نہیں لگتا کہ ہمارے رہنما جنگ بندی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔“

اسرائیلی اپنی حکمت عملی کے تحت فلسطینیوں کی مزاحمت کو کچل دینا اور ان کے حملوں کو یکسر غیر موثر کر دینا چاہتا ہے۔ یہ حکمت عملی ”ضاہیہ ڈاکٹرائن“ (Dahiya Doctrine) کے نام سے جانی جاتی ہے۔ یہ عسکری حکمت عملی یا ڈاکٹرائن 2006 میں اسرائیلی فوج اور حزب اللہ کے درمیان ہونے والی جنگ کے دوران اسرائیل کے ہاتھوں مکمل طور پر تباہ ہو جانے والے بیروت کے نواحی علاقے ”الضاہیہ“ سے موسوم ہے۔ اس علاقے میں حزب اللہ کا صدر دفتر قائم تھا، جسے اسرائیلی حملے سے شدید نقصان پہنچا تھا۔ اس نام سے ہی اسرائیلی مقاصد کا بہ خوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ اس حکمت عملی کا خالق اسرائیلی ادارہ ”انسٹیٹیوٹ آف نیشنل سیکیورٹی اسٹڈیز“ (INSS) ، جس نے اسے مقالے کی صورت میں ”Disproportionate Force: Israel ’s Concept of Response in Light of the Second Lebanon War۔“ کے عنوان سے شایع کیا تھا۔ یہ ڈاکٹرائن کہتی ہے کہ حماس کے ساتھ تصادم میں اسرائیلی فوج کو طاقت کا استعمال اس طرح کرنا چاہیے جو دشمن کے اقدامات اور خطرے کے تناسب سے ہو۔ اس حکمت عملی کے تحت دشمن کے علاقے کا شہری انفرا اسٹرکچر مکمل طور پر تباہ کردینے کی روش اختیار کی جاتی ہے۔ غزہ پر اسرائیل کا تاحال جاری حملہ پچھلے حملوں کی طرح اس ڈاکٹرائن کے عین مطابق کی جانے والی کارروائی ہے۔

اسرائیل طیارے غزہ میں کتنی ہی عمارات تباہ کرچکے ہیں، جن میں ایک میڈیا بلڈنگ بھی شامل ہے۔ یہ سطور لکھے جانے تک اسرائیلی حملے میں دو سو سے زائد فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، جن میں پچاس سے زیادہ بچے بھی شامل ہیں۔ یہ سب فلسطینیوں کو خوف زدہ کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے تاکہ وہ صہیونی ریاست کے خلاف کھڑے ہونے کی جسارت نہ کرسکیں۔ ایک سینئر اسرائیلی جرنیل Gadi Eisenkot نے 2008 میں اسرائیلی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ الضاہیہ ڈاکٹرائن کوئی تجویز نہیں بلکہ یہ ایک منصوبہ ہے جس کی منظوری دی جا چکی ہے۔ اس سے قبل 2006 میں اسرائیلی فوج کے سربراہ جنرل Dan Halutz نے کہا تھا کہ اسرائیلی فوج لبنان میں سویلین انفرا اسٹرکچر کو نشانہ بنائے گی، جس کا مقصد لبنان کو بیس سال پیچھے دھکیل دینا ہوگا۔ اسرائیل نے 2008۔ 2009 کے دوران غزہ پر حملوں میں بھی اسی حکمت عملی کو اپنایا اور تباہی پھیلاتے ہوئے 14 سو فلسطینیوں کو زندگی سے محروم کر دیا تھا۔

اس طرح اسرائیل باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت غزہ کے رہنے والوں کو خوف میں مبتلا کرنا اور انھیں زندگی کی ہر بنیادی سہولت سے محروم کر دینا چاہتا ہے، تاکہ غزہ رہنے کے قابل علاقہ نہ رہے اور فلسطینی اسرائیل کی دہشت کے باعث اور ضروریات زندگی سے محرومی کے باعث ہجرت پر مجبور ہوجائیں۔ بہادر فلسطینی ہر قسم کی بیرونی امداد کے بغیر کس طرح اور کب تک اسرائیل کی اس حکمت عملی کا مقابلہ کر پائیں گے؟ یہ مسلم دنیا کے لیے ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب ہم سب جانتے ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments