شاہ رخ خان کی، سلمان کی ایسی تیسی


شہنشاہ پاکستان، عالی جاہ اور ظل سبحانی عمران خان کے دور میں ہم کرپشن میں ترقی کرتے ہوئے 180 ممالک کی فہرست میں 140 نمبر پر آ گئے ہیں۔ جن کو چور کہا گیا، ان چوروں کی حکومت میں ہمارا نمبر 117 تھا لیکن دل چھوٹا نہ کریں اور ڈاکٹر نشتر امروہی کا یہ شعر یاد کیجیے۔ کہتے ہیں

گامزن ہم ہیں کرپشن میں ترقی کی طرف
چین کی روس کی جاپان کی ایسی تیسی

جب اپنے خادم دوستوں، چندہ دینے والے دوستوں اور پارٹی فنڈ میں کروڑوں روپے دینے والوں کو وزیر اور مشیر بنایا جائے گا تو پھر حیرت کس بات کی؟ دبئی اور لندن کی عدالتوں سے سزا پانے والے اور جیل کاٹنے والے جرائم پیشہ افراد ہمارے وزیراعظم کے قریبی دوست ہیں تو پھر 140 نمبر پر حیرت کیوں؟

آپ کسی دفتر چلے جائیں، رشوت کے بغیر آپ کا کام پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا۔ رشوت کا ریٹ اس دور حکومت میں آسمان سے باتیں کر رہا ہے۔ پاکستان کے بارے مشہور محاورہ ہے کہ سرکاری ملازم کام نہ کرنے کی تنخواہ اور کام کرنے کی رشوت لیتا ہے۔ لیجیے پھر ڈاکٹر نشتر امروہی یاد آ گئے۔

کوئی بھی کام ہو رشوت کے بنا ناممکن
آپ کی جان کی پہچان کی ایسی تیسی

عالی جاہ نے معیشت کا حال کچھ یوں کر دیا ہے کہ گندم، دال، چاول اور دیگر غذائی اجزاء جو ہم دوسرے ممالک کو بھیجتے تھے، اب ان سے خرید رہے ہیں اور وہ بھی ڈالروں میں۔ ہر مہینے کسی نہ کسی ملک سے قرضہ لیا جاتا ہے یا سکوک بانڈ جاری کیے جاتے ہیں تاکہ خرچہ چلا سکیں۔ اس حکومت کی معیشت کا حال بھی اس مہمان کی طرح ہے جس کا ذکر پھر شاعر نے کچھ یوں کیا ہے کہ

گڑ بڑا دے جو مہینے کا بجٹ دو دن میں
ایسے آ جائے تو مہمان کی ایسی تیسی

یہ حکومت ایک ایسا ہی مہمان ثابت ہوئی جس نے تین چار سال میں 90 ارب ڈالر کا قرضہ 140 بلین ڈالر میں تبدیل کر دیا ہے اور ستم یہ کہ کوئی ترقیاتی منصوبے بھی نہیں لگائے گئے۔ صرف تقریر کرنے کے اتنے پیسے؟

ہمارے سیاستدانوں، فوجی حکمرانوں، عدلیہ اور دیگر سول اداروں کا المیہ یہ ہے کہ سب کو اپنی طاقت کرسی، پیسہ اور عہدوں سے پیار ہے۔ بڑے طاقتور لوگ بھول جاتے ہیں کہ انہیں مرنا بھی ہے۔ نور مقدم کیس جو کہ اوپن اینڈ شٹ کیس تھا، ابھی پتا چلا ہے کہ ملزم کے فنگر پرنٹس جائے وقوعہ پر موجود نہیں ہیں۔ ایک لڑکی نے مایوسی کے عالم میں نور مقدم کیس پر ٹویٹ کیا ہے کہ جج کے بینک اکاؤنٹ پر دیکھ لیں شاید ملزم کے فنگر پرنٹس مل جائیں۔ شاہ رخ جتوئی سات ماہ سے جیل سے باہر رہ رہا تھا۔ کس نے اجازت دی؟ اس پر وزیر اعلی سندھ کا کہنا کہ کون سی قیامت آ گئی کیا کوئی مر گیا؟ جی ہاں، جمہوریت مر گئی اور انصاف قضا ہو گیا۔

ویسے ان سیاستدانوں سے زیادہ اچھی اداکاری کوئی نہیں کر سکتا۔ غریبوں اور مسکینوں کے ساتھ فوٹو سیشن کروانا ہو یا پھر عوام کے سامنے جھوٹ بولنا ہو، ساری پارٹیوں نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری لی ہوئی ہے۔ موجودہ جہاں پناہ سے کچھ توقعات وابستہ کر لیں تھیں لیکن وہ سب سے بڑے اداکار نکلے۔ ظل سبحانی کا آسکر ایوارڈ تو بنتا ہے کہ کیسے کوئی شخص کتنے پر اعتماد انداز میں اپنے لوگوں کو یہ جھوٹ بتائے کہ کینیڈا کتنا غریب ملک ہے اور آپ لوگ شکر ادا کریں کہ پاکستان میں رہ رہیں ہیں۔ بھلے لوگ پاکستان میں لکڑیاں خرید کر کھانا پکا رہے ہوں۔

بس کچھ سال ٹھہر جائیں۔ پھر اگلے پچاس سالوں میں لوگ پاکستان آیا کریں گے یہ دیکھنے کے لئے کہ لوگ 100 سال پہلے کیسے رہتے تھے۔ لیکن صد افسوس اس وقت بھی اداکار اور جھوٹے سیاست دان لوگوں کو یہ بتا رہے ہوں گے کہ دیکھو سیاحت کتنی بڑھ گئی ہے۔ ڈاکٹر نشتر امروہی نے ایسے ہی حکمرانوں کے لئے کہا تھا کہ

اپنے لیڈر جو اتر آئیں اداکاری پر
شاہ رخ خان کی سلمان کی ایسی تیسی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments