پروفیسر عبد الحمید کمالی مرحوم: کچھ یادیں، کچھ باتیں


پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ میں تدریس کرتے ہوئے پانچ چھ برس گزر چکے تھے۔ ایک روز اپنی عادت کے مطابق شعبہ کی لائبریری میں کتابیں الٹ پلٹ کر دیکھ رہا تھا کہ مجلہ اقبال ریویو کا ایک شمارہ سامنے آ گیا۔ اس میں ایک مضمون کا عنوان مجھے کچھ عجیب سا لگا: ’مقولۂ صفات اور حقیقت اسماء‘ ۔ مصنف عبد الحمید کمالی تھے۔ کمالی صاحب کا نام میں اپنے سینیئرز سے سن چکا تھا مگر کوئی ذاتی تعارف نہیں تھا۔ ان کی جو شہرت سنی تھی وہ عسیر الفہم ہونے کی تھی۔

خیر رسالہ گھر لے گیا اور اس مضمون کو پڑھنا شروع کیا تو وہ مجھے بہت پسند آیا۔ اگرچہ منطق سے ناواقف ہونے کی بنا پر بعض حصوں کا مفہوم میری گرفت میں نہیں آ رہا تھا۔ مضمون کے مطالعے سے اندازہ ہوا کہ یہ سلسلہ مضامین کی کڑی ہے۔ اس کے بعد اس سلسلہ کے دو گزشتہ مضمون، ’ماہیت خود آگہی اور خودی کی تشکیل اور مرتبہ ذات حق: فلسفہ خودی اور اساسی اسلامی وجدان‘ بھی تلاش کیے۔

اسی کی دہائی میں انھی تین مضامین تک میری رسائی ہو سکی تھی۔ مجھے یہ مضامین اتنے پسند آئے کہ میں نے ان کی فوٹو کاپیاں بنوا کر اپنے بزرگ دوست شیخ صلاح الدین اور رفیق دیرینہ جاوید احمد (غامدی) صاحب کو بھی دیں۔ ان مضامین میں استعمال ہونے والی مسلم فلسفہ کی بعض اصطلاحات کا درست مفہوم سمجھنے کے لیے مجھے جاوید صاحب کی مدد لینی پڑی تھی۔ شیخ صاحب کو بھی وہ بہت پسند آئے اور انھوں نے کہا، ان صاحب کا مطالعہ اور فہم لائق ستائش ہے۔ مطالعہ کے ساتھ فلسفہ کو اردو میں لکھنے کا ڈھنگ بھی آتا ہے۔ میں خود ان دنوں اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ رہا تھا۔ اس وقت میں نے ان مضامین سے حتی المقدور استفادہ کیا تھا۔ چنانچہ اپنے مقالہ میں دو مقامات پر میں نے کمالی صاحب کا ان الفاظ میں تذکرہ کیا تھا:

”عصر حاضر میں اقبال کی تشکیل جدید الہٰیات اسلامیہ یونانیت سے رہائی پانے کی بڑی وقیع کوشش ہے۔ اقبال کے خیالات کی بنیاد پر پروفیسر عبد الحمید کمالی نے اسلامی وجودیات کے خد و خال کو بڑے کامیاب انداز میں پیش کیا ہے۔ ان کی یہ کاوش اہل علم کے سنجیدہ غور و فکر کی متقاضی ہے۔“

”میرا دل پروفیسر عبد الحمید کمالی کے لیے تشکر و امتنان کے جذبات سے لبریز ہے جن کے فاضلانہ مقالات نے وحدت وجود کا مغالطہ سمجھنے میں میری رہنمائی کی۔ پروفیسر موصوف کے یہ مقالات اسلامی وجودیات کو قرآنی بنیادوں پر استوار کرنے کی ایک بہت کامیاب کوشش سے عبارت ہیں۔“

ان دنوں میری خواہش تھی کہ کمالی صاحب کے یہ مضامین کتابی صورت میں اقبال اکیڈمی کی طرف شائع جائیں۔ میں نے استاد محترم پروفیسر مرزا محمد منور صاحب سے اور سہیل عمر صاحب سے اس پر بات کی۔ کمالی صاحب کسی زمانے میں اقبال اکیڈمی کے ڈپٹی ڈائرکٹر اور کچھ عرصہ کے لیے ڈائرکٹر کے عہدے پر بھی فائز رہے تھے۔ نوے کی دہائی میں مجھے یہ پتہ چلا کہ کمالی صاحب کی ایک انگریزی کتاب اقبال اکیڈمی نے شائع کی تھی لیکن کمالی صاحب کے اکیڈمی سے الگ ہونے کی بنا پر اس کتاب کو ڈمپ کر دیا گیا تھا۔

میں نے کافی تگ و دو سے اس کی ایک کاپی حاصل کی۔ وہ کتاب مجھے بہت پسند آئی۔ خدا کی سیاسی حاکمیت کے تصور پر اس میں بہت اعلیٰ درجے کی تنقید کی گئی تھی۔ میری استدعا پر شعبہ فلسفہ کے تمام اساتذہ نے اقبال اکیڈمی کو ایک خط لکھا کہ یہ اہم کتاب ہے اور اس کو ریلیز کیا جائے۔ خیر کچھ عرصہ بعد اکیڈمی نے اسے ریلیز کر دیا تھا۔

سن 1997 میں میرے مرحوم دوست ڈاکٹر وحید عشرت صاحب نے کمالی صاحب کے اردو مقالات کا ایک مجموعہ ”اقبال اور اساسی اسلامی وجدان“ کے عنوان سے بزم اقبال کی طرف سے شائع کر دیا ہے۔ ان کے انگریزی مقالات کے دو مجموعے بھی بزم اقبال کی طرف سے شائع ہوئے۔ ان کے مقالات کا آخری مجموعہ ”مقالات عبدالحمید کمالی“ کے عنوان سے مجلس ترقی ادب کی جانب سے ان کی وفات کے ( 2 مئی 2015) چند ماہ بعد شائع ہوا تھا۔ اس کی تدوین کمالی صاحب کے بھانجے انجنیئر مسعود اصغر نے کی ہے۔ ان کا کمالی صاحب پر ایک تعارفی مضمون بھی اس کتاب میں شامل ہے۔ پروفیسر صاحب کی سوانحی اور تصنیفی معلومات کے لیے میں اس مضمون کے مطالعہ کی سفارش کروں گا۔

پروفیسر کمالی ان معدودے چند افراد سے تھے جو فلسفے کی تینوں بڑی روایتوں، مغربی، اسلامی اور ہندی، سے بہت گہری واقفیت رکھتے تھے۔ مزید برآں ان کی ایک اضافی خوبی یہ تھی کہ وہ سماجی علوم، اقتصادیات، عمرانیات اور بشریات، کی راہ سے فلسفہ کی طرف آئے تھے۔ ان کی فلسفیانہ تحریروں میں ان علوم کے عمیق مطالعے جھلک نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے۔ فلسفہ میں وہ جدید ریاضیاتی منطق پر بھی عبور رکھتے تھے اور فریگے اور رسل کے منطقی مباحث کا الٰہیاتی اور مابعد الطبیعیاتی مسائل پر بہت عمدہ اطلاق کیا ہے۔ ہمارے ہاں علمی موضوعات پر لکھنے والوں کے متعلق میری عمومی رائے یہ ہے کہ ان میں اکثریت کی تحریریں یا تو قلت علم کا نتیجہ ہوتی ہیں یا سوئے ہضم کا۔ کمالی صاحب نے البتہ جو کچھ پڑھا تھا اس کو خوب ہضم کیا ہوا تھا۔ اس لیے ان کی تصانیف تفکر، تدبر، فہم اور بصیرت کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔

وحید عشرت صاحب کی مرتبہ کتاب پڑھنے کے بعد میرا کمالی صاحب سے ملاقات کا اشتیاق بہت بڑھ گیا تھا۔ ان سے ایک سرسری سی ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب وہ سن 1993 میں شعبہ فلسفہ پنجاب یونیورسٹی کی دعوت پر اقبال میموریل لیکچر ارشاد کرنے کے لیے لاہور تشریف لائے تھے۔ تقریباً ایک عشرے کے بعد ان سے کراچی میں ملاقات کی سبیل پیدا ہوئی جس کی روداد خاصی دلچسپ ہے۔

سن 2004 میں میرے منجھلے بیٹے عثمان علی نے فاسٹ لاہور سے کمپیوٹر سائنس میں گریجوایشن کرنے کے بعد اعلان کر دیا کہ اسے کمپیوٹر سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اس نے آئی بی اے کراچی کا ٹیسٹ دیا اور وہاں داخلہ لے لیا۔ اس وقت میں نے فیصلہ کیا کہ اسے چھوڑنے میں خود بھی کراچی جاؤں گا۔ 1973 کے بعد کراچی کو تفصیلی طور پر دیکھنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ اگست کا مہینہ تھا۔ کراچی میں شعبہ فلسفہ کے نوجوان استاد ڈاکٹر شبیر احسن میرے میزبان تھے۔

میں نے ان سے کہا کہ میں کمالی صاحب سے ملنا چاہتا ہوں لیکن وہاں کسی کو ان کا پتہ معلوم نہیں تھا۔ میرے ذہن میں پیر الہٰی بخش کالونی کا ایک پتہ تھا۔ ہم وہاں پہنچے تو اس مکان میں کوئی فیکٹری سی تھی۔ میں نے شبیر احسن سے کہا، کیا یہاں حیدرآباد کالونی ہے؟ ان کا جواب تھا، ہے۔ میں نے کہا وہاں چلتے ہیں۔ کمالی صاحب کے والد پروفیسر اللہ بخش کمالی مرحوم حیدرآباد دکن کی عثمانیہ یونیورسٹی میں ریاضی کے استاد تھے۔

کراچی میں بھی تدریسی خدمات انجام دیتے رہے تھے۔ خود عبد الحمید کمالی صاحب بھی حیدرآباد سے بی اے کرنے کے بعد کراچی تشریف لائے تھے۔ حیدرآباد کالونی پہنچ کر شبیر احسن نے ایک دکاندار سے پوچھا کہ کیا اس نام کے کوئی صاحب یہاں رہتے ہیں۔ دکاندار نے جواب دیا، جی ان کو جانتے ہیں اور ان کے والد صاحب کو بھی جانتے ہیں۔ اگلے بلاک کا ایک پتہ بتا دیا۔ جب ہم وہاں پہنچے تو کچھ فلیٹس دکھائی دیے۔ ایک صاحب گلی میں کھڑے تھے۔

ان سے کمالی صاحب کا پوچھا تو جواب دیا، وہ تو کچھ مہینے ہوئے گلشن اقبال چلے گئے ہیں، لیکن وہاں کا پتہ نہیں معلوم۔ اس کے بعد ہم گلشن اقبال کی طرف چل دیے۔ شبیر احسن نے کہا، گلشن اقبال بہت بڑی اور وسیع آبادی ہے، وہاں پتہ کے بغیر کسی کو ڈھونڈنا ممکن نہیں۔ کچھ دیر ادھر ادھر بھٹکنے کے بعد ہم نے ایک گھر کی بیل بجا دی۔ ایک صاحب باہر نکلے۔ باتوں باتوں میں انھوں نے بتایا کہ وہ خود بھی حیدر آبادی ہیں۔ اس نام کا کوئی شخص یہاں نہیں رہتا۔

اگلے روز ہم دوبارہ حیدرآباد کالونی اسی جگہ پر واپس گئے۔ فلیٹس کے ساتھ والی گلی میں کافی عمر رسیدہ ایک مرد اور ایک عورت دکھائی دیے۔ ان سے پوچھا تو انھوں نے اشارے سے بتایا کہ اس اوپر والے فلیٹ میں رہتے ہیں۔ فلیٹس کی انٹرنس پر لوہے کا جالی دار فولڈنگ دروازہ تھا جو بند تھا اور باہر کی جانب تالہ لگا ہوا تھا۔ ہم پریشانی کے عالم میں سوچ رہے تھے کہ اوپر کیسے جایا جائے۔ اتنے میں دوسری منزل پر ایک خاتون دکھائی دیں۔

میں نے ان سے پوچھا، کیا عبدالحمید کمالی صاحب یہاں رہتے ہیں؟ اس خاتون نے استفسار کیا کہ میں کون ہوں؟ میں نے اپنا تعارف کرایا کہ میں فلسفے کا استاد ہوں، لاہور سے آیا ہوں اور ان سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔ اس کے بعد ایک صاحب سیڑھیوں سے نیچے آئے، باہر ہاتھ نکال کر تالہ کھولا اور ہمارے پاس آ کر علیک سلیک کی۔ وہ کمالی صاحب کے بھائی تھے۔ اب ہمیں اندازہ ہوا کہ کمالی سے پہلے والے نام پر کوئی توجہ ہی نہیں دیتا تھا۔

انھوں نے ہمیں بتایا کہ وہ پیر الہٰی بخش کالونی میں رہتے ہیں۔ آپ لوگ خود وہاں نہیں پہنچ سکیں گے، میں آپ کے ساتھ چلتا ہوں۔ وہ گاڑی میں ہمارے ساتھ بیٹھ گئے۔ جب ہم کمالی صاحب کے گھر پہنچے تو وہ نیچے تشریف لائے اور ہمیں ساتھ لے کر اسی کالونی میں اپنے بھانجے انجنئیر مسعود اصغر کے ہاں لے گئے۔ مسعود اصغر کا گھر ایم کیو ایم کے لیڈر فاروق ستار کے گھر کے بالمقابل ہے۔ وہاں ان کے ساتھ دو ڈھائی گھنٹے کی نشست رہی۔ بعد میں شبیر احسن اور میں نے ایک دوسرے کو داد دی کہ کراچی جیسے شہر میں بغیر پتہ معلوم ہوئے کسی کو ڈھونڈنے کا ہمارا ایڈونچر کامیاب رہا ہے۔ اس کے بعد بھی میرا دو مرتبہ کراچی جانا ہوا تو ان کے ہاں حاضری دی تھی۔

پہلی ملاقات کے بعد ان کے ساتھ چند خطوط کا تبادلہ ہوا۔ میرے پاس ان کے آٹھ دس خطوط ہیں۔ ایک خط اس تحریر کے ساتھ شامل کر رہا ہوں جس میں کچھ دلچسپ معلومات ہیں۔ ”نیچر آف اسٹیٹ ان اسلام“ ہادی حسین اور کمالی صاحب کی مشترکہ تصنیف ہے جو نیشنل بک فاونڈیشن نے شائع کی تھی اور آؤٹ آف پرنٹ تھی۔ کمالی صاحب نے بڑی مشکل سے کہیں سے ایک کاپی حاصل کر کے مجھے بھیجی تھی۔

7 ستمبر 4 ء
محترم ڈاکٹر صاحب! اسلام علیکم رحمۃاللہ و برکاتہ

” نیچر آف اسٹیٹ ان اسلام“ کی کاپی مل گئی جو آپ کو ارسال کر رہا ہوں۔ نیچر کے بارے میں بات مختصراً اس طرح ہے کہ جب ہادی حسین صاحب نے مجھ سے خواہش ظاہر کی کہ اس کتاب میں ان کو شریک کیا جائے، اس کا مسودہ ان کے پاس تھا اور میں نے ان کو اس کی انگلش دیکھنے کے لیے دیا تھا، تو میں نے ان کی بات مان لی کہ وہ مختلف معاملات میں اکادیمی کے میرے محسن تھے۔ تب میں نے اس کا پہلا باب نکال لیا اور ان سے درخواست کی کہ پہلا باب پوری کتاب دیکھنے کے بعد وہ خود لکھیں۔ چنانچہ اس کا پہلا باب تمام کا تمام ان کا لکھا ہوا ہے۔ اور میں نے صرف اس کے چھپنے کے بعد کتاب میں ہی پڑھا۔

اس باب میں اور باقی کتاب میں ایک دو جگہ کچھ سنجیدہ قسم کی ناہمواری ہے۔ غالباً ہادی حسین صاحب اس کے مجموعی اپروچ (اقتراب) کو پورے طور پر مفہوم پذیر اپنے واسطہ نہ بنا سکے۔ اگر آپ کو اس کتاب میں انگریزی زبان کا حسن کہیں نظر آئے تو یوں جانیے کہ یہ ہادی حسین صاحب کی وجہ سے ہے۔

اردو اور انگریزی ادب (لٹریچر) پر ان کی نظر گہری تھی۔ چنانچہ مغربی شاعری پر اردو میں ان کی کتاب میرے خیال میں بے مثال ہے۔ انہوں نے اقبال کی پیام مشرق کا منظوم ترجمہ کیا اور بہت کچھ کیا۔ سر سید کی سوانح عمری لکھی۔ جمیل جالبی صاحب کی ایک کتاب کا انگریزی میں ترجمہ کیا اور ان کے دیگر کام ہیں جو قابل قدر ہیں۔ باری تعالیٰ ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ ہاں مجھے یاد آیا کہ فقیر وحید الدین صاحب کی ایک کتاب جو مہاراجہ رنجیت سنگھ پر تھی اور ہر پڑھے لکھے سکھ نے اس کو آنکھوں سے لگایا، وہ ہادی حسین صاحب کی تصنیف تھی۔

فقیر صاحب نے ان کو اس کے تیس ہزار روپے نذرانہ دیے تھے۔ ہادی حسین صاحب کی وفات کے بعد ان کے گھر میں، میں نے اس کا اصل مسودہ دیکھا تھا۔ جب کہ روزگار فقیر جو اقبال پر ہے وہ فقیر وحید الدین صاحب نے فیض مرحوم سے لکھوائی تھی۔ یہ بھی بہت مشہور ہوئی اور غالباً اردو میں سب سے زیادہ اشاعت پانے والی کتابوں میں سے ہے۔

آپ کے صاحب زادہ سے مل کر بہت خوشی ہوئی اور مزید خوشی اس سے ہوئی کہ یہاں آئی بی اے سے ایم بی اے کر رہے ہیں۔ مسعود اصغر میرے بھانجے ہیں جن کے مکان پر ہم لوگ بیٹھے ہوئے تھے اور جنہوں نے ہماری مہمانداری کی وہ بھی بہت متاثر ہوئے اگرچہ ملاقات کے لمحات مختصر رہے۔ مسعود اصغر انجنیئر ہیں۔

سب کو میرا سلام۔ ڈاکٹر عبد الحفیظ صاحب کیسے ہیں اور ڈاکٹر علی رضا طاہر۔ خوشی کی بات ہے کہ آپ کے یہ دونوں شاگردان رشید آپ کے ساتھ ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر نعیم احمد نے آپ کی تحریک پر جو مطبوعات ارسال کیں میں ان کا بہت ممنون ہوں۔

فقط والسلام۔ خاکسار عبد الحمید کمالی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments