ملالہ، دانشور اور چند مسکراہٹیں


دیکھئے ہم کسی کے اتالیق مقرر نہیں ہوئے۔ دیکھتے جائیں۔ مسکراتے جائیں۔ انسان بیک وقت سینکڑوں عصبیتوں میں گھرا ہوتا ہے۔ ابھی چند ہی دن پہلے کی بات ہے کہ ریاست تلنگانہ میں بی جے پی کے رکن اسمبلی ٹی راجا سنگھ نے کہا ’ انسانی جان کی قیمت گائے سے زیادہ نہیں ہے‘۔ بہت وقت نہیں گزرا کہ وینی منڈیلا نے اپنے شوہر نیلسن منڈیلا کی پچاس سالہ جدوجہد کو ایک اخباری بیان کی نذر کر دیا کہ ” نیلسن منڈیلا نے افریقہ کے کالے باشندوں کو دھوکہ دیا“۔ جیسے عقل پر کسی کا اجارہ نہیں ہے ایسے ہی عصبیت پر کسی ایک قوم کے جملہ حقوق محفوظ نہیں ہیں۔

اہل مروت اگر ملالہ کے بارے میں کوئی سازشی نظریہ گھڑتے ہیں توکوئی بات نہیں۔ ہم زندہ قوم کے زندہ سپوت ہیں۔ ہم نے باچا خان سے لے کر، شیخ مجیب، میر غوث بخش بزنجو، جی ایم سید، عبدالصمد خان اچکزئی، فیض اور جالب تک کس کی قبر کشائی نہیں کی؟ احباب اگر ملالہ کو ملنے والے امن کے نوبل انعام اور امن کے سفیر مقرر ہونے تک کو سازشی نظر سے دیکھتے ہیں تو احباب کو دیکھنے دیجیے۔ یہ اسی قوم کے سپوت تھے جس نے بے نظیر بھٹو کی نازیبا تصاویر ہیلی کاپٹروں سے گرائی تھیں۔ یہ واقعہ بھی یہاں کا ہے کہ ایک وردی پوش صدر نے اسی قوم کی بیٹیوں کے بارے میں فرمایا تھا کہ یہ خواتین بیرونی پاسپورٹ کے لئے اپنا ریپ کرواتی ہیں۔ قندیل بلوچ کے بیہمانہ قتل پر اسی قوم کے سپوتوں نے کہا تھا کہ خس کم جہاں پاک۔ اب اگر ملالہ پر کیچڑ اچھالی جا رہی ہے تو کوئی اچھپنے کی بات نہیں ہے۔ یہ اپنی اپنی عصبیتوں کے معاملات ہیں۔

یہ سوال البتہ اہل مروت سے پوچھنا چاہیے کہ ملالہ اور عافیہ کی تلنا کیوں کی جا رہی ہے؟ کیا عافیہ کے معاملے ملالہ ملوث ہے؟ کیا ملالہ اس ملک کی کوئی سیاسی یا مذہبی اسٹیک ہولڈر ہیں یا کسی ریاستی منصب پر براجمان ہیں جس سے سوال کیا جا رہا ہے کہ عافیہ کے لئے آواز کیوں نہیں اٹھاتی؟ میں حیران ہوتا ہوں کہ ہم کیسے سوچ لیتے ہیں کہ نارویجن نوبل کمیٹی پر پاکستان کی ایک بچی کو ایوارڈ دینے کے لئے کوئی کیسے اثر انداز ہو سکتا ہے؟ میں اس بات پر حیران ہوتا ہوں کہ 278 نامزدگیوں میں سے کیسے نارویجن کمیٹی نے ایک موعودہ سفارشی کو اعزاز دینے کا فیصلہ کیا؟ میں اس بات پر بھی سوچتا ہوں کہ ملالہ کے سفارشی انعام کے دعویدار کیلاش ستھیارتھی پر اعتراض کیوں نہیں اٹھاتے؟ میں سوچتا رہتا ہوں کہ وہ کونسی شخصیت یا ادارہ یا طاقت ہو گی جس نے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو اس بات پر مجبور کیا ہو گا کہ ملالہ کو امن کا پیامبر نامزد کریں۔ میں سوچتا کہ کون ہوگا کہ جس نے کینیڈا کے پارلیمان کو جوائنٹ سیشن منعقد کرنے پر دباﺅ ڈالا ہو گا اور ان کو کہا ہو گا کہ ملالہ کو نہ صرف بیٹھ کر سننا ہے بلکہ پندرہ منٹ کی تقریر میں ہاﺅس کے 338 ممبران اور سینیٹ کے 105 ممبران کو ہر پانچ منٹ بعد کھڑے ہو کر تالیاں بھی بجانی ہیں۔

ہم ایک ایسے قوم کے سپوت ہیں جہاں ایک آدمی قوم کو ٹھگتے ہوئے کہتا ہے کہ میں نے پانی سے چلنے والی گاڑی بنائی ہے تو پرائم ٹائم میں معروف چینل کا معروف ترین صحافی ایک یونیورسٹی کے فزکس کے پروفیسر کے سائنسی دلائل کو کاٹ کر کہتا کہ میں نے خود گاڑی میں سفر کیا ہے۔ آسان بھاشا میں مطلب یہ ہوا کہ سائنسدان صاحب آپ اپنا سائنس اپنے پاس ہی رکھیں گاڑی تو بنی ہے بھلے سائنس نہ مانے۔

میرے عزیز ہم وطنو! یہ اعزاز صرف اسی قوم کو ملا ہے جو لغت میں لفظ ” دانشور“ کو نہ صرف حقارت سے استعمال کرتی ہے بلکہ دانشور کی اصطلاح مزاح کے طور پر برتی جاتی ہے۔ ایسے میں آپ خون دل نہ جلایا کریں۔ بس بیٹھ کر دیکھا کریں اور مسکرایا کریں۔

ظفر اللہ خان
Latest posts by ظفر اللہ خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر اللہ خان

ظفر اللہ خان، ید بیضا کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ زیادہ تر عمرانیات اور سیاست پر خامہ فرسائی کرتے ہیں۔ خیبر پختونخواہ، فاٹا، بلوچستان اور سرحد کے اس پار لکھا نوشتہ انہیں صاف دکھتا ہے۔ دھیمے سر میں مشکل سے مشکل راگ کا الاپ ان کی خوبی ہے!

zafarullah has 186 posts and counting.See all posts by zafarullah