برطانیہ میں برقعے پر بحث


پچھلے دنوں برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ اورلندن کے سابق مئیر بورس جونسن کے بیان سے ایک نئی بحث چھِڑ گئی ہے۔ بورس جونسن نے ایک ایسا متنازعہ بیان دیا ہے جس کی وجہ سے برطانیہ کا ہر ذی شعور انسان بورس جونسن کی پر زور مذمت کر رہا ہے۔ تاہم وہیں کافی لوگ ان کی بات کی ستائش بھی کررہے ہیں۔ ان کی پارٹی کے کئی ممبروں نے بورس جونسن کو کنزرویٹو پارٹی سے برخواست کرنے کی بھی مانگ کی ہے۔ بیرونیس سیدّہ وارثی جو کہ کنزرویٹیو پارٹی کی سنئیر ممبر ہیں، انہوں نے تو کھل کر بورس جونسن کے بیان کی مذمت کی ہے اور پارٹی میں (Islamophobia) اسلاموفوبیا (اسلام مذہب کو ناپسند کرنا یا تعصب رکھنا) کے خلاف انکوائری کا بھی مطالبہ کیا ہے۔

بیرونیس وارثی نے مزید کہا کہ بورس جونسن کابیان بالکل ناقابلِ قبول ہے اور کنزرٹیو پارٹی میں ان کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ بیرونیس وارثی نے یہ بھی کہا کہ حال ہی میں بورس جونسن نے بطور وزیر خارجہ اپنا استعفیٰ دیا تھا جس کے بعد ان کی پوزیشن کافی کمزور ہوگئی ہے۔ اس لئے انہوں نے ’برقعہ ‘ سے متعلق ایسا بیان دیا ہے تاکہ کنزرویٹیو پارٹی میں ان کے ہم خیال لوگ ان کو لیڈر بننے کے لیے ان کی حمایت کریں۔

یہ سارا بوال تب شروع ہوا جب بورس جونسن نے برطانیہ کے ایک معروف انگریزی اخبار ’دی ٹیلی گراف‘ میں اپنے کالم میں لکھا کہ ’ برقعہ پہننے والی خواتین لیٹر بکس یا بینک کے لٹیرے جیسی دِکھتی ہیں‘۔ بورس جونسن نے یہ بات حال ہی میں ڈنمارک میں برقعہ پر لگی پابندی کی حمایت میں کہا ہے۔ تاہم اس سے قبل فرانس، بلجیم، آسٹریا اور بلغاریہ میں بھی ایسا برقعہ پہننے پر جس میں چہرہ چھپا ہو پابندی لگا دی گئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بورس جونسن نے یہ بات جان بوجھ کر لکھی ہے تا کہ برقعہ پہننے والی خواتین اور اسلام مذہب کے لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچے اور وہ سرخیوں میں آجائے۔

یورپ کے زیادہ تر ممالک میں اس بات پر بحث چھڑِی ہوئی ہے کہ وہ خواتین جو ایسا برقعہ استعمال کرتی ہیں جن سے ان کی شکل چھپی ہو، انہیں عوامی جگہوں پر پابندی لگا دی جائے۔ ان لوگوں کا ماننا ہے کہ ایسی خواتین جن کی شکل نہ دِکھے وہ سیکورٹی کے لئے دردِ سر بن سکتی ہیں۔ تاہم پورا چہرہ اور جسم ڈھکا ہوا برقعہ پہننے والی خواتین کی تعداد صحیح معنوں میں بہت کم ہے۔
ویسے بورس جونسن کا یہ جاہلانہ بیان کوئی پہلی بار خبروں کی سرخیاں نہیں بنا ہے۔ انہوں نے متعدد بار ایسے بیان دیے ہیں جس سے انسان شش و پنج میں پڑ جاتاہے۔ اس سے قبل بھی انہوں نے برطانیہ کو یوروپین یونین سے باہر نکلنے کی مہم میں ایسے ایسے بیان دیے تھے کہ لوگوں کو چکّر سا آگیا تھا۔ تاہم بورس جونسن کے جھانسے میں آکر لوگوں نے ووٹ دیا اور برطانیہ یوروپین یونین سے باہر ہوگیا۔

بورس جونسن کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ایسی مشکل بحث سے ہمیں گریز نہیں کرنا چاہیے کیو ں کہ اگر ہم ان باتوں پر بحث نہیں کریں گے تو آنے والے دنوں میں برطانیہ میں انتہا پسندوں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ اس لئے ہمیں بورس جونسن کے بیان کی حمایت کرنی چاہیے اور لوگوں کو اس بحث میں شامل کرنا چاہیے۔ جبکہ وہیں کنزرویٹیو پارٹی کے بہت سارے ممبروں نے بورس جونسن کی پر زور مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ اگر بورس جونسن لیڈر منتخب ہوئے تو وہ پارٹی سے استعفیٰ دے دیں گے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ بورس جونسن کے بیانات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ وہ لیڈر شپ کے لیے نا اہل ہیں۔

بی بی سی ریڈیو پر طاہر ہ نور جو پچھلے بیس برسوں سے برقعہ پہن رہی ہیں، اپنے انٹرویو میں کہا کہ بورس جونسن میں علم کی کمی ہے۔ طاہرہ نور کا یہ بھی کہنا ہے کہ برطانیہ میں زیادہ تر خواتین جو برقعہ پہنتی ہیں ان کی پیدائش برطانیہ میں ہوئی ہے۔ ان خواتین نے اسکول سے لے کر یونیورسٹی کی تعلیم برطانیہ میں ہی مکمل کی ہیں۔ ان عورتوں پر برقعہ پہننے کے لئے کوئی جبر نہیں ہوا ہے اور نا ہی ان کے شوہر نے ان پر دباؤ ڈالا ہے۔ برقعہ پہننا ان کی اپنی پسند ہے۔

سحر الفائیفی جو کہ ویلس کی راجدھانی کارڈف میں رہتی ہیں۔ وہ ہمیشہ برقعہ کا استعمال کرتی ہیں۔ انہوں نے بی بی سی نیوز کو اپنا انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ وہ ان لوگوں کی پرواہ نہیں کرتیں جنہیں ان کے برقعہ پہننے سے پریشانی ہے۔ لیکن انہیں اس بات سے سخت تکلیف پہنچتی ہے جب کوئی ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک کرتا ہے کیو ں کہ وہ ایک عورت ہے اور اقلیتی طبقہ سے تعلق رکھتی ہے۔ سحر یہ بھی کہتی ہیں کہ ا نہیں کیا پہننا ہے اور کیا نہیں پہننا ہے یہ ملک، حکومت اور یقینی طور پر درمیانی عمر کے سفید مردوں کی ذمّہ داری نہیں ہے۔

دنیا بھر میں مسلم خواتین کئی قسم کے لباس کا استعمال کرتی ہیں جس سے ان کا جسم، سر اور چہرہ ڈھکا ہوتا ہے۔ عام طور پر ان کی سات قسمیں ہیں۔ ان میں برقعہ اور نقاب ایسے ہیں جس میں خواتین کی شکلیں چھپی ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ حجاب، شیلا، ال امیرا، اور کھیمار ایسے لباس ہیں جس سے خواتین کا صرف سر ڈھکا ہوتا ہے۔ ایک اور قسم چادرکی ہوتی ہے ( ایران میں چادُر کہتے ہیں) جسے ایران کی خواتین کثرت سے پہنتی ہیں جس میں خواتین سر تا پاؤں ڈھکی ہوتی ہیں۔

میں نے دنیا بھر میں مذہبی نقطۂ نگاہ کے علاوہ روایتی طور پر خواتین کے سر اور جسم کو الگ الگ طور پر ڈھانکنے کے لباس کو دیکھا ہے۔ دنیا کی مختلف ممالک کی مسلم خواتین اپنے ملک کے فیشن کے طور پر اپنے سر اور جسم کو ڈھانکنے کے لئے خوبصورت لباس کا استعمال کرتی ہیں۔ جس سے اس بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ مذہبی نقطۂ نگاہ سے زیادہ ترمسلم خواتین اس بات کو ضروری سمجھتی ہیں کہ صرف سر کا ڈھانکنا ہی لازمی ہے۔ اس کے علاوہ زیادہ تر عرب ممالک کی خواتین برقعہ یا ابایاکا استعمال کرنا پسند کرتی ہیں۔

بورس جونسن کی بات سے برطانیہ میں برقعہ پہننے پر جو بحث چھِڑی ہے وہ اب بھی تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بورس جونسن نے وقت کی نزاکت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس بات کو کہنا ضروری سمجھا ہے۔ تا کہ ان کی غیر ذمّہ دارانہ بات کو اہمیت دی جائے اور لیڈر شپ کے لیے ان کا پلّہ بھاری ہو۔ تو وہیں ان کے مخالفین اس بات کی آڑ میں بورس جونسن کو آڑے ہاتھ لے رہے ہیں تا کہ انہیں اس بات سے کوئی فائدہ نہیں ملے اور برطانیہ کی مذہبی رواداری قائم رہے۔

اب بات چاہے بورس جونسن کے فائدے کی ہو یا نقصان کی، تاہم مسئلہ ایک بار پھر مسلمانوں سے منسلک ہے۔ میں سیکورٹی کے لحاظ سے اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ عوامی جگہوں پر برقعہ کا استعمال واقعی ایک سیکورٹی کا معاملہ ہے۔ لیکن میں اس بات سے بھی فکر مند ہوں کہ برطانیہ میں کہیں مذہبی رواداری کا خاتمہ نہ ہوجائے۔ بورس جونسن نے ’برقعہ‘ کو لیٹر بکس اور بینک کے لٹیرے سے مشابہت کر کے اخلاق سے گری ہوئی بات کی ہے۔ جس کی میں سخت لفظوں میں مذمت کرتا ہوں۔ ان بیانوں سے مذہبی تعصب اور نفرت رکھنے والوں کی حوصلہ افزائی ہوگی جو کہ ایک ناقابلِ قبول اور تشویش ناک بات ہے۔

میں امید کرتا ہوں کہ اس معاملے میں حکومت مذہبی عالموں سے رابطہ کر کے ان ہی کے ذریعہ ا س کا حل نکالے، تو اس معاملے میں اتنی بدمزگی نہ ہوگی جتنی بورس جونسن جیسے لوگوں کے بیان سے ہورہا ہے۔ میں بورس جونسن سے معافی کے مطالبہ کی مانگ کرتا ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).