کھجلی اور زبان


ناخن اور کھجلی کا ساتھ جنم جنم کا ہے ناخن بڑھتے ہی کھجلی شروع ہوجاتی ہے اور اگر ناخن تراش لو تو کھجلی کو بھی آرام ہوجاتا ہے۔ کھجلی اور ناخن کی سائنس کیا ہے یہ تو معلوم نہیں لیکن محاورہ مشہور ہےخدا گنجے کو ناخن نہیں دیتا ورنہ کھجا کھجا کر مر جاتا۔ کھجلی کی اور بھی کئی قسمیں ہیں کچھ اندرونی کچھ بیرونی، آج کل جو کھجلی مشہور ہے وہ ہے زبان کی کھجلی، یہ جب ہوتی ہے تو زبان سے وہ وہ شہکار جھڑتے ہیں جو کبھی سنے نہ تھے اس لیے کہتے ہیں تلوار کا گھاؤ بھر جاتا ہے زبان کا نہیں۔ زبان کی کھجلی سے بچنا چاہیے ورنہ بندہ کھجل خوار ہوجاتا ہے۔

سوشل میڈیا پر زبان کی کھجلی بہت زور پکڑ رہی ہے جو منھ میں آیا بک دیا جو سمجھ میں آیا لکھ دیا، کوئی پوچھنے والا نہیں، بن ماں باپ کا آوارہ بچہ بنا ہوا ہے سوشل میڈیا۔ ہماری سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے میڈیا سیل، فیس بک، واٹس ایپ، ٹیوٹر پر بنائے ہوئے ہیں وہاں سے اپنے اپنے حق میں تعریفوں کے پل باندھے جاتے ہیں اور مخالف جماعتوں بکے لوگ ان پلوں کو دو تین پوسٹوں سے زمیں بوس کردیتے ہیں، بات یہاں تک ہوتی تو ٹھیک تھا لیکن ایک طوفان ِ بدتمیزی برپا ہوتا ہے اور لغو و لچر زبان کی کھجلی کے نتیجے میں نکلنے والی گالیوں سے بھری پوسٹس لگائی جاتیں ہیں جس سے ایک بد تمیزی کی فضا جنم لے رہی ہے۔ لوگوں کی حس ِ لطیف مر چکی ہے لطیف پیرائے میں کیا گیا طنز بھی ہضم نہیں ہوتا۔

ایک دوسرے کی پارٹیوں کے بارے میں بےہودہ پوسٹس ان کے لیڈران کے بارے میں لغو باتیں۔ موجودہ حکومت کو جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں لوگ سمجھ رہے ہیں کہ سب کچھ پلک جھپکتے ٹھیک ہو جائے گا، حکومت بھی ایسے ایسے بھنڈ کر رہی ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ نہ کوئی مہنگائی پر بات کر رہا نہ تعلیم کی فکر ہے پیٹ بھر روٹی اور چلو بھر پانی نہیں پینے کو، ایسے موضوعات پر کوئی نہیں بول رہا قوم کو بے تکے موضوعات میں پھنسا دیا ہے کہیں ہیلی کاپٹر موضوع ہے کہیں خاتون ِ اول کے سابق شوہر کے نخرے۔ عوام کو ان باتوں میں الجھا کر اصل مسائل سے دور رکھا جارہا ہے۔
اس ذہنی اور زبان کی کھجلی سے نجات حاصل نہ کی تو یہ خارش میں تبدیل ہو جائے گی اور کھجا کھجا کر مر جائیں گے اور کوئی مرہم اثر نہیں کرے گا۔ حکومت کو بھی اپنی زبان کھولنی ہوگی تاکہ باقی جتنی زبانوں میں کھجلی ہورہی ہے وہ روکی جاسکے اور پاکستان کو پاکستان بنایا جاسکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).