طلائی اور ویشیا


چے صحن میں اتنی شدید دھوپ پڑرہی تھی کہ مٹی کی سوندھی خوشبو میں حبس زدہ تھکن اور اکتائی ہوئی جلن شامل ہونے لگی۔ اندر کا موسم تو پہلے ہی بان کی سخت کھردی چارپائی کی طرح جسم پر گرم پھپھولے بنا ہی رہا تھا لان کا پرانا، پسینے سے اکڑا ہوا کرتا چبھن میں اور اضافہ کررہا تھا ایک ہی پیڈسٹل فین تھا جو کل سے بند پڑا تھا ٹاٹ کے پردے کے چیتھڑوں میں سے امڈ کے آتی دھوپ نے جھلسانا شروع کردیا تو اس کے لاپروا ذہن میں عجیب سی سوچ کی روشنی کون د گئی ”جب گھر کچے ہیں تو دکھ اتنے پکے کیوں ہیں“

پچھلی گلی کی مسجد سے اذان کی آواز بلند ہوئی تو اس نے بھی جلدی جلدی اٹھ کے وضو کیا۔ پتہ نہیں انسان اتنا ناشکرا کیوں ہوتا ہے۔ مولوی صاحب نے شکر کے ڈھیر سارے فائدے بتائے۔ شکر کی ضرورت و اہمیت پورے خطبے میں باور کرائی۔ اسے بڑی سبکی محسوس ہوئی کہ اتنا پڑھ لکھ کے دین کی تعلیم حاصل کرکے بھی اس نے کبھی رب کا اس طرح شکر ادا نہیں کیا جیسے حق تھا ادا کرنے کا۔ شکر تو بندے اورخدا کے درمیان ایک پرسکون رشتہ ہے، ”تبھی گھر میں کوئی برکت نہیں اترتی“ وہ بڑبڑایا۔

سیاہ رات کی تاریکی میں جب سورج بھی چھت پہ آگ نہیں جھلسا رہا تھا پھر بھی بان کی سخت چارپائی جلتی چلی جارہی تھی۔ اس کا پھولوں جیسا رنگ کبھی کبھی جلتے تانبے جیسا ہوجاتا۔ پیاس سے ہونٹ سوکھے پتے جیسے ہوجاتے اور گلے میں ریت اٹکنے لگتی۔ بمشکل اپنا آپ سنبھالتے ہوئے اس نے اٹھ کر پیڈسٹل پنکھے کو ہلا جلا کے چلانے کی کوشش کی۔ اور پھر سے تھک ہار کے بان کی جلتی کھردری چارپائی پہ آگری۔ حلق میں پانی تک ڈالنے کو جی نہ چاہا۔

اس بار پھر کوئی امید نہ بن سکی۔ یخ بختہ کمرے میں اس کے آنسوؤں کی حدت اس کو بے چین کررہی تھی۔ وہ کیا کرتا اس کے بس میں اگر ہوتا تو اس کی اس خواہش کو کب کا پورا کرچکا ہوتا پر شاید اس کے بس میں ہی نہیں تھا وہ بچوں کی طرح بلک رہی تھی۔ یخ بختہ کمرہ بے بسی کی آگ سے جل رہا تھا۔ اس کو ڈر تھا کہ وہ اسے چھوڑ دے گی اور چھوڑ بھی دینا چاہئیے۔ ”ہر بار جسم نہیں آتا بیچ میں میں نے تم سے سچی محبت کی ہے مجھے ان باتوں سے فرق نہیں پڑتا “

“ طوائف صرف جسم ہوتی ہے لوگ تو اسے مکمل عورت بھی نہیں سمجھتے“ تقسیم پاکستان سے پہلے محفلیں سجتی تھیں موسیقی ہوتی تھی ادب اور ثقافت کی جھلک ان کے ہر انداز سے جھلکتی تھی مگر اب طوائفوں کے کوٹھے محض جنسیات اور جسم فروشی تک محدود ہوکے رہ گئے تھے۔ اسی نفسانفسی میں اس نے اپنے خواب پورے کیے ”عورت جسم سے بہت آگے تک ہے بس مرد جسم سے آگے جا نہیں پاتا“ آپا بی نے اسے یقین دلایا تھا کہ اسے آج تک کسی نے نہیں چھوا اور اس کی جھکی ہوئی نظروں میں بمشکل جھانکنے پر اس پہ وارد ہوا تھا کہ اسے تو کوئی چھو بھی نہیں سکتا۔ سرتاپا پاکیزگی۔ اور وہ جو اتنے تفاخرسے آیا تھا وہ بھی نہ چھوسکا ”آپا بی! بہت اونچے خاندان سے تعلق ہے میں نے کبھی ایسا کچھ نہیں کیا“ دوست زبردستی لے آئے تھےاب اسے سمجھ بھی نہیں آرہی تھی کہ اب کیسے جان چھڑائے“ شاہ جی! نیچوں کو بھی خدمت کا موقع دیجئے سب آپ کے شایانِ شان ہوگا“

گرمی کی شدت سے اس کی طبیعت بگڑتی جارہی تھی۔ اس کو مزدوری نہیں مل رہی تھی۔ نوبت فاقوں تک پہنچ گئی۔ جدھر ایک جان پالنا عذاب تھا ادھر۔ وہ کہتا تھا کچے صحن میں نئی زندگی جب قدم دھرے گی تو اپنا رزق ساتھ لائے گی۔ وہ سوچتی تھی جو زندگی وجود میں آنے سے پہلے بھوک میں لپٹ رہی ہے وہ دنیا میں آکے کہاں سے رزق لاسکے گی لاسکتی تو۔

قبریں کھودنے والوں پہ بڑی ذمے داری ہوتی ہے لوگ تو انسانوں کو امانت نہیں لوٹا پاتے اور یہ خدا کو امانت لوٹاتے ہیں پر آجکل تو یہ بھی دیانتدار نہیں رہے۔
تین گاؤں چھوڑ کر برساتی نالے کے ساتھ والے قصبے میں گورکن کی موت ہوئی تو اس نے دوکان سے تل کے لڈو لئے اور گھر والی کو خوشخبری سنانے بھاگا جو چارپائی سے لگی نیلے آسمان میں ننھی سی شکلیں تلاش رہی تھی۔ چاولوں میں چنے کچے ہونے سے اس کے پیٹ میں جو مروڑ اٹھے تو اس نے تڑپتے ہوئے سوچا کہ اس سے تو فاقہ ہی بھلا تھا

شہر کے اتنے معزز خاندان کا وارث روز آپا بی کے کوٹھے پہ ہوتا وہ اس کے سحر میں ڈوبتا جارہا تھا جو روز اس سے ڈھیروں باتیں کرتی۔ اس کے دکھ سنتی تو وہ بولتا چلا جاتا زمانے بھر سے شکایتیں ہی بھری تھیں اس میں۔ وہ سوندھی مٹی جیسی پاک تھی وہ بھی ایسی جگہ پر رہ کے ”میں تھی ہی اتنی پیاری! سب کی لاڈلی۔ کوئی میری ضد ٹال ہی نہ سکا۔ بی اے کے بعد ایم اے پڑھنے کی اجازت نہ ملی تو میں نے وہ رونا مچایا کہ سب کو مانتے ہی بنی“ جہاں صرف جسم کی بھٹی جلتی ہے اوڑھنا پہننا سب ایک جسم کی مرہونِ منت ہے وہاں اس نے علم کی شمع روشن کی۔ اس علم نے اسے اتنا شعور دیا کہ آج تک اس نے جسم کو ذریعہ نہیں بننے دیا“ بڑی بہادر لڑکی ہے۔ کہتی ہے کہ پہلے نکاح کرو گے پھر پاس آنے دوں گی اور میں ہنستا ہوں کہ یہ بات وہ مجھے کدھر بول رہی ہے“

”آج قبر کھودتے ہوئے مجھ پہ وحشت طاری ہورہی تھی۔ دل بڑا گھبرا رہا تھا۔ کپکپی سی ہونے لگی اور جسم پہ پسینہ ہی پسینہ۔ جانے کتنی بھاری روح تھی۔ آج چاولوں میں مرغے کی ہڈیاں بھی تھیں کہیں کہیں ایک چھلکا سا آتا تو اس کے منہ میں ڈھیروں پانی امڈ آتا“ قبریں کھودنا بڑا اوکھا کم ہے پر تیری یہ حالت مجھ سے دیکھی بھی تو نہیں جاتی“ وہ کھلے آسمان کے نیچے بان کی کھردری اور سخت چارپائی پر لیٹ کےنئی نئی شکلیں بناتی اور وہ اسے مرے ہوؤں کے قصے سناتا۔ وہ راتوں کو ڈر جاتی کوئی چھوٹی سی طلائی اس سے چھین کر لے کے جارہا ہے اور وہ تاریک گلی میں بنا ڈوپٹے کے ننگے پاؤں بھاگتی چلی جاتی ہے وہ چھوٹی سی طلائی اسے کہیں نظر نہیں آتی۔ ساتھ والے گاؤں سے اس کی لنگڑی ماں اور باپ اس سے ملنے آتے ہیں وہی طلائی اس کی مان بنا کے لاتی ہے۔

”میں تم سے نکاح کیسے کروں میرے گھر والے کبھی قبول نہیں کریں گے تمھیں۔ ابھی ایک ہفتہ پہلے میری شادی ہوئی ہے وہ بیوی میکے چلی گئی تھی اور اتنے دن تم سے ملابھی تو نہیں۔ رہا ہی نہیں گیا“ پر اس کی ایک ہی رٹ تھی ”اسے سمجھاؤ کہ جس جگہ سے اس کا تعلق ہے وہاں نکاح نہیں کیے جاتے بس نذرانے دے کر وقت کی وحشت نکالی جاتی ہے“ اس کی بات پر اس نے کتنے دن اس سے بات نہیں کی۔ کون سا خاندان، کون سی قبولیت۔ اس کی پاکیزہ محبت کے لئے یہی امتحان کافی تھا کہ اسے جدائی کے نیزے پہ چڑھا دیا جائے۔

”شاہ جی! خدا کے بعد بس آپ ہی ہیں میں نماز خدا کے حضور پڑھتی ہوں اور اس سے باتیں صرف آپ کی کرتی ہوں۔ بخدا اگر سجدہ جائز ہوتا تو میں دن رات کرتی“ ماسٹر گھر آکر پڑھاتے تھے اور اس نے گناہوں کے اس گڑھ میں اسلامیات میں ایم اے کر لیا پھر وہ وہ سب کیسے کر پاتی ”تیری پڑھائی کے رستے چل پڑیں نا یہ ساریاں تو بھوکی مریں۔ نبض کا چرخہ چلتا ہے تو پیٹ کا ایندھن جلتا ہے“

وہ کہتی تھی کہ عورت کا سب سے خالص روپ طوائف کا ہی ہوتا ہے جو ساری عمر جسم سے وفا کرتی ہے اور اندر ہر لمحہ اس کے ایک ہی خواہش سر ابھارتی رہتی ہے کہ کوئی سچی محبت کا دیپ جلائے، اس کا ہاتھ پکڑے اور جسم اور بھوک کی اس قید سے اسے چھڑا کر لے جائے۔ آئینے کے سامنے کھڑی ہوکر اپنے ڈھیلے کپڑوں کو کستے ہوئے ان سب کی سوچ آئینے کے اندر کھب جاتی ہے خدا نے بھی انھیں اس حال میں چھوڑدیا اب جو اس بدحالی سے نکالے گا تو وہی خدا ہوا نا جیسے بھوکے پیٹ پہ روٹی کی خدائی ہوتی تو طوائف ایسے خدا کو ڈھونڈتی ہے جو اسے اس جہنم سے باہر نکال کے اپنے آنگن کی جنت میں اتار دے

اس کو صرف یہ پتہ تھا کہ وہ آنکھوں کے سامنے رہے گی تو سانس کا آناجانا مشکل نہیں ہوگا۔ پہلی بیوی چھوڑ کے جا چکی تھی اور خاندان بھر میں بدنام بھی کر چکی تھی۔ اور یہ۔ یہ تو پاکیزہ محبت کی امر بیل تھی اس کی روح کی دیواروں پر بہت اوپر تک چپک گئی تھی۔

ڈاکٹروں نے علاج کے لئے بھاری رقم بتادی تھی۔ وہ بنچ پہ ادھ موا بیٹھا خالی دیواروں کو گھور رہا تھا پورا شہر بھی مر جائے تب بھی اتنے پیسے کہاں سے آئیں گے کہ میں اپنی یہ دو زندگیاں بچالوں۔ تیزی سے آتی ہوئی خوبرو لڑکی اس کے پاؤں سے ٹکرا کر زمین پر گر کے ہائے ہائے کرنے لگی

”دیکھو میں بھی بڑی مجبور تھی کسی زمانے میں۔ خدا نے میری سن لی۔ آج میرے پاس عزت ہے محبت ہے سچی محبت۔ سنو ایک طوائف مکمل سے بھی زیادہ عورت ہوتی ہے اور ایک عورت کی نبض جتنی وہ سمجھ سکتی نا کوئی نہیں سمجھ سکتا۔ ایک عورت کا درد مجھ سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے“

وہ اس کے ہاتھ سے وہ طلائی لے رہی تھی۔ وہ نہیں دے رہی تھی۔ وہ تھپکیاں دیتی ہوئی ساتھ ساتھ چھین رہی تھی۔ وہ ایک ویشیا! صرف عورت کے جسم کی تکلیف کو ہی سمجھ سکتی ہے صرف عورت کی روح کے زخموں پہ پھاہا رکھ سکتی ہے مگر۔ یہ ویشیا! ماں کی تکلیف کا مداوا کیسے کر سکتی ہے جو میری رگ رگ میں دوڑ رہی ہے جو میرے خون سے پھٹ کے باہر نکلنے کو بیتاب ہے جس کو کوئی راستہ نہیں مل رہا۔ رگوں میں دوڑتی مامتا فراڑے مارنے لگی تو وہ بغیر دوپٹے کے ننگے پاؤں گلی کی طرف بھاگنے لگی۔ میری ماں کی طلائی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).