جمعیت اور جنسی بے راہروی کا فوبیا، لڑکوں کے ہاتھ بھی کاٹنا ہوں گے


پچھلے دو ہفتوں میں “ہم سب” پر پنجاب یونیورسٹی میں اسلامی جمعیت طلبہ کے کردار پر کافی کھل کر بات ہوئی۔ اس سلسلے میں میرا پہلا آرٹیکل “لڑکیاں پنجاب یونیورسٹی کی” 18 ستمبر کو چھپا تو جمعیت کا پہلا رد عمل بوکھلاہٹ کا تھا۔ اسی بوکھلاہٹ میں انہوں نے تین جوابی مضمون لکھے، “ہم سب” پر شائع کروائے اور واپس لے لئے۔ اس کی تفصیل عدنان خان کاکڑ کے مضمون میں اس لنک پر دیکھی جا سکتی ہے۔ (http://www.humsub.com.pk/26281/humsub-5/) جمعیت والے شاید پڑہنے والوں کے تبصروں سے گھبرا گئے تھے۔ کیونکہ لوگ اپنے ذاتی اور آنکھوں دیکھے واقعات کی باتیں کر رہے تھے اور انہیں جھٹلانا جمعیت کے لئے ناممکن ہو گیا تھا۔ اب جواب دعوی کی ایک اور کوشش ہوئی ہے۔

ساجد سلطان صاحب نے جمعیت کی جانب سے باقاعدہ جواب دعوی “ہم سب” پر شائع کرایا ہے اور امید ہے کہ وہ اسے واپس بھی نہیں لیں گے۔ انہوں نے بہت سے نقطے اٹھائے ہیں۔ انہیں ایک مجموعی جواب تو جاوید ملک کے شاندار مضمون “کچھ جمعیت کے حق میں” سے مل گیا ہے۔ جمعیت مخالفین کی طرف سے یہ فرض جناب مقدس کاظمی صاحب نے اپنے دو تفصیلی مضامین کے ذریعے پورا کر دیا ہے۔

ساجد صاحب کے اس زبردست مضمون کے ساتھ میری دلچسپی اس سے اگلے لیول کی ہے۔ اس مضمون نے ان مغالطوں کی تصدیق کی ہے جنہوں نے ہمارے آج کے نوجوان ذہنوں کو جکڑا ہوا ہے۔ جمعیت اور الھدی جیسی تنظیموں کے لئے ہمارے نوجوانوں کو ان مغالطوں میں پھانسنا بہت آسان ہے کیونکہ وہ نوجوانوں کی مذہبی جذباتیت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اور نوجوان اس میں آسانی سے پھنس جاتے ہیں کیونکہ ہمارے تعلیمی نظام اور معیار نے ان کی تنقیدی سوچ کی صلاحیت کو نہ صرف پنپنے نہیں دیا بلکہ اسے مار ہی ڈالا ہے۔ میں اس سلسلے میں چند مضامین لکھوں گا۔ یہ کاوش جمعیت اور الھدی کے چنگل میں پھنسے ہوئے ذہنوں کو سوچنے کی دعوت دینے کے لئے ہے۔

اب آتے ہیں ساجد صاحب کے مضمون کے پہلے نقطے کی جانب۔ لڑکی اور لڑکے کے میل جول پر جمعیت کو اعتراض ہے اور جمعیت اسے شرعی پابندی کہتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ پابندی شرع کی اس تشریح کے تحت ہے جس کو جمعیت مانتی ہے۔ اور جمعیت کو یہی کہنا چاہیئے۔ خیر، جمعیت کے اس اعتراض پر بات کرنے سے پہلے ایک سوال ہے۔

کیا عورت انسان ہے؟ اس کا جواب تمام جمعیت والے ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی گردان سے شروع کرتے ہیں لیکن اگر سوال کرنے والا اڑ جائے تو پھر انسان بھی کہہ دیتے ہیں۔ اگر آپ عورت کو انسان مان جاتے ہیں تو پھر انسانوں کے میل جول کی بات آتی ہے۔

انسانوں کے آپس کے میل جول کے سلسلے میں جمعیت کو کچھ بنیادی نقاط سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انسان ان گنت رشتوں کی بنیاد پر ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ ان رشتوں میں خون کے رشتے، دوستی، ایک ساتھ کام کرنے والے، ایک ہی ٹریک پر چہل قدمی کرنے والے، ایک ہی سکول میں بچے بھیجنے والے، ایک ہی محلے یا ایک ہی گاؤں میں رہنے والے، ایک ہی مسجد میں نماز پڑہنے والے، ایک ہی دربار پر سلام کرنے والے، ایک ہی نظریے کی سیاست کرنے والے، ایک طرح کے شوق رکھنے والے، ایک طرح کی کتابیں پڑہنے والے، استاد شاگرد، کلاس فیلوز، گاہک دکاندار اور نہ جانے کون کون سے انسانی رشتے ہیں جن کی بنیاد پر انسان انسانوں سے ملتے ہیں۔

انہی ملاقاتوں میں انسان ایک دوسرے کے دوست بن جاتے ہیں، مدد کرتے اور مدد لیتے ہیں، ایک دوسرے س متاثر ہوتے، ایک دوسرے سے سیکھتے ہیں۔ ایک دوسرے کے کام آتے ہیں کبھی دوستی یا انسانی ہمدردی میں اور کبھی ریوارڈ کی توقع کے ساتھ۔ ایک دوسرے کے دکھ بانٹتے ہیں، روتے ہیں، ہنستے ہیں، خوش ہوتے ہیں۔ میل جول انسانی فطرت ہے اور اس کے بغیر انسان رہ نہیں سکتے۔

اسی انسانی میل جول کے نتیجے میں انسانی رشتے بہت گہرے بھی ہو جاتے ہیں، کبھی کبھی انسانی رشتے اپنے نام بدل لیتے ہیں اور رشتہ داریوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے کو شادیوں کے سندیسے بھی بھیجتے یا بھجواتے ہیں۔ اسلام نے عورت کو بھی اپنی مرضی کی شادی کی اجازت دے رکھی ہے اور اس اجازت کا سینس تبھی بنتا ہے جب عورت کسی غیر محرم کو اتنا جانتی ہو کہ اسے پسند یا ناپسند کر سکے۔ ورنہ اس اجازت کا کیا مطلب ہے۔

اسی انسانی میل جول میں کبھی کبھی یعنی شازونادر غلط فہمیاں بھی ہو جاتی ہیں، جھگڑے اور دشمنیاں بھی ہو جاتی ہیں۔ اور لوگ ایک دوسرے کو نقصان بھی پہنچاتے ہیں۔ لیکن اس اندیشے کے باوجود بھی انسانوں کے درمیان میل جول پر پابندی نا ممکن اور غیر فطری ہے۔

اسی انسانی میل جول کے دوران بہت کم کبھی انسانوں کے درمیان جنسی غلطیوں کے امکان بھی ہوتے ہیں۔ لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ جنسی غلطیاں صرف عورتوں اور مردوں کے میل جول سے نہیں ہوتیں۔ اس کے اور بھی بہت سارے راستے اور امکانات ہوتے ہیں۔

اگر جمعیت یونیورسٹی میں “جنسی بے راہ روی” کو ختم کرنے کا خواب دیکھتی ہے تو یہ صرف انسانوں کے میل جول پر پابندی لگانے سے پورا نہیں ہو سکتا۔ تمام لڑکوں کے ہاتھ بھی کاٹنے ہوں گے۔

سلیم ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سلیم ملک

سلیم ملک پاکستان میں شخصی آزادی کے راج کا خواب دیکھتا ہے۔ انوکھا لاڈلا کھیلن کو مانگے چاند۔

salim-malik has 355 posts and counting.See all posts by salim-malik

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments