نائی کی چالاک بیوی اور سات چوروں کی کہانی


جاتے جاتے ایک چور دوبارہ ایک کونے میں چھپ گیا اور نائی کی بیوی نے اس مرتبہ بھی اسے چھپتے دیکھ لیا۔ نائی نے پھر پریشان ہو کر پوچھا ”تم نے سونا کہاں چھپایا ہے؟ گدے کے نیچے تو نہیں چھپا لیا؟ “

نائی کی بیوی نے اسے تسلی دی ”میں اتنی بے وقوف نہیں ہوں۔ سونا محفوظ ہے۔ میں نے اسے باہر نیم کے درخت کی اونچی شاخوں میں ایک پوٹلی میں باندھ کر چھپا دیا ہے۔ “
چور یہ سن کر بہت خوش ہوا۔ رات کو جب سب سو گئے تو وہ اپنی کمین گاہ سے نکلا اور اس نے اپنے ساتھیوں کو بتایا۔ سب چور نیم کے درخت کے نیچے جمع ہو کر اوپر دیکھنے لگے تو کچھ غور کرنے پر اوپر درخت پر ایک پوٹلی بندھی دکھائی دی۔

چوروں کا سردار بولا ”واقعی اوپر پوٹلی بندھی ہوئی ہے۔ ایک آدمی اوپر چڑھے اور اسے اتار لائے“۔ ایک چور نے قمیض اتاری، کس کر دھوتی باندھی اور اوپر چڑھنے لگا۔

اب ہوا یہ تھا کہ نیم کے درخت پر شہد کی مکھیوں نے ایک چھتا بنا رکھا تھا۔ جب چور چھتے کے قریب پہنچا اور اس نے ہاتھ آگے بڑھایا تو شہد کی ایک مکھی نے زور سے اس کی ران پر ڈنک مار دیا۔ چور نے تکلیف سے پریشان ہو کر بے ساختہ اپنی ران پر ہاتھ مارا۔

”چور کہیں کے۔ تم پوٹلی نیچے اتارنے کی بجائے اس میں سے سونا نکال کر اپنی جیب میں بھر رہے ہو۔ “ نیچے کھڑے چور چلائے۔ اندھیرے کی وجہ سے باقی سب چوروں کو یہی لگا تھا۔

”میں ایسا کچھ نہیں کر رہا ہوں۔ درخت پر کچھ ہے جو مجھے چبھ رہا ہے“۔ درخت پر چڑھے چور نے کہا۔ اسی وقت ایک دوسری مکھی نے اس کے سینے پر ڈنک مارا۔ چور نے سینے پر ہاتھ مار کر اسے الگ کرنا چاہا۔ نیچے کھڑے چور چلانے لگے ”ہم نے دیکھ لیا ہے۔ تم سونا چھپا رہے ہو“۔

انہوں نے ایک دوسرا چور اوپر بھیجا مگر اب شہد کی مکھیاں مشتعل ہو چکی تھیں۔ انہوں نے اس چور کے جسم پر کاٹنا شروع کیا تو وہ بے اختیار اپنے جسم پر جگہ جگہ ہاتھ مارنے لگا۔ باقی چوروں کو بہت غصہ چڑھا کہ وہ دوسرا چور بھی بے ایمان نکلا اور سونا چھپا رہا ہے۔

سب چور ایک ایک کر کے اوپر چڑھتے گئے اور ہر ایک کے ساتھ یہی ہوا۔ آخر سردار کی باری آئی۔ اس نے چھتے کو مضبوطی سے پکڑا ہی تھا کہ وہ شاخ جس پر سب کھڑے تھے، وزن برداشت نہ کرتے ہوئے ٹوٹ گئی اور سب نیچے جا گرے۔ چھتا ان کے اوپر گرا اور مکھیاں ان پر ٹوٹ پڑیں۔ سب چور جان بچا کر بھاگے۔

اس کے بعد کئی دن سکون رہا کیونکہ چور اس قابل نہ تھے کہ چل پھر سکتے۔ نائی اور اس کی بیوی سوچنے لگے کہ شاید اب چور انہیں دوبارہ تنگ نہیں کریں گے۔ لیکن وہ غلط تھے۔

ایک رات جب وہ کمرے کی کھڑکی کھول کر سوئے ہوئے تھے تو نائی کی بیوی کی آنکھ سرگوشیوں کی آواز سے کھل گئی۔ چوروں کی آواز پہچان کر اس کے ہوش اڑ گئے اور اس نے سوچا کہ اب بچنا مشکل ہے۔ لیکن اس نے ہمت نہ ہاری اور نائی کا استرا پکڑ کر کھڑکی کے ساتھ چھپ کر کھڑی ہو گئی۔

پہلے چور نے آہستہ آہستہ سر اندر کیا اور اندھیرے کمرے کے اندر جھانکنے کی کوشش کی۔ نائی کی بیوی نے استرے والا ہاتھ گھمایا اور چور کی ناک کاٹ ڈالی۔
”خدایا، میری ناک کسی چیز سے لگ کر کٹ گئی ہے۔ “ چور تکلیف سے چلایا۔

”خاموش۔ تم سب کو جگا دو گے۔ چپ کر کے اندر جاؤ“۔ باقی چوروں نے اسے آہستہ آواز میں ڈانٹا۔
”نہیں میں نہیں جاؤں گا۔ میری ناک سے بہت خون بہہ رہا ہے“، چور کراہا۔

”بزدل۔ تمہاری ناک کھڑکی کے پٹ سے ٹکرا کر زخمی ہو گئی ہے اور تم رو پیٹ رہے ہو۔ میں اندر جاتا ہوں“۔ دوسرے چور نے کہا اور کھڑکی کی طرف بڑھا۔
جیسے ہی اس نے سر اندر کیا تو نائی کی بیوی نے اپنا استرا چلا دیا اور اس کی ناک بھی کٹ کر جا گری۔

”خدایا، اندر واقعی کوئی تیز چیز ہے“۔ چور تکلیف سے چیخا۔
”بانس کی کوئی کھانچ نکلی ہو گی۔ تم ایک طرف ہو، میں دیکھتا ہوں“ تیسرے چور نے کہا اور اپنا سر کھڑکی سے اندر ڈالا۔
شڑپ۔ اس کی ناک بھی کٹ کر دور جا گری۔ ”افف۔ واقعی کوئی تیز چیز ہے۔ مجھے تو ایسا لگا جیسے کسی نے میری ناک کاٹ ڈالی ہو“۔ تیسرا چور پیچھے ہٹتے ہوئے کراہا۔

”بے وقوفو تم بزدل ہو۔ مجھے اندر جانے دو“ چوتھے چور نے کھڑکی میں سر ڈالا اور ناک کٹوا بیٹھا۔ پانچویں اور چھٹے چور کے ساتھ بھی یہی ہوا اور سردار کی باری آ گئی۔
”ساتھیو تم سب زخمی ہو گئے ہو۔ ایک آدمی کو ٹھیک رہنا چاہیے تاکہ وہ سب زخمیوں کی حفاظت اور تیمار داری کرے۔ کسی اگلی رات واپس آتے ہیں“ سردار نے کہا۔ سب چور واپس پلٹ گئے۔

نائی کی بیوی نے چراغ جلایا اور تمام چوروں کی ناکیں ایک ڈبی میں جمع کر لیں۔
چند دن سکون سے گزرے۔ موسم خوب گرم ہو گیا اور کمرے کے اندر سونا ممکن نہیں رہا تو نائی اور اس کی بیوی نے باہر صحن میں چارپائیاں بچھا لیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar