عورت، قدیم تہذیب اور اسلام


مغرب و اہل مغرب جدیدیت و آزادی کا نعرہ لگا کر عورت کے لیے جس اخلاق، تہذیب وحقوق کا نعرہ لگاتے ہیں، وہ ان معاشروں میں آج بھی ناپید ہیں۔ آج بھی مغربی معاشرے کی عورت اپنے حقوق سے اتنا ہی دو ر ہے جتنا قبل از اسلام تھی۔ اسلام سے پہلے تو عورت کو زندہ درگور کیا جاتا تھا، منڈیوں میں بولی لگتی تھی۔ زمانہ جاہلیت میں عرب معاشرے بیٹے کو بیٹی پر فوقیت دیتے تھے۔ عہد جہالت میں عورت مرد کی خواہشات پورا کرنے کا ذریعہ سمجھی جاتی تھی۔ لڑکی پیدائش ذلت تصور کی جاتی تھی، انہیں زندہ درگور کرنا عام تھا۔ عورت کوانسان و حیوان کے درمیان کی مخلوق تصور کیا جاتا تھا۔ قدیم تہذیبوں پر نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ عورت کو پاؤں کی جوتی سے بھی کمتر حیثیت حاصل تھی۔ یونانی تہذیب جسے مثالی تہذیب سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس تہذیب میں قانونی، معاشرتی و معاشی حقوق کے ساتھ ساتھ عورت آزادی سے بھی محروم تھی۔ خاندان کے سربراہ کو یہ حق حاصل ہوتا تھا کہ وہ بیٹی کو فروخت کر دے، جائداد میں اولاد نرینہ وارث ہوتی تھی۔ قدیم بابلی تہذیب میں عورت کو پالتو جانور سے زیادہ کی حیثیت حاصل نہ تھی، انہیں باقاعدہ منڈیوں میں فروخت کے لیے لایا جاتا تھا۔

قدیم رومن تہذیب میں عورت تمام تر حقوق سے محروم تھی، اسے کسی بھی عہدے کا اہل نہیں مانا جاتا تھا۔ انگلستان جسے آج تہذیب کا مرکز گردانا جاتا ہے۔ اور جو ڈینگیں مار مار کے خود کو آزادی نسواں کا علمبردار کہلواتا ہے۔ 571ء ؁ میں جہالت و ظلم کا مرکز تھا۔ بدصورت عورت کو مار دیا جاتا، اور پادری، سرپرست، شوہر کی غلامی لازمی تھی بصورت دیگر موت کا پروانہ ملتا تھا۔ روس میں عورت کو بے وقوف اور امن و سلامتی کا دشمن تصور کیا جاتا تھا۔ قدیم مصری و ایرانی تہذیب نے عورت کے استحصال میں کوئی کسر اتھا نہیں رکھی تھی۔ قدیم چین میں عورت کو حقیر چیز سمجھا جاتا رہا ہے۔ ہندوؤں کے معاشرے میں عورت کو کسی بھی زمانے میں بلکہ یوں کہا جائے کہ آج تک، کوئی مقام حاصل نہیں تو غلط نہ ہوگا، آج بھی ذلت و رسوائی ان کا مقدر ہے۔ ان میں مذہبی عصمت کا فروغ رہا ہے۔ مندروں میں سیکڑوں نوجوان دیوداسیاں، پروہتوں اور یاتریوں کی تسکیں ہوس کا نشانہ بنتی رہی ہیں۔ میراث میں حقدار تھیں نہ آج ہیں۔ شوہر کی چتا پہ جلنا ان کا مقدر ہے، اس رسم کو غالبا ’’ستی‘‘ کہا جاتا ہے۔ بھارت کے کئی علاقوں میں آج بھی یہ ظالمانہ رسم جاری ہے۔ مگر اس رسم پر مہذب دنیا آنکھیں بند کیے، منہ پہ قفل لگائے بیٹھی ہے۔ جب کہ اسلامی قوانین میں عورت کی عزت و عظمت پر سیخ پا ہے۔

دراصل اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے عورت کومعاشرے میں جائز و قانونی حق دیا اور سر اٹھا کے جینا سکھایا۔ لیکن مغرب اور اس کے دست راست تنگ نظری کی بناء پر اس حقیْت کو ماننے سے انکاری ہیں اور عورت کو دیے گئے حقوق س قطع نظر اسلامی قوانین کو ہی سب و شتم کا نشانہ بناتے ہیں۔ ہمارے ہان کی عورتوں کا بھی ایک مخصوص ٹولہ جدیدیت کا خول چڑھا کر آزادی، آزادی کا نعرہ لگاتی ہیں اور یورپی معاشروں کی تقلید کرتے ہوئے اسلامی تعلیمات کو مذاق اڑاتی ہیں۔ قطع نظر اس سے کہ آزادی تو دی ہی اسلام نے ہے۔ جس سے انہیں جان بوجھ کے انجان رکھا گیا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں ہی عورت کو سب سے زیادہ تقدس و عظمت حاصل ہے۔ اسلام ایسا مذہب ہے جس نے عورت گھر کی ملکہ قرار دیا۔ عورت کو آبگینہ قرار دیا۔ عورت باغ انسانیت کی زینت ہے اسے باواقار طریقے سے تمام معاشرتی حقوق دیے۔ دیگر تہذیبوں کے برعکس اپنا ذاتی مال و ملکیت رکھنے کی اجازت دی۔ وراثت میں حصہ دلایا، معاشرے میں قابل احترام شخصیت قرار دیا۔ قانونی، معاشرتی، و معاشی حقوق کی نشان دہی کی، مرد و زن کے لیے حصول تعلیم یکساں طور پر ضروری قرار دیا۔

اسلام جہان جنسی انحرافات کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرتا ہے وہیں نکاح کو آسان بنا کربیک وقت راحت ضمیر و راحت اعصاب کا ضامن بن جاتا ہے۔ نکاح کا حق دیا، شوہر کو نکاح میں حق مہر کا پابند بنایا، شوہر سے ناچاقی کی صورت میں خلع کا حق دیا، اور نکاح ثانی کی اجازت دی۔ یعنی عورت کو پاؤں کی جوتی سے اٹھا کر رفعت و بلندی پہ پہنچا دیا۔ آج کے تاریک ترین دور میں اسلام ہی واحد سائبان ہے جس کی چھاؤں میں مکمل حفاظت ممکن ہے۔ اسلام ہی وہ واحد جائے پناہ ہے جہاں حقوق نسواں کو بہتر اور محفوظ قرار دیا گیا ہے۔ وہ عورت جو مغرب و مغربی تہذیب و آزادی کی بات کرتی ہے، اسلام کو سخت مذہب سمجھتی ہے اورسوچتی ہے کہ اسلام میں عورت کو آزادی حاصل نہیں یا یہ کہ اسلامی قوانین عورت کی آزادی چھنتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ ایک چکر ادھر کا لگا کے دیکھ لیں تا کہ انہیں پتا چلے وہاں عورت کی عزت صرف بستر تک ہے اور بس۔

عورت کو چاہیے کہ کشادہ دلی سے کم از کم ان قوانین کو جاننے کی کوشش کریں جو اسلام میں ان کے لیے رکھے گئے ہیں ان حکمتوں پہ غور کریں جو ان قوانین کے تحت حاصل ہوتی ہیں۔ جن سے انہیں نابلد رکھا گیا ہے تاکہ انہیں معلوم ہو اسلام میں ان کے کیا حقوق ہیں، اور انہیں کیا بتایا گیا ہے، اور وہ کیا سمجھتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).