آؤ خوابوں کا خون کریں!


آپ کتنے ایسے لوگوں کو ذاتی طور پر جانتے ہیں جنہوں نے اچھا پڑھ کر، اچھی ڈگری لے کر دنیا میں نام کمایا ہو؟ اور آپ نے کتنے ایسے بڑے لوگوں کے نام سنیں ہیں جو اس نظام سے باغی ہونے کے باوجود دنیا میں اپنا نام پیدا کر گئے؟

مجھے سائیکلنگ اور ٹیبل ٹینس کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ میں نے سائیکل پر کسی ایک روز میں زیادہ سے زیادہ 150 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا ہے۔ جن لڑکوں کو میں نے ٹیبل ٹینس سکھائی انہیں کھیل کی بنیاد پر ایف سی اور جی سی جیسے کالجوں میں داخلہ بھی ملا۔ جب سائیکل چلاتا تھا تو سوچتا تھا کہ ٹور ڈی فرانس میں سائیکل چلا رہا ہوں۔ جب ٹیبل ٹینس کھیلتا تھا تو اپنے آپ کو چیمئین محسوس کرتا تھا۔ ان سب کے باوجود میری ان کھیلوں میں کوئی خاطر خواہ کامیابیاں نہیں ہیں۔ کیوں؟ ایک دفعہ ایک خبر دیکھی کہ پاکستان کے سابق اولمپئین آج کل رکشہ چلا رہے ہیں۔ پاکستان کی بین الاقوامی سطح پر ٹیبل ٹینس میں نمائندگی کرنے والے عاصم قریشی کے ساتھ جس دن میں نے کھیلا تو بڑوں کی سب باتیں سچ ہوتیں نظر آئیں۔ ”پڑھو گے لکھو گے تو بنو گے نواب۔ کھیلو گے کھودو گے تو ہو گے خراب۔ ”

ہمارے ایک بھائی صاحب ہیں جو کہ ہمیں کوئی خاص پسند نہیں ہیں لیکن وہ ایک بات نہایت اچھی کرتے تھے۔ کہتے تھے ”بچہ یا تو شوق سے پڑھتا ہے یا خوف سے۔ تمہیں پڑھنے کا کوئی شوق تو ہے نہیں تو خوف سے ہی پڑھو گے۔ “ اور پھر ہماری دھلائی ہوتی تھی۔ لیکن بات سچ تھی۔ انسان کوئی بھی کام یا تو شوق سے سیکھتا اور کرتا ہے یا خوف سے۔ بچپن سے ہی یہ سکھایا جاتا ہے کہ یہ کرو گے تو یہ انعام ملے گا، وہ کام کرو گے تو جہنم میں جلو گے۔

ماں باپ کو قیامت کے روز سونے کا تاج پہننے کا شوق ہوا تو اپنے بیٹے کو جو کہ پانچویں کلاس میں امتیازی طالب علم تھا، اٹھا کر مدرسے میں داخل کروا دیا کہ اسے حافظ بنائیں گے۔ ماں باپ کے شوق کی تکمیل کے لئے نکلا اور مولوی کی مار کے خوف سے رٹے لگاتا گیا۔ جب باپ کو پتہ چلا کہ بچے کو مار پڑتی ہے تو اس نے مولوی کو پیسے بھجوانا شروع کر دیے! وہی بچہ آٹھویں میں فیل ہو گیا۔ نہ قرآن حفظ ہوا نہ اسکول کی پڑھائی۔ لیکن اسے تو بچپن میں شطرنج کا شوق تھا۔

چھوٹی عمر میں بہت کچھ دیکھ لیا تھا۔ لیکن اپنےجذبات کے اظہار کا کوئی ذریعہ ہاتھ نہ تھا۔ تو اس نے شاعری کا انتخاب کیا۔ بارہ چودہ برس کی عمر میں اس نے اپنے شعر کہنا شروع کیے۔ جس کاپی میں وہ شعر لکھتا تھا اور خاکے بناتا تھا، ایک دن اس کے بڑے بہن بھائیوں کے ہاتھ لگ گئی۔ سب نے مل کر اس کا خوب مذاق اڑایا۔ اس کے بعد اس نے اپنی کاپی کو آگ لگا دی۔ اسے اپنا اگلا شعر کہنے میں 15 برس لگ گئے۔ اس نے خاکے کبھی دوبارہ نہیں بنائے۔

آپ اپنے بیٹے کو اس لئے موٹر سائیکل نہیں لے کر دیتے کہ آپ کو موٹرسائیکل سے ڈر لگتا ہے، چاہے آپ نے اپنی پوری زندگی خود کیوں نہ موٹرسائیکل پر گزاری ہو۔ آپ کے بچے کو گرمی لگ رہی ہے لیکن آپ اسے زبردستی جرسی پہنا دیتے ہیں کیونکہ آپ کو سردی لگ رہی ہے۔ آپ اپنے بچے کو پولیو کے دو قطروں سے محروم رکھتے ہیں کیونکہ آپ کا خیال ہے کہ وہ حرام ہیں۔ اجی کبھی بچے سے بھی تو پوچھیے کہ اسے عمر بھر کی معذوری قبول ہے یا حرام کے دو قطرے؟

دنیا میں کوئی بھی شخص کوئی بھی بات کہتا ہے یا کوئی بھی کام کرتا ہے تو وہ اپنی دانست میں سو فیصد درست ہوتا ہے۔ لیکن کیا کیجیے کہ جب دانست ہی کھوٹی ہو۔ ہم اکثر اس عمل یا بات کو درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو ہمارے نزدیک غلط ہوتی ہے۔ کبھی اس سوچ کی طرف توجہ نہیں کرتے جہاں سے وہ جنم لیتی ہے۔ 25 برس کی عمر میں ہمیں موسیقی سیکھنے کا شوق ہوا۔ خاندان اور محلے کے بڑوں نے، اور ہمارے اپنے خود کے دوستوں نے ہمیں سمجھایا کہ اس عمر میں اب کیا کنجر اور میراثی بنو گے؟ لیکن ہم نے کسی کی ایک نہ سنی۔ جس دن ہم یونیورسٹی آف ٹیکساس میں اسی ”حرام“ موسیقی کو پڑھانے کے لئے امریکہ آئے تو ہمیں کنجر کہنے والے دوستوں نے ہمیں آرٹسٹ کہنا شروع کر دیا اور ہم سے امریکہ کا ویزا حاصل کرنے کے طریقے معلوم کرنے لگے۔ خوف کی بنیاد پر کی گئی تمام پڑھائی تمام عمر کبھی کام نہ آئی لیکن شوق کی بنیاد پر کی گئی موسیقی ہمیں چند سالوں میں کہاں سے اٹھا کر کہاں لے آئی۔

لیکن کیا کیجیے کہ ہمارے معاشرے میں شوق کی کوئی گنجائش نہیں۔ ہاں خوف کے لئے بہت ہے۔ ہمارے بچے دسویں جماعت پاس کرتے نہیں کہ ہم انہیں یہ بتانا شروع کر دیتے ہیں کہ بیٹا یہ ڈگری کرو، اس کا بہت ”اسکوپ“ ہے۔ اور وہ ڈگری نہ کرو کہ اس ڈگری والے کو تو نوکری ہی نہیں ملتی۔ بچے کو بلیئرڈ کا شوق ہو تو اسے گھر سے اجازت نہیں ملتی کہ وہاں اچھے لوگ نہیں آتے۔ پھر بچہ جھوٹ بولنا سیکھتا ہے۔ پھر یہ انہی لوگوں میں سے ہو جاتا ہے جن سے آپ اسے ڈرایا کرتے تھے۔ ”وہاں اچھے لوگ نہیں آتے“۔ میں نے بلیئرڈ صرف اس لئے کھیلی کہ جناح کھیلا کرتے تھے۔ بلیئرڈ کلب میں جانے کی واحد وجہ بری صحبت کے علاوہ بھی کچھ ہو سکتی ہے۔ کسی کو اگر موٹرسائیکل تیز چلانے کا شوق ہو تو بڑے اسے یہی سمجھاتے ہیں کہ کسی حادثے کا شکار ہو جاؤ گے، گلی محلوں میں موٹرسائیکل بھگاؤ گے، برے لوگوں کی صحبت اور وغیرہ وغیرہ۔ کیا معلوم کہ اس نے تیما کلشوف کو دیکھا ہو جس نے چار برس کی عمر میں موٹرسائیکل دوڑا کر کتنے ایوارڈ جیت لئے۔

پچھلے دنوں سعودیہ عرب کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھی جس میں عوام تاش کھیل رہے تھے۔ ایک صاحب نے اس کی ایک نہایت عمدہ وضاحت پیش کی کہ یہاں کے نوجوانوں کو مصروف رکھنے کے لئے اس کھیل کو فروغ دیا جاتا ہے۔ ہمیں بات اچھی لگی۔ ہماری نوجوان نسل کے جتنے بھی بیرونی مشاغل تھے ان کا گلا تو ہم نے اپنے ہی ہاتھوں سے گھونٹ دیا۔ اب فارغ عوام کیا کرے گی؟

اگر ہم ان غیر نصابی سرگرمیوں کی سرپرستی کریں اور عوام کو سہولیات میسر کریں تو ہم ملک میں نئی صنعتیں کھڑی کر سکتے ہیں۔ اور ان مشاغل کا جو مثبت اثر ہمارے بچوں کی ذہنی نشونما پر ہو گا وہ الگ ہے۔ ایک ریس ٹریک گاڑیوں کی پوری صنعت پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسکائی ڈائیونگ کی صنعت ہمارے ہاں سرے سے موجود ہی نہیں۔ بنجی جمپنگ کی صنعت کے لئے ہمارے ہاں پلوں کی کمی نہیں۔ سرفنگ کے لئے ایک سے ایک موزوں ساحل موجود ہے۔ راک کلائمبنگ کے لئے ہمارے پہاڑی سلسلے بھرے پڑے ہیں۔ اسپیڈ بوٹنگ کے لئے بے شمار موزوں پانی موجود ہیں۔ نئی صنعت مطلب نئی ملازمت کے مواقع اور عوام کی مصروفیت کے لئے مشاغل۔
اپنے بچوں کے شوق کو قتل نہ کیجیے۔ ان کی درست سمت میں رہنمائی کیجیے۔ کیا معلوم وہ کل کے بین الاقوامی ستارے ہی ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).