خیبر پختونخوا کا مردان میں ایک مثالی جیل خانہ


اس کے پاس پہنچ کر پوچھا ”بھائی میرے یہ تو 11 بجے کا ٹاۂم ہے اس وقت کی چائے کہاں سے آگئی کیونکہ ہم نے تو یہی سنا تھا کہ جیل میں بس لم سم تین وقت کا کھانا ملتا ہے یہ چائے کہاں سے آئی“ تو مسکرا کہ بولا
”میڈم آئیں اور بیرک کے ساتھ بنی جگہ پہ لے گیا اور کہا ہمارے پاس چائے بنانے کے لیے یہ چولہا نما سیلنڈر ہے اور ہم کسی وقت بھی چائے بنا سکتے ہیں“

حیران پریشان میں آگے بڑھی کہ چلو شاید آگے کوئی ایسا سین آئے گا جس کہ بارے میں سنا تھا تو جب اگلی بیرک میں پہنچے تو دیکھا ایک 17 سال کا لڑکا بستر پر بیٹھ کر کتاب پڑھ رھا تھا، پوچھا کہ
”بھائی میرے یہاں جیل میں سارا دن کیا کرتے ہو“ تو اس نے بتایا
میڈم صبح کے ٹائم کلاس میں پڑھائی اور دوپہر کے کھانے تک اپنے بستر پر بیٹھ کر کتاب پڑھتا ہوں“
اسی بیرک میں تھوڑا آگے بڑھ کر دیکھا ایک لڑکا مل پیک کے خالی ڈبوں سے جائے نماز بنا رھا ہے اور اپنا وقت گزار رھا ہے۔ ان لڑکوں کے لیے بیرک میں ”کیرم بورڈ“ بھی پڑا ہوا تھا کہ فارغ وقت میں وہ کیرم کھیلتے ہیں۔

جو پولیس والے میرے اردگرد چل رھے تھے ان سے پوچھا سر جی جیل والا ماحول کہاں ہے؟ انہوں نے کہا چلیں میڈم خواتین کے بیریکس میں چلتے ہیں۔ میں نے سوچا شاید وہاں کوئی بہت ہی سخت خاتون پولیس آفیسر ہوں گی جنہوں نے ڈانڈا ہاتھ میں پکڑا ہوگا اسی کشمکش میں، میں خواتین اور بچوں کے احاطے میں داخل ہوئی۔

تو میرے ہوش اڑ گے یہ دیکھ کہ کہ دن کے 11بجے کچھ خواتین بستر پر آرام فرما رھی تھیں، کچھ قرآن پاک کی تلاوت میں مصروف تھیں۔ اور سونے پہ سہاگہ جب کچھ کو ریڈیو سنتے دیکھا ان سے پوچھا کہ فارغ وقت میں کیا کرتی ہو تو ایک خاتون قیدی نے بتایا ہے کہ

”بی بی سچ بات یہ ہے اب یہ ہی ہمارا گھر ہے اور یہ سب ہمارے رشتہ دار کیونکہ ہمارے معاشرے میں جب آدمی کو جیل ہوتی ہے تو رشتہ دار ملنے آجاتے ہیں لیکن اگر وہی جرم کوئی عورت کر لے تو سب سے پہلے خاندان والوں کو جیل آتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے۔ تو جب ہم فارغ ہوتے ہیں تو بیرک میں لگا ٹی وی دیکھ کر یا کچھ ہینڈی گرافٹ بنا کر اپنا وقت اچھے سے گزار لیتے ہیں“

مضمون کا بقیہ حصہ پڑھنے کے لئے “اگلا صفحہ” کا بٹن دبائیں

سبا رحمان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

سبا رحمان

سبا رحمان مومند ایک فوٹو جرنلسٹ ہیں اور اور اس وقت پورے فاٹا اور صوبہ خیبر پختنخواہ سے وہ واحد ایک لڑکی فوٹو جرنلسٹ ہیں جو کہ فوٹو جرنلزم جیسے شعبے سے وابستہ ہیں اور انہوں نے اپنی یہ تعلیم نیشنل جیوگرافک کے ہیڈ کواٹر واشنگٹن ڈی سی امریکہ میں ماہر فوٹو جرنلسٹ سے حاصل کی۔ نیشنل جیوگرافک کے ماہر فوٹو جرنلسٹ کے ساتھ پاکستان اور امریکہ دونوں جگہوں پر کام بھی کیا۔ انہوں نے پشاور یونیورسٹی سے شعبہ صحافت میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی اوراپنے صحافتی کیرئیر کا آغاز لندن کے ریڈیو بی بی سی اردو سے کیا۔ وہ آج کل بھی بی بی سی اردو، ٹی آر ٹی ورلڈ اور عرب نیوز کے لیے فری لانس فوٹو جرنلسٹ کے طور پہ کام کرتی ۔

saba-rahman-momand has 5 posts and counting.See all posts by saba-rahman-momand