غفار خان سے جی ایم سید تک


پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کی تاریخ کو پہلے ہی دن سے مسلم لیگ کے نقطہ نظر سے لکھا اور جانچا گیا ہے۔ مسلم لیگ کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے پاکستان بنا تھا۔ اور یہ بات حقیقت بھی ہے۔ جب تحریک پاکستان چل رہی تھی تو اس وقت کچھ ایسی بھی شخصیات تھی جن کا یہ نقطہ نظر تھا کہ ہندوستان کو تقسیم نہیں ہونا چاہیے۔ ہندوستان کی تقسیم سے مسائل پیدا ہوں گے۔ اب پاکستان بن گیا اور وہ لوگ بھی پاکستان کا حصہ بن گئے جو پاکستان بننے کے مخالف تھے۔ وہ جو مسلم لیگ میں شامل نہ تھے بلکہ کانگریس کا حصہ تھے۔

پاکستان بننے کے بعد مسلم لیگ کے لیڈروں نے ایسی شخصیات کے ساتھ بدترین سلوک کیا اور ہمیشہ تنگ نظری کا ثبوت دیا۔ ٹھیک ہے وہ ہندوستان کی تقسیم کے خلاف تھے۔ یہ ان کا نظریہ تھا۔ لیکن جب پاکستان بن گیا تو ایسی شخصیات کے ساتھ نفرت انگیز سلوک نہیں کرنا چاہیے تھا بلکہ رواداری کا ثبوت دینا چاہیے تھا۔ لیکن ایسا نہ کیا گیا، مسلم لیگ کے لیڈروں اور اسٹیبلشمنٹ نے ایسی شخصیات کو کافر، غدار اور ملک دشمن قرار دیا۔

اسی وجہ سے مسائل پیدا ہوئے۔ معلوم نہیں کیوں سازش کا تصور ہمیشہ ہمارے دماغوں میں زندہ و تابندہ رہا ہے۔ یہ ہنود و یہود و نصارا والا تصور ہمیشہ یہاں کے انسان کا سب سے بڑا مسئلہ رہا ہے اور اسی مسئلے کی وجہ سے ہماری شعوری ترقی نہیں ہو پائی۔ ہم بڑے آرام و سکون سے کسی کو بھی یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ کافر ہے، یہ ملک کا دشمن ہے، یہ ایجنٹ ہے، یہ پاکستان مخالف ہے۔ پاکستان بننے کے بعد سب سے پہلے خیبر پختونخواہ کے لیڈر غفار خان اس کا شکار بنے۔ انہیں ملک کادشمن اور غدار قرار دیا گیا۔ یہاں تک کے تاریخ کی کتابوں اور نصاب میں غٖفار خان کا نام تک نہیں۔ تاریخ میں اس شخصیت کا نام لینا گناہ تصور کیا جاتا ہے۔ غفار خان کی بڑی خدمات ہیں۔ پاکستان بننے کے بعد خیبر پختونخواہ میں اس انسان نے خدائی خدمتگار نامی تحریک چلائی تھی۔

اس تحریک کا بنیادی ایجنڈا عدم تشدد کی پالیسی تھی۔ پٹھانوں میں مذہبی انتہا پسندی کا عنصر ختم کرنے کے لئے غفار خان کی خدمات قابل تحسین ہیں۔ اس بندے کی وجہ سے خیبر پختونخواہ کے لاکھوں انسانوں کی ذہنیت بدلی اور ان میں مذہبی ہم آہنگی پیدا ہوئی۔ سیکولر اور لبرل خیالات کی شعوری ترقی ہوئی۔ یہ بہت بڑا کارنامہ ہے۔ لیکن ہماری اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ غفار خان کے خلاف پروپگنڈہ کرایا اور انہیں غدار قرار دیا جاتا رہا۔ ایک ایسا صوبہ جہاں قبائلی نظام تھا، جہاں جنگ و جدل کا سماں تھا۔ جہاں مذہب کے معاملے میں انتہا پسندی کا عنصر تھا، وہاں کے لوگوں کی ذہنیت بدلنا اور انہیں لبرل شعور دینا ایک عظیم کارنامہ تھا۔ لیکن غفار خان کو غدار قرار دیا گیا۔ آج پنجاب کے بچے بچے کو بس یہی معلوم ہے کہ غفار خان ایک غدار تھا، گاندھی کا دوست تھا۔ اور کانگریس کا وفادار تھا۔ حالانکہ پاکستا ن بننے کے بعد غفار خان نے کبھی پاکستان کی مخالفت نہیں کی۔ لیکن انہیں یہ موقع ہی نہیں دیا گیا کہ وہ ملک کے لئے خدمات سرانجام دیتے۔ ہمیشہ انہیں ان کے لبرل نقطہ نظر کی وجہ سے کافر کہا گیا اور یہ سب کچھ اسٹیبلشمنٹ نے سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا گیا۔

دوسری اہم شخصیت جنہیں جی ایم سید کہا جاتا ہے۔ انہیں بھی غدار اور ملک دشمن کہا گیا۔ جی ایم سید ایک اہم سیاستدان اور دانشور تھے۔ مذہبی انتہا پسندی کے خلاف ہمیشہ بولتے رہے۔ سندھ کے عوام میں سیاسی فکر کا شعور بیدار کیا۔ وہ کہتے تھے محمد بن قاسم عمیہ سلطنت کا نمائندہ تھا، وہ سندھ میں اسلام پھیلانے نہیں آیا تھا۔ وہ تو ایک سیاسی سلطنت کے نمائندے کے طور پر آیا تھا۔ حقیقت میں تاریخی اعتبار سے ایک بہت بڑا سچ ہے۔ لیکن اسی بنیاد پر جی ایم سید کو کافر اور غدار قرار دیا گیا اور وہ جو پاکستان کو کافرستان اور قائداعظم کو کافر کہتے تھے وہ ملک کے چاچے مامے بن گئے۔ کیا جماعت اسلامی اور علمائے دیوبند نے پاکستان کو کافرستان اور قائداعظم کو سب سے بڑا کافر نہیں کہا تھا؟ لیکن ہماری ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے ان کو اپنے ساتھ ملایا اور ملاں ملٹری الائنس بناکر ابھی تک پاکستان کا بیڑہ غرق کیا جارہا ہے۔ جی ایم سید کو بھی پاکستان میں مقام نہیں دیا گیا جس کے وہ حقدار تھے۔

اصل بات یہ ہے کہ یہاں اس ملک میں چاروں صوبوں کی روایات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ صرف پنجاب ہی پاکستان نہیں۔ بلوچستان، سندھ، خیبر پختونخواہ اور پنجاب یہ تمام صوبے پاکستان بننے سے پہلے بھی موجود تھے۔ ٹھیک ہے بلوچستان بعد میں صوبہ بنا۔ ان تمام صوبوں کی اپنی اپنی روایات، تہذیب و کلچر ہے۔ ان کو کبھی نہیں سمجھا گیا۔ کبھی یہ کوشش نہیں کی گئی کہ کیسے ان کے درمیان ہم آہنگی پیدا کی جائے۔ ہمیشہ پنجاب کو ہی پاکستان سمجھا گیا۔ ان سب صوبوں میں ایک چیز یکساں ہے۔ ان کے کلچر اور تہذیب کی روایات وادی سندھ سے جاکر ملتی ہیں۔ وادی سندھ کی تہذیب کو ساتھ لے کر ہی پاکستان کی تہذیب و کلچر کو آگے بڑھا جاسکتا ہے۔ لیکن ہم آج بھی عربوں کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔ ہم آج بھی برصغیر کی تہذیب سے دور بھاگتے ہیں اور اپنا رشتہ محمدبن قاسم سے جوڑنے پر بضد ہیں اور یہی پاکستان کی بطور ریاست ناکامی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ یہ جو ہم کہتے رہتے ہیں کہ فلاں کافر ہے، فلاں غدار ہے، ملک کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں۔ یہ سب ہم اپنی کمزوریاں چھپانے کے لئے کرتے ہیں۔ کمزوریاں چھپائی گئی تو بنگلہ دیش بنا۔ جب لوگوں کو بنیادی حقوق نہیں ملیں گے تو وہ کیوں پاکستان کے ساتھ رہیں گے؟

اس کا اظہار پھر علیحدگی کی صورت میں ہوگا اور وہ ہوا اور بنگلہ دیش بن گیا۔ اب آگے بھی ہورہا ہے تو فیڈریشن پھر کمزوری دکھائے گی۔ پاکستان بھی تو اسی وجہ سے بنا کہ ہم مسلمانوں نے کہا ہندوستان میں ہمارے حقوق کی حفاظت نہیں ہورہی، اب بلوچستان میں بھی یہی ہورہا ہے وہ کہتے ہیں ہمارے حقوق نہیں مل رہے؟ یہ ایک حقیقت ہے کہ چھوٹے صوبوں کے حقوق کو دبایا جارہا ہے۔ اس لئے علیحدگی کی تحریک ہے۔ شخصیات کو کسی بھی معاشرے میں ضرور تسلیم کرنا چاہیے۔ ہر شخص کی تعلیمات ایک خاص وقت کی پیداوار ہوتی ہیں۔ غفار خان اور جی ایم سید کو بھی اسی نقطہ نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ زمانہ بدلتا ہے۔ نئے افکار آجاتے ہیں۔ اب پاکستان میں جمہوریت ہے۔ پنجا ب سب سے بڑا صوبہ ہے۔ جمہوریت کے سارے فوائد اب صرف پنجاب کو ہی مل رہے ہیں۔ یہی جی ایم سید کہتے تھے کہ جمہوریت کی وجہ سے پنجاب کو ہی اہمیت ہوگی۔ حکومت اور ریاست میں اہمیت صرف پنجاب کی ہوگی۔ سندھ کی نمائندگی کم ہوگی اس لئے اس صوبے کو حقوق سے محروم رکھا جائے گا۔ اور ایسا کسی حد تک ہورہا ہے۔ صرف بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ مسائل خود بخود حل ہوجاتے ہیں۔

جب لوگوں کو حقوق نہیں ملیں گے تو وہ جمہوریت سے بھی انکاری ہوں گے۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے جمہوری نظام میں چھوٹے صوبوں کے عوام کو حقوق نہیں مل رہے ہیں۔ پاکستان میں ایسے سسٹم کی ضرورت ہے جس سے چھوٹے صوبوں کو ان کے حقوق ملیں۔ اب طاقت اور قوت کے نشے میں چھوٹے صوبوں کے عوام کو دبایا نہیں جاسکتا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ سندھ اور بلوچستان کے عوام کو ان کے حقوق نہیں دیے گئے۔ سندھ کا سب سے بڑا مسئلہ فیوڈلزم ہے۔ سندھ کا سب سے بڑا مسئلہ زرداری ٹولہ ہے۔ کیا کبھی سندھ میں فیوڈلزم کے خاتمے پر توجہ دی گئی۔ اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ ان جاگیرداروں کو استعمال کیا۔ بلوچستان میں قبائلی نظام کے خاتمے پر کبھی بات نہیں کی گئی۔ اس قبائلی نظام کی وجہ سے بلوچستان کے عوام میں محرومی ہے۔ کیا کبھی وفاقی حکومت نے اس طرف قدم بڑھایا؟ بلوچستان، سندھ میں ریاست موثر ہوتی تو آج ان صوبوں میں جاگیرداری اور قبائلی نظام نہ ہوتا۔ حکومتیں ان صوبوں میں روزگار کے لئے کام کرتی، انفراسٹکچر بہتر کرتی تو لوگوں کا ان جاگیرداروں اور سرداروں کے ساتھ رشتہ خودبخود ختم ہوجاتا۔ جب وہاں نوکری سردار دلائے گا، آفس کا کام سردار کروائے گا تو کیسے سردار اور جاگیردار سے عوام جان چھڑاپائیں گے۔

ریاست مظبوط ہو اور لوگوں کے مسائل حل کرے تو سب اچھا ہو لیکن یہاں تو صرف اسٹیبلشمنٹ مضبوط ہو رہی ہے۔ زرداری اور نواز مظبوط ہو رہے ہیں۔ سرداری اور جاگیردارانہ نظام مظبوط ہو رہا ہے۔ ملاں مظبوط ہو رہے ہیں اور عوام صرف تباہ ہورہے ہیں۔ جنوبی پنجاب اور سندھ میں روحانی پیر اور فیوڈلز طاقت ور ہیں۔ ان کی طاقت ختم اس وقت ہوگی جب ریاست عوام کے فلاح و بہبود کے لئے کام کرے گی۔ روحانی پیروں، جاگیرداروں اور سرداروں کا اثر و رسوخ ختم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ پاکستان کو ایسی لبرل سیاسی جماعت کی ضرورت ہے جو چاروں صوبوں کے اندر ہو۔ ایسی سیاسی جماعت جس پر جاگیرداروں اور سرداروں کا قبضہ نہ ہو بلکہ متوسط طبقہ ایسی جماعت کو چلارہا ہو۔ اس وقت تو تمام سیاسی جماعتوں پر سرداروں، جاگیرداروں اور روحانی پیروں کا قبضہ ہے۔

ایسی سیاسی جماعتوں کے ہوتے ہوئے نہ جمہوریت مظبوط ہوگی اور نہ ہی عوام کے مسائل حل ہوں گے۔ صرف اور صرف اسٹیبلشمنٹ طاقتور ہو گی۔ پاکستان کو ایک لبرل سیاسی جماعت کی ضرورت ہے جس کی جڑیں چاروں صوبوں میں ہوں اور جس کے نمائندے متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہوں۔ ایسا ہوگا پھر ہی کہیں جاکر طاقتور جاگیر داروں، سرداروں اور اسٹیبلشمنٹ کی بالادست ختم ہو گی اور لوگوں کو ملاں ملٹری اتحاد سے چھٹکارہ ملے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).