ادھر کاکے پہ کاکا چل رہا ہے


کوئی اسے منی بجٹ کہتا ہے، کوئی اصلاحاتی پیکج کا نام دے رہا ہے، کوئی اس سال کا تیسرابجٹ قرار دے رہ اہے اور کچھ ایسے قنوطی بھی ہیں جواسے ایک اورمہنگائی بم سے تعبیر کر رہے ہیں۔ نام جو بھی دے دیں اس ناہنجاربجٹ نے نتیجہ ایک ہی دینا ہوتا ہے۔ معاشی سرگرمیاں اس پیکج سے روبہ صحت ہو کر کلکاریاں مارتی ہیں اور غیرملکی سرمایہ کاروں کے جم غفیرکے ساتھ دوسرے ملکوں سے ملازمتوں کے حصول کے لیے لوگ جوق درجوق نئے پاکستان کارخ کرتے ہیں یا نہیں مگراس ضمنی بجٹ نے ہمارے ایک دیرینہ قومی منصوبے کے بھرپور انداز میں کامیابی کے بڑے واضح اور روشن امکانات پیدا کر دیے ہیں، جسے دیکھ کر یقینی طور پر بابا رحمتے بھی خوشی سے پھولے نہیں سماتا ہو گا۔

ہم سب پاکستانی بابا رحمتے کا انقلابی اور نہایت ہنگامی دور دیکھ نہیں بلکہ بھگت چکے ہیں جس میں بابے نے سوائے انصاف کی فراہمی کے ہر حکومتی اور انتظامی کام کرنے کی بے ڈھنگی اور اوٹ پٹانگ کوشش کی ہے۔ ان مہم جویانہ اور جنگجویانہ کاموں میں ایک بڑاکارنامہ بڑھتی ہوئی آبادی کے سیلاب بلا خیز کے آگے بند باندھنا بھی شامل تھا۔ بابا تو اپنے مشن میں کامیاب نہ ہو سکا البتہ موجودہ حکومت کے ضمنی بجٹ میں بلا واسطہ طور پر بے تحاشا آبادی پر قابو پانے کی راہ ہموار ہوتی صاف نظر آ رہی ہے۔

افسوس کہ اس سے پہلے والی حکومتوں کے سربراہوں کو ایسے تیربہدف اور دوررس طریقے نہ سوجھے ورنہ آج ملک کی آبادی موجودہ آبادی کا نصف ہوتی۔ ہم وزیر خالی خزانہ و دماغ کو دلی مبارک باد پیش کرتے ہیں کہ جنہوں نے اس بجٹ میں بچوں کے دودھ اور پیمپرزوغیرہ پر ٹیکس لگا کر شادی شدہ خواتین و حضرات کو بچے پیدا نہ کرنے کی ترغیب و تحریص دی ہے۔ ورنہ ہمارے ہاں تو الا ماشا اللہ آبادی میں اضافے کے حوالے سے یہ قابل فخرصورت حال ہے کہ بے شمارگھرانوں کی اپنی ذاتی ٹیمیں بن سکتی ہیں۔ ایسے ہی کسی مجاہد کو شاعرنے یہ مشورہ دیا تھا

آٹھ برس میں بچے دس
بس کر مولا بخشا بس

ہمارے ہاں تقریباً ہر حکومت کی طرف سے خاندانی منصوبہ بندی کے بے شمار پروگرام بغیر کسی منصوبہ بندی کے شروع کیے گئے یہی وجہ ہے کہ اس کے مثبت سے زیادہ منفی نتائج برآمد ہوئے اور آج پاکستان شرح پیدائش کے حوالے سے دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ غالباً پرویز مشرف کے روشن خیال اور ماڈرن دور میں منصوبہ بندی کی تحریک کاعالمی تنظیموں کے تعاون سے بڑی شدومدسے احیا کیا گیا تھا۔ جگہ جگہ چوکوں اورچوراہوں میں سبزستارے والے بڑے بڑے اشتہارات شہریوں کو اس مسئلے کی طرف متوجہ کرنے کے لیے آویزاں کیے جاتے تھے مگریہاں بھی منصوبہ سازوں نے سبزستارے کے ساتھ فلمی ستاروں کی ہوش ربا اور جنسی بھوک کو انگیخت کرنے والی تصویریں لگا کرتمام منصوبے پر پانی پھیر دیا تھا۔

کچھ ستم ظریفوں نے تواس وقت کی خوبرو، جواں سال اورمشرقی حسن کی دیوی عتیقہ اوڈھو کی توبہ شکن تصویریں بھی لگا دی تھیں۔ یہ خاندانی منصوبہ بندی کی ترغیب سے زیادہ آبادی میں اندھادھند اضافے کی کھلی دعوت تھی۔ عتیقہ کی جگہ اگرنعیم الحق، شیخ رشید، راناثنا اللہ اورعامرلیاقت جیسے لوگوں کی تصویریں ان کے مغلظات و خرافات کے ہمراہ آویزاں کی جاتیں توکچھ معقول بات بھی تھی کیونکہ شادی شدہ جوڑے ایسے بچوں کو پیدا کرنے سے پہلے کم ازکم ایک سو بارضرور سوچتے۔

ہمارے مرد مومن مرد حق توایک پکے سچے اور پابند صوم و صلوٰۃ ”امیرالمؤمنین“ تھے جوضبط تولید اور خاندانی منصوبہ بندی کے کسی غیرشرعی طریقے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ آبادی میں کمی کا انہوں نے ایک فوری اور یقینی طریقہ یہ اختیارکیا تھا کہ اپنے نوجوانوں کو اسلامی جہاد کے لیے افغانستان، کشمیر اور دوسرے خطوں میں بھیج دیا تھا۔ اس مشق کا ایک ضمنی فائدہ یہ بھی تھا کہ امریکہ اور دوسرے اتحادیوں سے کروڑوں ڈالرز ملتے تھے۔

جبکہ روشن خیال جنرل نے آبادی کم کرنے کے لیے اپنے شہریوں کی منڈی لگائی تھی۔ موجودہ حکومت کا مجوزہ پروگرام اس لحاظ سے اہم ہے کہ خود کفیل اور مکمل طور پر اپنے پیروں پر کھڑا ہے۔ سپرسانک رفتارسے بڑھنے والی آبادی اگر فاقوں، ناکوں اور دھماکوں سے بچ نکلی توعمران خان اور اسدعمر کے بچھائے اس دام میں ضرور پھنس جائے گی۔ شاعر نے تو شکوہ کیا تھا کہ

ادھر ناکے پہ ناکا چل رہا ہے
ادھر ڈاکے پہ ڈاکا چل رہا ہے

ادھرمنصوبہ بندی کے ہیں چرچے
ادھر کاکے پہ کاکا چل رہا ہے

ہمیں امید ہے کہ بچوں کے دودھ، پیمپرز اور کھلونوں پر ٹیکس لگنے کے بعد شاعر کا یہ شکوہ بھی دور ہو جائے گا۔ ہمارے ایک قومی شاعراس بات پر کف افسوس ملتے دنیا سے رخصت ہوئے کہ اگر فرعون کو کالج کی سوجھ جاتی تووہ بچوں کے قتل عام کے ظالمانہ اقدام سے بچ سکتا تھا تاہم منی بجٹ کو دیکھ کر ہم اس میں اتنی ترمیم کی جسارت ضرورکریں گے کہ اگرفرعون کے پاس ایک عدد اسد عمر ہوتا تو اس کا کام اور بھی آسان اور ارزاں ہو جاتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).