سفر گزشت نہیں، رومان بھرا ناول


کہنے کو شاہد صدیقی نے اپنی تازہ کتاب ”ٹورنٹو، دبئی اور مانچسٹر“ کو اپنے سفری تجربات پر مشتمل تحریریں کہا ہے اسی سے شاید گماں باندھ لیا گیا ہے کہ یہ کتاب تین سفرناموں پر مشتمل ہے۔ یہ وہ دھوکا ہے جس کا اہتمام مصنف نے نہ صرف کتاب کا نام رکھتے ہوئے کیا ہے، اپنے پیش لفظ میں بھی کر رکھا ہے، جہاں وہ یہ کہتے ہوئے ملتے ہیں کہ کتاب میں شامل تحریروں کا تعلق ٹورنٹو، دبئی اور مانچسٹر کے شہروں سے ہے جہاں انہیں جانے اور رہنے کے مواقع ملے۔

کینیڈا کی یونیورسٹی آف ٹورنٹو میں وہ پی ایچ ڈی کرنے گئے تھے۔ وہ چار سال وہاں رہے اور واپس آ گئے۔ واپس آ کر انہوں کے وہاں کے بارے میں کچھ نہ لکھا تھا۔ تین دہائیاں گزرنے کے بعد پھر ٹورنٹو گئے تب بھی ایسا ہی ہوا مگر کچھ برس گزر جانے کے بعد ، جب ان کا اردو ناول ”آدھے ادھورے خواب“ اور دوسری نثری کتب اپنے رومانوی اسلوب کے سبب ادبی حلقوں میں مقبول ہو گئیں تو وہ پیچھے مڑ کر دیکھنے کی طرف راغب ہوئے۔

مانچسٹر تو وہ اس سے بھی کئی برس پہلے گئے تھے ؛ اسی کی دہائی میں، انگریزی میں ماسٹر کرنے۔ دبئی کی حد تک ان کا بیان مانا جاسکتا ہے کہ وہ بہت حد تک سفر نامہ ہو گیا ہے کہ یہ حال ہی کا واقعہ لگتا ہے اور ان کی توجہ کا مرکز وہاں کی عمارتیں، تجارتی مراکز، تفریحی مقامات اور سمندر وغیرہ رہے ہیں۔ یہی سفر ناموں میں ہوتا ہے۔ ٹورنٹو والے حصے میں ایسا نہیں ہوا اور وہ سفر گزشت کی بجائے ایک رپورتاژ ہوا ہے جس میں خود مصنف نے آپ بیتی کے بخیے بھی لگا لیے ہیں۔ مانچسٹر والا حصہ تو ٹھیک ٹھاک ناول ہے جس میں مانچسٹر محض کہانی کا لوکیل ہو گیا ہے۔

میں نے شاہد صدیقی کے اسلوب کو رومانوی کہا ہے تو اس کا سبب یہ ہے کہ وہ تخلیق کے بطن میں ہی اپنا موضوع نصب کر دیتے ہیں اور اس پر جذبوں کی مٹھاس چڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ انہیں پڑھتے ہوئے ان کے اسلوب پر اے حمید کے سے دلکش اسلوب کی چھب پڑتی ہے جو ایسے رومان پسند تھے کہ بہ قول کسے خوابوں کی گداز گود میں سر رکھ کر سو سکتے تھے۔ صدیقی صاحب کے ہاں اس کیفیت میں جست لگانے کو نہ نیند میں جانے کی ضرورت ہے نہ خوب کی چادر اوڑھنے کی کہ وہ اسلام آباد کے کچنار پارک میں لکڑی کے بینچ پر بیٹھے بیٹھے مانچسٹر میں جا سکتے ہیں اور وہ گئے بھی ہیں۔

صدیقی صاحب ایسے رومان پسند ہیں جنہیں بارشوں کے تسلسل سے اکتاہٹ نہیں ہوتی۔ وہ درختوں اور دیواروں پر چڑھی بیلوں سے لے کر کسی کے ہنسنے سے گالوں میں پڑنے والے بھنور اور سانولے چہرے پر چمکتی آنکھوں سے، بلکہ کہوں کہ کسی بھی لمحے میں کسی سے بھی شے سے رومان کا تعلق قائم کر سکتے ہیں۔ تاہم ان کا بیانیہ ایسا ہے کہ وہ اپنا رومان ملفوف رکھتے ہیں ؛ کچھ یوں کہ وہ بظاہر بیان نہیں ہوتا مگر متن کی تہوں کے اندر سے اٹھ کر آپ کو یقین دلا دیتا ہے کہ وہ ہے۔

مانچسٹر والے انیس ٹکڑوں میں بیان کی گئی ایک کہانی، جو راج، پاروتی، جمیلہ، ایشا اور زینب جیسے کرداروں سے متشکل ہوتی ہے اور خود اس کہانی کے راوی کے ملفوف عشق اور رومانوی رویے سے ایک ناول میں ڈھل جاتی ہے۔ کوئی کتاب کے اس حصے کو ناول کہے نہ کہے میں کہوں گا ؛ ایک ”آف کیمپس ناول“ ؛ کیمپس کی کہانی مگر کیمپس سے باہر۔ ان کا پہلا ناول ”آدھے ادھورے خواب“ ناول کی ایسی قسم تھا جسے ”کیمپس ناول یا اکیڈیمک ناول کہا جاتا ہے ؛ جی ایسا ناول جس کی کہانی یونیورسٹی کیمپس میں اور تعلیمی ماحول کے حوالوں سے ہی چلتی اور مکمل ہوتی ہے۔

میں نے صدیقی صاحب کی کہانی کو “ آف کیمپس ناول ”کہا ہے تو اس کا میرے پاس جواز یہ ہے کہ یہ کہانی کیمپس سے باہر کے ماحول کی ہے مگر اس میں کوئی بھی فرد ایسا نہیں ہے جس کا تعلق تعلیمی ماحول سے نہ ہو اور کوئی بھی کردار ایسا نہیں ہے جس نے متن میں ایک بار پھر سے ظاہر ہو کر اپنی کہانی کا دائرہ مکمل نہ کیا ہو۔ راج ہی کو لیجیے جسے راوی نے اپنا منٹور یا ذہن ساز کہا ہے وہ کہانی کے ہر ٹکڑے میں موجود ہے۔ راج سے اپنا تھیسز مکمل کروا کے شملہ کھسک جانے والی پاروتی، جس کی تصویر راج کے دل اور میز پر سجی رہتی تھی، گوا کے ساحل سمندر پر راوی کو مل کر اپنی کہانی کا دائرہ مکمل کرتی ہے۔

راج کی زندگی میں انوکھے واقعے کی صورت، ایک خط اس کے پچن ہول میں ڈال کر سری لنکا کے کولمبو نکل جانے والی لڑکی ایشا پھر سے کہانی کے آخر میں آتی ہے اور کولمبو کے ایک ہوٹل میں پروفیسر راج کے مقابل بیٹھے اپنی روشن آنکھوں اور محبت بھرے دل سے اسے دیکھ رہی ہوتی ہے اور کتاب کا تحفہ پاتی ہے۔ کہانی کا ایک اور کردار جمیلہ کا ہے ؛ لگ بھگ پاروتی کی طرح کا مرکزی کردار ہو جانے والا۔ اداس آنکھوں والی جمیلہ جو اپنی زندگی سے ناخوش ہے مگر جب راج اور صدیقی صاحب کے مقابل ہوتی ہے تو سب بیماریاں اور سارے دکھ بھول جاتی ہے۔

وہ بھی کہانی میں بار بار آتی ہے۔ راج کے یہاں پہلی بار صدیقی صاحب سے ملنے والی جمیلہ کا آخری بار دہلی سے برمنگھم آنا ہوتا ہے تو تردد کر کے مانچسٹر آتی ہے۔ اب وہاں راج نہیں ہے۔ صدیقی صاحب ہی راج کا سا وجود ہو کر کہانی مکمل کرتے ہیں اور بدلے میں سفید اور نیلے منکوں والی تسبیح اور اس کردار سے انوکھے رومان کی قصہ بیانیے کا حصہ بنا دیتے ہیں۔ ایک اور کردار بہاولپور کی زینب ہے۔ یہ جزوی کردار جو مختصر زندگی لے کر آیا تھا، بھی صدیقی صاحب نے سپاٹ نہیں رہنے دیا۔

وہ کہانی میں پہلی اور آخری بار اپنے ڈرامے کے ٹکٹ بیچنے آئی تھی مگر اس کا بہاولپور یوں کہانی کا حصہ ہوتا ہے کہ وہاں صدیقی صاحب اس کی رومان پرور یادوں کو لے کر پہنچ جاتے ہیں۔ زندگی کی سردیوں میں دھوپ کی حرارت ہو کر قیمتی ہو جانے والی۔ تو یوں ہے صاحب! کہ صدیقی صاحب کی کہانی کا ہر کردار ایک جھلک دکھا کر گزر نہیں جاتا اپنے رومان کی کہانی کا دائرہ مکمل کرتا رہا ہے اور یہی قرینہ اس تحریر کو سفر گزشت نہیں رہنے دیتا ایک الگ مزاج کا رومانوی ناول بنا دیتا ہے۔

آخر میں مجھے بس اتنا کہنا ہے کہ شاہد صدیقی کا جادو اثر قلم ایک عام سے واقعے کو خاص بنا سکتا ہے ؛ وہ اپنے اسلوب سے اصناف کی حد بندیوں کو توڑ کر اپنے فن پارے کو لائق توجہ بنا سکتے ہیں۔ وہ مختلف علوم، تعلیم و تعلم اور جامعات کے ماحول کو اپنے رومانی رویے، شگفتہ نثر اور لطف بیان سے ایک دلکش کہانی میں ڈھال سکتے ہیں۔ یہ داستان گوئی کا ایسا ہنر ہے جو ایک عمر تعلیمی اداروں میں گزارنے کے بعد ان کے ہاتھ یوں لگا ہے جیسے اچانک لاٹری نکل آئی ہو۔

ایسا خوش بخت کوئی کوئی ہوتا ہے ؛ اس کا احساس خود شاہد صدیقی کو ہے یہی سبب ہے کہ ہر کتاب کی آمد کے بعد ان کا وجود ایک جشن کی سی کیفیت میں ہوتا ہے ؛ ان کی کتاب سوشل میڈیا پر ہر کہیں نظر آتی ہے اور ہاتھوں ہاتھ لی جا رہی ہوتی ہے۔ اس صدیق اور پر جوش جذبے کے سبب لکھنے پڑھنے والے ہر کہیں ان کی توصیف کرتے نظر آتے ہیں۔

۔
(علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد میں منعقدہ کتاب کی تقریب پذیرائی میں پڑھی گئی تحریر)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).