تبدیلی مسئلے کا حل نہیں


حکومتی وزراء بالخصوص اسد عمر نے قسم اٹھائی ہے حکومت کو اپنی مدت پوری نہیں کرنے دینی۔ ان کے بیانات کی وجہ سے پہلے بھی ڈالر کی قیمت میں یکلخت اضافہ ہوا جس سے ملکی قرض بھی بڑھا اور اسٹاک مارکیٹ بیٹھنے سے سرمایہ کاروں کے اربوں روپے ڈوبے۔ اس کے بعد بھی زبان و بیان کی بے احتیاطی میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ تازہ بیان سماعت فرمائیں! آئی ایم ایف سے رجوع نہ کیا تو ملک کا دیوالیہ نکل جائے گا۔ یہ ارشاد سننے بعد سر کے بال نوچنے کو جی چاہتا ہے۔

اب اگر آئی ایم ایف سے رجوع ہوا بھی تو اس عالمی ساہوکار سے خیر کی کیا توقع ہو گی؟ مہنگائی کی شرح اس سطح پر پہنچنے کی وجہ اس حقیقت سے نظر چرانا ہی تھا۔ مجھ ایسے جہلا بھی اول روز سے چیخ چلا رہے تھے بیل آؤٹ پیکج کے سوا حکومت کے پاس کوئی چارہ نہیں۔ اس ادراک میں اتنی دیر صاف ظاہر کرتی ہے کہ انقلابی حکومت کے معاشی افلاطون کی سمجھ بوجھ معیشیت متعلق کتنی ہے۔

جب سے ہوش سنبھالا، اس طرح کی بد ترین انارکی، سیاسی عدم استحکام اور نا اہل حکومت نہ کبھی دیکھی اور نہ سنی۔ حفیظ اللہ نیازی صاحب درست فرماتے ہیں اکہتر کے بعد یہ سب سے خوفناک بحران ہے۔ نا تجربے کاری اور اناڑی پن میں بھی یہ حکومت اپنی مثال آپ ہے۔ ماضی میں اپوزیشن جماعتیں حکومتوں کی راہ میں روڑے اٹکاتی رہیں، کوئی دن نہیں گزرتا جب خود حکومت اپنے لیے کوئی مسئلہ کھڑا نہیں کرتی۔ دنیا بھر میں اپوزیشن ویٹنگ گورنمنٹ تصور ہوتی ہے۔

تمام درپیش مسائل پر اس کا ہوم ورک مکمل ہوتا ہے، ہر شخص کو علم ہوتا ہے، پارٹی کو حکومت ملی تو میرا یہ قلمدان ہوگا اور اس لحاظ سے اس کی تیاری مکمل۔ درست سو دن حکومت کی کارکردگی جانچنے کو کافی نہیں اور نہ ہتھیلی پر سرسوں جمتا ہے۔ جادو کی چھڑی بھی نہیں جسے گھماتے، پون صدی سے الجھے مسائل سلجھ جائیں۔ کم از کم درست سمت کا انتخاب تو ہوتا، حرکت تیز نہ ہوتی کچھوے کی رفتار سے ہی، مگر دائرے سے باہر تو نکلتی۔ ایک وزیر کچھ کہتا ہے، دوسرے کا بالکل ہی الٹ موقف۔

کون سی حکومت آئی، جس نے کہا ہو جانے والے اس کے لیے آسانیاں چھوڑ گئے۔ یا یہی کہ معیشیت ہمیں مستحکم حالت میں ملی۔ عوام پر اعتماد رہیں گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ کب ہوا کہ خزانہ بھرا ہو اور یہ سنا ہو کہ کار مملکت چلانے میں کوئی دشواری نہیں۔ زیادہ دور نہ جائیں پچھلے تین ادوار دیکھ لیں۔ مشرف دور میں ڈالر کی ریل پیل سے ایسا نقشہ کھینچا جاتا کہ وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔ پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو بتایا گیا کہ معیشیت کی دکھائی گئی تصویر تو فریب نظر تھا۔

حقائق بہت تلخ ہیں۔ دہشتگردی، ڈگمگاتی معیشیت اور عالمی اقتصادی بحران ہمیں ورثے میں ملے ہیں۔ وہ دور گزرا، ن لیگ کی باری آئی۔ عوام کے کانوں میں پھر وہی باتیں اور رام کہانی انڈیلی گئی۔ ساری خرابی کا ملبہ پچھلوں پر ڈالا اور آنے والے دنوں کے لئے امیدوں کی جوت جگا دی۔ اب تحریک انصاف کی حکومت ہے جو تبدیلی کی علمبردار تھی، لیکن سمجھ نہیں آ رہا کون سی نئی بات ہوئی، اور کہاں تبدیلی آئی ہے۔

کیا تحریک انصاف کو حکومت سنبھالنے سے قبل معیشیت کی درست حالت زار کا اندازہ نہیں تھا۔ زر مبادلہ کے ذخائر اور گردشی قرضوں کا حجم ان سے مخفی تھا۔ یہ علم نہیں تھا تیل کی ادائیگیوں، تنخواہوں اور پنشنز کے لیے سرمایا موجود نہیں۔ یہ بات ان سے مخفی تھی کہ دو ماہ کے روزمرہ اخراجات سے بھی قلیل رقم خزانے میں باقی ہے۔ علم نہیں تھا برآمدات اور درآمدات کے درمیان تناسب خطرناک حد پھلانگ چکا، بیرونی قرضوں کے سود کی ادائیگی کے لیے اگلے مالی سال 8 سے 10 ارب ڈالر چاہیے ہوں گے۔

عمران خان کے بارے سب کو علم ہے کہ ان میں زیادہ دور تک سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں مگر، ان کے معاشی افلاطون اسد عمر بھی ان حقائق سے نا بلد تھے۔ کل کی بات ہے یہ وعدے کیے جا رہے تھے کہ اگر ہماری حکومت بنی تو خودکشی کر لیں گے، کشکول نہیں اٹھائیں گے۔ کوئی انہیں سمجھانے یا سمجھنے کی کوشش کرتا حضور! متبادل کیا ہو گا۔ بڑے جوش سے ارشاد ہوتا، ہمارے پاس بہت آپشن موجود ہیں۔ یہی ملک ہو گا اور یہی معیشیت۔ آئی ایم ایف کی بیساکھیوں کے بغیر دوڑ کر دکھائیں گے۔

با اصرار پوچھا جاتا کہ ایسی کون سی گیڈر سنگھی ہے۔ کہہ دیتے عمران خان کی کرشماتی اور ایمان دار شخصیت پر اعتماد۔ لیڈر دیانتدار ہے اور کرپشن کے خلاف اس کا عزم غیر متزلزل جس کے طفیل حکومت بنتے ہی سو دنوں میں نتیجہ سامنے ہو گا۔ کوئی برا وقت آیا بھی تو عالمی اداروں کے سامنے عزت نفس گروی رکھنے اور پچھلوں کی طرح ہر جائز و نا جائز پر تسلیم خم کے بجائے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے رجوع کیا جائے گا۔ جن کے دل وطن کی محبت سے لبریز ہیں اور جو کپتان کی پکار پر سرمایہ و دھن فرش راہ کرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔

عمران خان اور ان کی کمپنی کا پچھلے پانچ سال رونا ہی یہ تھا ملک تباہی کی دلدل میں پھنس چکا۔ انقلابی حکومت کے سوا جہاں سے اس کو کوئی نکال نہیں سکتا۔ گنگا نہائی حکومت آ گئی۔ پہلے آٹھ ماہ کی کارکردگی۔ روپے کی ڈالر کے مقابلے میں بے قدری 43 فیصد سے بھی آگے رواں۔ بجٹ خسارا مسلسل تنوع پذیر۔ گیارہ بارہ ارب ڈالرز کے تازہ سودی قرض کے باوجود ادائیگیوں کا توازن بری طرح متاثر۔ اس عرصہ میں مجموعی طور پر عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں کم ہوئیں، مگر تیل گیس کی قیمتوں میں یہاں ماہانہ بنیادوں پر اضافہ ہوا۔ گیس کی قیمت 140 فیصد بڑھی جس سے صنعتی پیداوار میں نصف کمی آئی۔

ادارہ شماریات، اسٹیٹ بنک اور دیگر ذرائع کی رپورٹس رونگٹے کھڑے کرنے کو کافی، محظ اس قلیل مدت میں مہنگائی اضافہ اور قوت خرید میں کمی پچھلے پورے پانچ سال سے زیادہ۔ ایک کامیابی ملی کہ جنوبی ایشیاء میں غذائی قلت کے باعث مکمل نشونما نہ پا سکنے والے ممالک میں پہلا نمبر ملک عزیز کو حاصل ہو گیا۔ وہ صحافی اور دانشور جو اس مکروہ کھلواڑ میں شریک رہے، اعتراف پر مجبور کہ ان سے انتخاب میں غلطی ہوئی۔

اقتصادی ابتری پر عدلیہ میں بھی بے چینی پنپ چکی۔ چہ میگوئیاں ہیں، اقتدار جن کی جنبش ابرو سے ملا کرتا ہے، وہ بھی پشیماں ہیں اور تبدیلی کی خواہش پھر سر اٹھا رہی ہے۔ مملکت خداداد ایک دستور کی حامل ہے جس کے ابتدائیے میں درج ہے اقتدار اعلی اللہ کی ملکیت ہے اور عوام زمین پر اس کے نمائندے ہونے کے ناطے جسے چاہیں حکمران منتخب کر لیں۔ خلق خدا کی مجموعی بصیرت پر اعتماد کے بجائے مستقبل کا فیصلہ چند ”فیصلہ ساز“ کریں تو پھر یہ حالت اچنبھے کی بات نہیں۔ حکومت کی تبدیلی سے بھی مسائل ختم نہیں ہوں گے، غربت کا خاتمہ اور معاشی احیا ممکن نہیں تاوقتیکہ عوام کو حکومت کے چناؤ میں مکمل آزادی نہیں ملتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).