سوشل میڈیا۔ کم سن کے ہاتھ ہتھیار


کوئی معاشرہ جامد یا غیر متحرک نہیں ہوتا۔ تبدیلی اور تغیر معاشرے کے ارتقا کا لازمی جزو ہے۔ یہ عمل غیر محسوس طریقے سے جاری و ساری رہتا ہے۔ تبدیلی اور تغیر کا عمل مقابلے یا مسابقت کی فضا میں پھلتا پھولتا ہے اور معاشرے کی مثبت اٹھان کا سبب بنتا ہے۔ دنیا کے ہر معاشرے میں خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، دیہی ہو یا شہری، خواندہ ہو یا ناخواندہ، ترقی یافتہ ہو یا غیر ترقی یافتہ، انسانوں کے درمیا ن مسابقت اور مقابلے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ ہر انسان کی ترقی، جدوجہد اور معاشرے میں برتر مقام حاصل کرنے کی جستجو جذبہء مسابقت کی رہین منت ہے۔ مثبت خطوط پر استوار مسابقتی رویہ معاشرے میں ترقی کا ضامن ہے۔ اس کے برعکس مسابقت کا منفی رجحان معاشرے میں متعدد خرابیوں کا باعث بن جاتا ہے۔

موجودہ پاکستانی معاشرہ منفی مسابقت کی بہترین مثال ہے۔ ہر سظح پر مقابلے بازی کی ایک دوڑ ہے، جس میں ادنیٰ اور اعلیٰ کی کوئی تخصیص نہیں۔ علمی شخصیات پر کیچڑ اچھالی جارہی ہوتی ہے تو کبھی ان کی ذات کو ہدف تنقید بنایا جاتا ہے۔ سورج کا موازنہ چراغ سے اور سمندر کا مقابلہ قطرے سے ہو رہا ہے۔ کسی توازن کے بغیر مقابلے بازی کا یہ رجحان دن بہ دن بڑھتا ہی جارہا ہے اور اس منفی رجحان کو فروغ دینے میں ”سوشل میڈیا“ کا کردار کافی اہم ہے۔

گزشتہ دس سالوں میں پاکستان میں سوشل میڈیا کی ترقی میں غیر متوقع اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں تقریباْ بیس ملین صارفین انٹرنیٹ سے منسلک ہیں جو کہ اس کی بارہ فیصد آبادی ہے جو بہت زیادہ ہے۔ پاکستان کے مقابلے میں بھارت مجموعی طور پر کل آبادی کے صرف 5 % لوگ انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق فیس بک پر پانچ ملین سے زائد پاکستانی صارفین ہیں جو فیس بک کے کُل صارفین کی 15 فیصد ہے۔ بی بی سی کی حالیہ ایک تحقیق کے مطابق فیس بک استعمال کرنے والوں میں 67 فیصدنوجوان اور طالب علم ہیں۔ پاکستان میں فیس بک استعمال کرنے والوں کی اوسط عمر 18 سے 24 سال ہے۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی نے دنیا میں محض سائنسی انقلاب ہی برپا نہیں کیا بلکہ انسانوں کا معیار زندگی اور ان کی عادات و اطوار بدلنے میں بھی نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ خاص طور پر سماجی رابطوں (سوشیل میڈیا ) نے دنیا میں پھیلے ہوئے فاصلوں کو سمیٹ کر لوگوں کو ایک اکائی میں تبدیل کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے ایک ارب سے بھی زیادہ افراد اپنا پیغام کسی رکاوٹ کے بغیر لمحے بھر میں ایک دوسرے کو پہنچا سکتے ہیں۔

اس برق رفتار ذریعے نے فاصلے اور دوریاں مٹا کر رکھ دی ہیں۔ افریقہ کے کسی دور دراز علاقے میں بیٹھا کوئی بھی شخص سوشل میڈیا کے ذریعے امریکہ کی آخری ریاست کے کسی دور افتادہ قصبے کے رہائشی کو اپنا نقطہ نظر پہنچانے کے علاوہ تصاویر، دستاویزات اور کسی بھی قسم کے مواد کا تبادلہ کسی دقت کے بغیر کر سکتا ہے، اسے دیکھ سکتا ہے، بات کر سکتا ہے، بحث و مباحثہ کر سکتا ہے یہاں تک کہ اپنی زیر مطالعہ کوئی بھی کتاب اسے پڑھنے کے لئے بھیج سکتا ہے۔

سوشل میڈیا کی اس خصوصیت نے انسان کے فطری جذبہ مسابقت کو ایک نئی جہت عطا کر دی ہے۔ مگر بد قسمتی سے مثبت اور صحت مندانہ رجحانات کے بجائے، اس ذریعے کے تحت منفی اور غیر صحتمندانہ مقابلہ بازی میں معاشرے میں تیزی سے اپنی جگہ بنا رہی ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے علم اور دانش پر مبنی مواد بہت کم افراد تک پہنچ رہا ہے۔ زیادہ تر سطحی اور کم تر خیالات کا تبادلہ ہو رہا ہے۔ عامیانہ اور سطحی سوچ کے حامل افراد سوشل میڈیا کے فوائد و نقصانات کا استعمال اپنی ذہنیت کے مطابق کر رہے ہیں۔

خصوصی طور پر پاکستان میں تو سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں نے اخلاقی گراوٹ کی کئی حدود پار کر لی ہیں۔ اخبارات ہوں یا الیکٹرانک میڈیا سب کے سب معلومات اور اطلاعات کی فراہمی میں تحقیق، حقیقت، سچائی اور جستجو کے پہلو پر خاص توجہ دیتے ہیں۔ غیر معیاری یا غیر مستند یا منافرت آمیز مواد اولاً عوام کے سامنے پیش ہی نہیں کیا جاتا اگر غلطی سے پیش کر بھی دیا جائے تو تصحیح اور درستی کر لی جاتی ہے اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی بھی عمل میں لائی جاتی ہے۔

لیکن سوشل میڈیا ان تمام حدود اور قیود سے آزاد ہے۔ سوشل میڈیا پر کوئی بھی شخص کسی بھی وقت کوئی بھی بے تکا دعوی کر سکتا ہے اور ہم اور آپ اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے۔ دنیا کی سب سے بڑی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹ ”فیس بک“ ہے جسے استعمال کرنے والوں کی تعداد اربوں تک پہنچ چکی ہے اس کے ذریعے سماجی انقلاب لایا جاسکتا ہے۔ اس کے ذریعے ہم لوگوں کے دل و دماغ تک پہنچ سکتے ہیں، اس کے ذہنوں میں جھانک سکتے ہیں۔ ایک مشترکہ سوچ اور مقصد کو پروان چڑھا سکتے ہیں اور اپنے ذاتی مسائل سے لے کر اپنے قومی مسائل تک کا حل تلاش کر سکتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کے کئی شعبوں میں لوگوں کی زندگیا ں بدلنے کی صلاصیت موجود ہے۔

مگر پاکستان کی کہانی قدرے مختلف ہے۔ میڈیا پاکستانیوں کے لئے رائے کا ایک ایسا ذریعے ہے جو اجازت دیتا ہے کہ اپنے مخالف کو گندی سے گندی گالی دیں، کھلے عام دشنام طرازی کریں، اس کے اور اس کے اہل خانہ کے لئے نازیبا الفاظ استعمال کریں، جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں۔ اپنا نام اور اپنی شنا خت بدل کر کسی دوسرے کے نام ہی سے سہی ہمیں اس کی پوری آزادی ہے۔ ہمارے معاشرے میں جہاں شرح خواندگی بہت کم ہے سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کوان پڑھ اور جاہل سمجھنا ممکن نہیں تاہم یہ پڑھے لکھے تعلیم یافتہ افراد سوشل میڈیا کے غلط استعمال سے ایک ایسے رجحان کو جنم دے رہے ہیں۔

جو معاشرے کو مزید تنزلی کی طرف لے جاسکتا ہے۔ دھوکے بازی، فریب اور جعل سازی کے نت نئے طریقے سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آرہے ہیں۔ یہ قول شخصے ”ایک ہجوم اکٹھا ہو رہا ہے جو اپنے اپنے شکار کو ڈھونڈنے کی لگن میں مصروف ہے“ بے معنی، فضول اور نفرت انگیز پیغامات کسی روک ٹوک کے بغیر ایک دوسرے تک پہنچ رہے ہیں۔ سوشل میڈیا ایک ایسنا پلیٹ فارم ہے جہاں حقائق کو توڑ مروڑ کر اپنی مرضی کے مطابق پیش کیے جا سکتے ہیں۔

ایک عام فرد سچ اور جھوٹ، صحیح یا غلط کا فیصلہ نہیں کر سکتا اگر خود اس کی اپنی معلومات بہتر نہ ہوں۔ سوشل میڈیا معاشرے کے اخلاقی معیار اور علم و دانش کا پیمانہ ہے اگر اس کے ذریعے کسی بھی موضوع پر عملی اور فطری گفتگو ہو، دلائل اور براہین ہو اور مثبت بحث و مباحثہ جاری رہے اختلاف رائے براداشت کرنے کی طاقت ہو تو یہ معاشرے کی اصلاح کا ایک موثر ذریعے ثابت ہو سکتا ہے۔ مگر پاکستان میں معاملہ اس کے بر عکس ہے لوگ اصل مسئلے یا موضوع پر کان دھرنے کے بجائے ذاتیات پر اتر آتے ہیں اور اصل موضوع ذاتی چپقلش کی نظرہو جاتا ہے۔

سوشل میڈیا کو اعلیٰ معاشرتی اقدار کا آئینہ بنانے کے لئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ استعمال کرنے والے کی شناخت کا کوئی نظام وضع کیا، مستقبل قریب میں جب کمپیوٹر، موبائل، لیپ ٹاپ ہر گھر کی ضرورت بن جائے گا، ناشائستہ اور غیر اخلاقی تصویری مواد کی آزادانہ ترسیل معاشرے کا سنگین ترین مسئلہ ثابت ہو گی اور اس سیلاب کے آگے بند باندھنا مشکل ہی نہیں، ناممکن ہو گا۔ آزادی رائے بے شک ہمارا حق سہی مگر اس آزادی کا ایسا استعمال جو معاشرے کی اقدار اور روایات کے خلاف ہو، ہماری ضرورت نہیں ہے۔ تحدید و توازن کے بغیر آزادی رائے ایسا ہی ہے جیسے کسی کم سن کے ہاتھ میں کلاشن کو ف تھما دی جائے۔ ہمیں اس اہم ترین معاشرتی مسئلے پر آج سے ہی بے پناہ توجہ دینی کی ضرورت ہے ورنہ کہں ایسا نہ ہو کہ ہمارا شمار دنیا کی ان قوموں میں کیا جائے جو اخلاق و کردار کی پستی کے حوالے سے کافی نیچے ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).