افطار پارٹی۔۔۔ یونہی چلتا رہے گا پاکستان


پاکستان کی اپوزیشن جماعتیں کل افطار پر اکٹھی تھیں مگر روزہ حکومت کا لمبا ہوگیا۔ وزراء اور حکومت کے ہمدردکچکولے لیتے رہے۔ وزیراعظم عمران خان کا غصہ اور بے بسی قابل دید تھی۔ ان کا ارشاد تھا کہ جمہوریت بچانے کے نام پر جمع ہونے والے لوگوں کی وجہ سے ہی ملک آگے نہیں بڑھا۔ یہ الفاظ ان کے اندر بل کھاتے غیظ وغضب کا مکمل اظہار نہیں کر پائے۔ شیخ رشید ویسے تو بہت فصیح و بلیغ ہیں مگر اس بار وہ بھی کم مائیگی کا شکار ہوئے۔ ویسے کہنے کو تو نیب بھی ایک آزاد اور خودمختار ادارہ ہے مگر کل ہی چئیرمین نیب کو پریس کانفرنس کرنا یاد آئی۔ انھوں نے دعوی کیا ہے کہ معیشت اور نیب ساتھ ساتھ چلتے ہیں اور چلتے رہیں گے۔ نیب اور کرپشن ایک ساتھ نہیں چل سکتے۔ ان کا قول زریں ہے کہ جمہوریت احتساب کی وجہ سے نہیں اپنے اعمال کی وجہ سے خطرے میں ہے۔ آج بھی ان کی توپوں کا رخ سیاست دانوں کی طرف تھا اور سیاست دانوں میں بھی ایک خاص تخصیص معلوم ہورہی تھی۔ ان کا ہدف وہ سیاست دان تھے جو افطار پارٹی کے میزبان بھی تھے اور مہمان بھی۔

ادھر والوں یعنی اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ نیب سمیت دیگر ادارے ان کے خلاف ایک ہیں۔ عمران خان دراصل ان اداروں کا وہ چہرہ ہیں جس کو سامنے رکھ کر ملک کو چلایا جارہاہے۔ اسی لئے ملک کا حال یہ کہ اس کی کرنسی دنیا کی بدترین کرنسیوں میں شمار کی جارہی ہے۔ مہنگائی کے آگے جنہوں نے بند باندھنے کی ہمت اور جدوجہد کرنی تھی وہی وزراء کہتے رہے کہ ” چیخیں نکلیں گی ” وزراء تو خیر وزراء ہیں ان کی بساط ہی کیا خود وزیراعظم مانتے ہیں کہ ہاں مہنگائی بھی ہے اور لوگ پریشان بھی ہیں۔ اپوزیشن والوں کا ایک دعوی یہ بھی ہے کہ اگرچہ پاکستان پہلے بھی آئی ایم ایف کے پاس گیا لیکن اس بار تو پاکستان میں آئی ایم ایف والے آئی ایم ایف والوں سے ہی مذاکرات کرتے رہے۔

حکومت کے پاس اپنی اس ناقص کارکردگی کا جواب ہے۔ وہ مہنگائی کا سبب ان غیرملکی قرضوں کو قرار دیتے ہیں جو پچھلی حکومتیں اب تک لیتی رہی ہیں۔ وزیراعظم اس کی بار بار وضاحت عوامی جلسوں میں کرتے رہتے ہیں۔ لیکن لطیفہ یہ ہورہا ہے کہ وہ خود وہی کام کررہے ہیں جس کا الزام وہ ماضی کی حکومتوں کو دے رہے ہیں یعنی خود بھی قرض خوری فرما رہے ہیں۔ حالانکہ قرض لینے سے متعلق عمران خان ماضی قریب میں بڑے بڑے دعوے کرتے رہے ہیں۔

قصور عمران خان کا بھی نہیں ہے۔ ان کو جس کام کے لئے منتخب کیا گیا ہے وہ کام انہیں کبھی آتا تھا اور نہ ہی کبھی آیا۔ انہوں نے زندگی کا ایک بڑا حصہ کرکٹ کھیلی اورکھلاڑیوں والی بھرپورزندگی گزاری۔ اس گزری ہوئی زندگی کے سائے ابھی تک ان کے تعاقب میں ہیں۔ کرکٹ چھوڑی تو فلاحی کام میں جت گئے۔ ان کی شخصیت کا کمال تھا کہ لوگوں نے چندہ دے دیا۔ شوکت خانم ہسپتال کامیابی سے چل رہا ہے تواس کی وجہ اس کے انتظامی ڈھانچے میں مضمر ہے۔ یہ انتظامی ڈھانچہ رزاق داؤد نے بنایا تھا۔ ہسپتال کے بعد انہوں نے پورے بائیس سال صرف الزامات کی ایک کیسٹ چلائے رکھی۔

پاکستان کی سیاست چہروں کے اعتبار سے یکسانیت کا شکار تھی مگر سیاسی نظام وقت کے ساتھ ساتھ میچور ہورہا تھا۔ میچور ہوتا ہوا سیاسی نظام کچھ قوتوں کے لئے ایسا ہی ہے جیسے کسی کے بھرے پرے گھر کی طرف بڑھتی ہوئی آگ۔ یہی جو کچھ قوتیں ہیں یہی حاوی بھی ہیں اور یہی حکمران بھی مگر فطری مجبوری یہ ہے کہ یہ قوتیں مجسم نہیں ہوتیں۔ ریاستی، دستوری اور قانونی ترکیب کے تحت ان قوتوں کا قائم ہونے والا وجود اوران کی ہیت براہ راست حکومت کرنے کی اہلیت سے محروم رکھتی ہے۔ اس لئےمجبوری میں انہوں نے ملک کا نظام ونسق چلانے کے لئے کچھ گروہوں کو منتخب کیا ہوتا ہے۔ ان گروہوں کے ذریعے ملک کا نظام ونسق یوں چلایا جاتا ہے کہ ریاست کے وسائل اور دولت کا براہ راست فائدہ ان قوتوں میں شامل افراداور ان کے خاندانوں کو ہو۔ ملک کے معاشی حالات جیسے بھی ہوں۔ ان قوتوں کے دسترخوان کبھی سکڑتے ہیں اور نہ ہی ان کے وسائل میں کمی آتی ہے۔

خاکم بدہن ڈالر ڈھائی سو کا بھی ہوگیا اور پٹرول ایک ہزار روپے لیٹر تب بھی ان کی گاڑیاں یونہی فراٹے بھریں گی اور ان کی آبادیوں میں آسودگی یونہی قائم رہے گی۔ ان کے گھروں کے باہر شاہرائیں ایسے ہی شیشے کی طرح چمکتی دمکتی رہیں گی۔ یقین مانئے پچھلے ستر سالوں میں ان قوتوں کےجاہ وجلال اور عشرت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ ان قوتوں نے کبھی بھٹو سے کام لیا کبھی بے نظیر سے کام چلایا تو کبھی نوازشریف ان قوتوں کے زور پر اسی طرح “لوشے ” لیتے رہے جیسے اب عمران خان لے رہے ہیں۔

 کل کی افطار پارٹی رمضان کے بعد احتجاج کے منصوبے یہ سب صرف پارٹی بدلنے کے لئے ہیں۔ اگر عمران خان ان قوتوں کے ہرطرح کے مفادات کا تحفظ نہ کرسکے یا کل کلاں کو ان قوتوں کے مفادات کے لئے خطرہ بن گئے تو انہی موجودہ گروہوں میں سے کوئی اور جماعت سامنے آجائے گی، ریاست کے تحفظ کے نام پر، جمہوریت کی بقا کے لئے، نظام کی تبدیلی کے نام۔ یونہی چل رہا ہے یونہی چلتا رہے گا پاکستان


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).