جو چاہے آپ کا حسنِ کرشمہ ساز کرے


بس شدّتِ کرب سے الفاظ بھی مر جاتے ہیں۔ میرا تعلق وطنِ عزیز کے دورافتادہ ترین خطہ بے آئین گلگت بلتستان کے ایک ضلع دامنِ سیاچن کے گانچھے سے ہے اور جب ہم بذریعہِ سڑک سفر کرتے ہیں اور دورانِ سفر روڈ بلاک ہوں اور کئی گھنٹے بعض اوقات کئی دنوں تک گاڑی میں ہی پھنسے رہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں تو ایسے میں اگر فیملی، بہو بیٹیاں اور مخدرات ساتھ ہوں تو خواتین کی تکلیف اور ان کے لئے سفری زحمت کا سوچ کر انتہائی ذہنی کرب میں مبتلا ہو جاتے ہیں، حالانکہ یہ یقین ہوتا ہے ان مخدرات کے لئے سفری زحمت اور منزلِ مقصود سے دوری کی تکلیف کے علاوہ اور کوئی پریشانی نہیں۔

الحمدللہ عزتین محفوظ ہیں، جان جانے کا کوئی خطرہ نہیں۔ تھوڑی بہت گرانی کے علاوہ کھانے پینے کی چیزیں ملنے میں کوئی قابلِ ذکر دقت نہیں۔ صاف پانی مہیا ہے، بس صرف روڈ بلاک ہونے کی وجہ سے ذہنی کوفت اور کرب کے سوا کوئی پریشانی نہیں۔ تو عزت مآب وزیرِ اعظم صاحب مقبوضہ کشمیر کے مظلوم و محکوم و پا برہنہ مسلمان اور ہماری مائیں، بہنیں، بہو بیٹیاں، پیر و جوان، خورد و کلاں اور ہر طبقہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ تئیس دنوں سے محاصرے میں ہیں اور ہر طرح کے ذرائع انڈیا کی ظالم و سفاک حکومت نے بلیک آوٹ کر رکھے ہیں جبکہ سورج ڈھلتے ہی ہر باپ کو خود سے زیادہ بیٹی کی فکر، ہر بھائی کو بہن کی اور ہر غیرتمند انسان کو اپنی بہو بیٹیوں کی فکر دامنگیر رہتی ہے۔ ایسے میں آپ کا صرف یہ کہنا کہ ”ہفتے میں ایک روز آدھے گھنٹے کے لئے مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے طور پہ اپنا کام کاج چھوڑ کے کھڑے رہیں۔“

حیف و صد افسوس ہے آپ کی اس بیان پر۔ وہ تو ہم عرصہِ دراز سے ان کے ساتھ کھڑے ہیں، اس سے کیا مسئلے حل ہوں گے؟ کیا کشمیر آزاد ہوگا؟ کیا ان مظلوم و محکوم بہو بیٹیوں اور بہنوں کی عزتیں محفوظ رہیں گی؟ واہ وزیرِ اعظم صاحب واہ۔ ادھر ان کی عزتیں محفوظ نہیں ہیں اور آپ صرف اظہارِ یکجہتی اور کھڑے رہنے کی بات کر رہے ہیں۔ دیکھیں ایک مسلمان کے لئے تین مرحلوں پہ بنا کسی سمجھوتے کے جان قربان کرنا از نظرِ قرآن و اسلام و شریعت و عقیدہ عینِ دین و شریعت و اسلام و عقیدہ کے باعثِ افتخار ہے۔

دین، وطن اور عزت و ناموس۔ اسوقت مقبوضہ کشمیر میں یہ تینوں اکٹھے ہو چکے ہیں۔ دین بھی، وطن بھی اور عزت وناموس بھی۔ نہ ادھر کے مظلوم مسلمان آزادی سے دین پہ عمل کر پارہے ہیں نہ شہید ہونے کی صورت میں پاکستان کے سبز ہلالی پرچم میں لپٹے تدفین کی وصیت کرنے والوں کا وطن محفوظ ہے اور نہ ان کی عزت و ناموس۔ یہی وقت ہے انڈیا کو سبق سکھانے کا نہیں تو وقت تیزی سے ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے اور ہم ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔

بہرحال آپ کی آج کے خطاب نے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا اور میں بس اتنا کہوں گا۔ باپ بیٹی کے تحفظ میں سرِ راہ چل بسا۔ لوگ یوں خاموش ہیں جیسے ہوا کچھ بھی نہیں۔ اور احقر ذاتی طور پر وطنِ عزیز کے لئے اور ان مظلوم و محکوم مسلمانوں کے لئے کسی بھی قربانی کے لئے الحمد للہ تیار ہے اور ہم اس معاملے میں کسی بھی حد تک جانے سے دریغ نہیں کریں گے، انشاءاللہ۔ کیونکہ ہمارا تعلق اس قبیلے سے ہے کہ ہم نے کربلا میں حسین ابن علی علیہ السلام سے درسِ شہادت لیا ہے تو علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے خیبر میں فتح کا تاج بھی پہنا ہے۔ الحمد للہ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).