نیک دل طوائفیں اور زندگی بھگتنے والا بابا


پانچ ستمبر دوہزار انیس بروز جمعرات پانچ محرم الحرام۔ ہمیں حکم ملا کہ اس بار محرم ڈیوٹی کے لیے ہمیں ساہیوال جانا ہے۔ میں نے بھی باقی ساتھیوں کی طرح اپنا چھوٹا موٹا ضرورت کا سامان پیک کرلیا۔ دن تین بجے ہم سرکاری بسوں پر سوار پولیس ٹریننگ کالج لاہور سے محرم ڈیوٹی کے لیے ضلع ساہیوال کی طرف روانہ ہوئے۔ لگ بھگ اڑھائی گھنٹے کا مسلسل سفر طے کرنے کے بعد ہم ڈسٹرکٹ پولیس لائن ساہیوال کے روزنامچہ پر پہنچ چکے تھے۔

پولیس لائن میں محرر کا رویہ انتہائی شفیق اور برادرانہ تھا۔ محرر لائن سے مل کر بہت خوشی ہوئی اس نے ایک پرخلوص میزبان کی طرح ہمیں خوش أمدید کہا۔ تھوڑے ہی وقفے کے بعد ہم چھتیس جوانوں کو ضلع ساہیوال کے مختلف تھانہ جات میں تقسیم کردیا گیا۔ میرا اور میرے أٹھ ساتھیوں کا قرعہ تھانہ سٹی میں نکلا چند لمحوں بعد تھانہ سٹی کی موبائل ون ہمیں لینے کے لیے پہنچ گئی۔ ہم نے اپنے بیگ گاڑی میں رکھے اورتقریباً دس منٹ بعد ہم تھانہ سٹی ساہیوال میں پہنچ گئے جہاں نائب محرر تھانہ سٹی نے انتہائی محبت سے ہمارا استقبال کیا۔

رہائش کا گرچہ مناسب انتظام نہ تھا لیکن تھانہ کی بلڈنگ اور صفائی ستھرائی بہترین تھی۔ کھانا تو ملا لیکن پیٹ بھرنے والی ہی بات تھی۔ بہرحال گزارا تو کرنا ہی تھا۔ محکمہ پولیس میں ملازمان کے لیے محرم ڈیوٹی، الیکشن ڈیوٹی، اور وی وی أئیپیز ڈیوٹی بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔ جیسے بھی حالات ہوں کھانا کھایا ہو نہ کھایا ہو سونے کے لیے مناسب ماحول ملا ہو نہ ملا ہو ان ڈیوٹیز سے أپ انکار نہیں کر سکتے لہذا ہم بھی ”مرتے کیا نہ کرتے“ وردیاں پہن کر مجلس ڈیوٹی کے لیے تیار ہوگئے۔

یہ امام بارگاہ قصربتول تھی جہاں شام سات بجے سے رات ایک بجے تک مجالس اور جلوس کا انعقاد کیا جاتا۔ أج ہماری پہلی مجلس ڈیوٹی تھی۔ ہم نے امام بارگاہ قصربتول کو چاروں طرف سے کارڈن کرلیا۔ میری ڈیوٹی عقب امام بارگاہ ایک تنگ گلی میں تھی۔ ملحقہ بازارتو بند تھا لیکن کچھ دکانیں کھلی بھی تھیں۔ ایک پھولوں والی دکان تھی ایک چائے کا ہوٹل اور ایک چڑی بھنہ تکہ شاپ۔ عقب امام بارگاہ سے صرف ان خواتین اور بچوں کو گزرنے کی اجازت تھی جو مجلس میں شمولیت کے لیے ادھر أرہے تھے۔

امام بارگاہ کے اندر ذاکرصاحبان اپنے مخصوص انداز میں شان اہل بیعت بیان فرما رہے تھے۔ ماحول بڑا پُرسوز اور ماتمی سا بنا ہوا تھا۔ میں بھی ایک بجھتے دیے سے اٹھتے کڑوے دھویں کی سی اور عجیب طرح کی کیفیت میں مبتلإ أتے جاتے لوگوں کو بغور دیکھ رہا تھا۔ خواتین کی تلاشی کے لیے زنانہ پولیس اور مرد حضرات کی تلاشی کے لیے مومنین خود فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ ذاکرین کی أہ پکار سن کر میرے تصورات میں شہدإ کربلا کے حالات کا نقشہ کھنچا چلا جارہا تھا۔

شاید میں کربلا کی کیفیت میں مبتلا تھا میری پلکوں پہ بھی نمی کے ریلے محو رقص تھے۔ مجھے یہ بھی پریشانی لاحق تھی کہ أٹھ دس گھنٹے مسلسل کھڑا رہنے کے بعد جب مجھے سونے کے لیے مناسب ماحول نہیں ملے گا تو رات کیسے گزرے گی۔ میری أنکھوں کے سامنے ہمارے أرام کے لیے تھانے کی چھت پہ بچھا قالین بھی أرہا تھا۔ بہرحال میں سہما سہما سا کئی طرح کے خیالوں کی گتھیاں سلجھا رہا تھا کہ اچانک میری نظر ایک ادھیڑ عمر باباجی پر پڑی جن کے ہاتھ میں مختلف رنگ او سائز کے غبارے پکڑے ہوئے تھے۔

میں نے باباجی کو أواز دی اور قریب أنے پر پوچھا باباجی رات کے اس پہر أپ یہاں کیا کررہے ہیں؟ أپ تو مجھے ماتمی بھی نہیں لگ رہے۔ ادھر کیوں أئے ہیں أپ؟ تو بابا جی نے کہا ”پتر زندگی بھگت رہا ہوں“۔ زندگی بھگت رہا ہوں سے کیا مراد ہے بابا جی۔ باباجی نے میلی کچیلی موٹے شیشوں والی نظر کی عینک کو بائیں ہاتھ سے ہلا کردرست کرتے ہوئے کہا۔ ”پتر یہ بات سمجھنے کی ابھی تیری عمر نہیں۔ “ کوئی فلسفیانہ بات کرے اور میں اس کے ساتھ طویل گپ شپ نہ کروں ایسا تو ہوہی نہیں سکتا۔

میں نے باباجی کی مکمل تلاشی کی غباروں والا تھیلا بھی کھول کر دیکھا باباجی کے پاس شناختی کارڈ بھی موجود تھا۔ شناختی کارڈ پر باباجی کا مستقل پتہ ملتان کا درج تھا۔ میں نے چڑی بھنہ تکہ کباب والی دکان کے ویٹر کو اشارہ کیا تو وہ ایک کرسی لے أیا۔ میں نے باباجی کو کرسی پربٹھایا۔ بابا جی کے پھٹے پیوند لگے کپڑے میلی پگڑی پھٹا ہوا چمڑے کا کھسہ دیکھ کر میرا دل چاہا کہ باباجی کو ان کا من پسند کھانا کھلایا جائے۔

میں نے باباجی سے پوچھا باباجی کیا کھائیں گے؟ أج أپ میرے مہمان ہیں۔ تکے کباب اور چرغہ بولیں کیا منگواٶں۔ باباجی بولے پتر میں نے پچھلے چاردن سے کھانا نہیں کھایا اور ابھی پتہ نہیں کتنے مزید نہ کھا سکوں۔ میں حیران ہوا۔ میں نے کہا باباجی پھر تو أپ کو کھانا کھانا ہی پڑے گا۔ وہ بولے بیٹا نہیں کھا سکتا میرے معدے پر سوجن ہے مجھے بوتلیں لگ رہی ہیں میں صرف دلیہ ہی کھا سکتا ہوں۔ میری حیرت میں مزید اضافہ ہوگیا۔

میں نے کہا بابا جی أپ اس قدر بیمار ہونے کے باوجود رات کے اس پہر غبارے بیچ رہے ہیں۔ تو وہ کہنے لگے پتر بتایا تو ہے میں زندگی بھگت رہا ہوں۔ أٹھ بیٹیوں کا ساتھ ہے ایک بیٹا ہے جو نویں جماعت میں پڑھتا ہے۔ میں نے کہا باباجی اتنا بڑا گھرانہ تو غبارے بیچ کر کیسے گزارا ہوتا ہے۔ کہنے لگے پتراللہ کا نظام بھلا رک سکتا ہے۔ بہت دنیا ہے بڑے لوگ ہیں جو مجھ سے اپنے بچوں کے لیے غبارے لیتے ہیں اور ہزار پانچ سو دے کر بقایا نہیں لیتے۔

بس شکر ہے مالک کا جس حال میں رکھے جینا تو بہرحال ہے نا۔ بیٹا أج سے کچھ سال پہلے میں بھی تیری طرح گھبروجوان تھا تیری طرح ہی نوکیلی مونچھیں تھیں میری اور میں ملتان غلہ منڈی میں پلے داری کیا کرتا تھا۔ بڑا پھرتیلا پلے دار تھا میں۔ گھربھی ہمارا اپنا تھابس ایک دن میں گندم کی بھری بوریاں ٹرک سے اتار رہا تھا کہ اچانک بہت ساری بوریاں میرے اوپر أگری اور میرے دونوں اطراف کی پسلیاں ٹوٹ گئیں۔ بھلا ہو غلہ منڈی کے لوگوں کا جنھوں نے چند ہزار جمع کرکے مجھے ہسپتال داخل کروایا۔

میری مدد کی مگر غریب پلے داروں کے جمع کیے سوسو پچاس پچاس کب تک چلتے بیٹا وہ پیسے میرے علاج کے لیے ناکافی تھے۔ مجھے تو زندگی بھر کا روگ لگ چکاتھا عمر کا تقاضا تھا میری صحت مکمل نہ سنبھل سکی۔ مجبوراً مجھے اپنا پانچ مرلے کا مکان بیچنا پڑا میں تو کسی حد تک ٹھیک ہوگیا مگر میری بیٹیوں کے سر سے چھت جاتی رہی۔ اہل محلہ اور کچھ دوست میری مدد کرتے رہے مگر جب محلے کے لوگوں دوستوں اور رشتہ داروں نے ہمیں بوجھ سمجھنا شروع کردیا تو ہم ہجرت کرکے ساہیوال أگئے۔

اب یہ ساہیوال کاسارا بازار مجھے جانتا ہے۔ دودن غبارے بیچنے نہ آؤں تو یہ بھلے لوگ میرا پتہ کرنے میرے گھر چلے أتے ہیں۔ مجھے تو بہت سہارا دیتے ہیں یہ لوگ۔ بیٹا یہ ساتھ ایک محلہ ہے اسے لوگ کنجرمحلہ کہتے ہیں مگر ان کنجریوں نے مجھے میرے رشتہ داروں سے بڑھ کر سنبھالا۔ باباجی کی بات سن کر مجھے باباجی کی بیٹیوں کا خیال أیا کہ کہیں وہ تواس محلے کی نذر نہیں ہو گئیں اس بارے پوچھنے کا ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ باباجی بولے میری چھ بیٹیاں اللہ کے فضل سے اور ان بازار والوں کی مہربانی سے بیاہی جا چکی ہیں سب کی شادیاں میں نے ملتان اپنے رشتہ داروں میں کی ہیں۔

دو ابھی بہت چھوٹی ہیں۔ ایک ساتویں میں پڑھتی ہے ایک گیارہویں میں۔ اللہ ان کے نصیب بھی چنگے کرے گا انشإاللہ۔ میں نے بھی کہا جی باباجی انشإاللہ۔ مجھے لگا باباجی اسی محلے میں یا کہیں أس پاس ہی رہتے ہوں گے۔ مگر باباجی نے بتایا وہ شہر سے باہر کسی گاٶں میں رہتے ہیں کوئی سات کلومیٹر دور اور وہ سات کلومیٹر باباجی روزانہ پیدل ہی طے کرتے تھے۔ اب میں اپنے لیے تھانے کی چھت پہ بچھے قالین کے بارے یا اس دال کے بارے نہیں بلکہ باباجی کی مشکل ترین زندگی تکالیف اور باباجی کے صبر کے بارے سوچ رہا تھا۔

اب میں ان بھکاریوں کے بارے سوچ رہا تھا جو صحت مند تندرست ہونے کے باوجود اپاہج بن کر بھیک مانگتے ہیں۔ اب میں ان والدین کے بارے سوچ رہا تھا جو اپنی عیاشی اور سہولت کی خاطر اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو ورکشاپس فیکٹریوں میں مزدوری کرنے بھیجتے ہیں۔ اب میں ان کرپٹ عناصر کے بارے سوچ رہا تھا جو دولت عزت جاہ جلال منصب ہونے کے باوجود انسانیت کے لیے گالی بن کر زندگی گزارتے ہیں۔ اب میں اس محلے کی ان طوائفوں کے بارے سوچ رہا تھا جو اپنا جسم بیچ کر باباجی کے خاندان کے لیے مسیحا بنی ہوئی تھیں۔ غبارے والا بابازندگی تو بھگت رہا تھا لیکن ہزاروں تکالیف بیماریوں محرومیوں اور مصائب کے باوجود صبر کی تلقین کررہا تھا۔ وہ بابامجھے اللہ کی رضا پہ راضی رہنے کی تلقین کرہا تھا۔ باباجی سے ملاقات کے بعد اب مجھے کھانا رہائش نہ ملنے کا کوئی افسوس نہ تھا بلکہ شکرانے کے الفاظ میری زبان پہ جاری تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).