پاکستان کو شدید ماحولیاتی مسائل کا سامنا ہے


آج پاکستان میں ہر جگہ چاہے وہ اخبارات میں ٹی وی پروگرام یاقومی اور صوبائی سیاست پاکستان کی مالی مشکلات کا ذکر ہر جگہ سننے کو ملتا ہے لیکن پاکستان کو درپیش سنگین ماحولیات کا مسائل پہ زیادہ تر بات نہیں کی جاتی، جنگلات کا کم ہونا فضائی آلودگی زہریلا پانی موسم کا تبدیل ہونا پانی کی کمی قدرتی آفات زمین کا بنجر ہونا زرعی ادویات کا اندھا دھند استعمال اور اس طرح کے دوسرے مسائل جو بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ مزید گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں۔

ان کے حل کے لئے چند این جی اوز اور سرکاری اداروں نے تھوڑی بہت کوشش کی ہے لیکن معیشت کی بحالی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو فوقیت نے اس کی جگہ لے لی۔ پاکستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ زراعت سے وابستہ ہے اور اسی طرح ماہی گیری بھی معیشت میں اہم حصہ دار ہے یہ دونوں اہم شعبے قدرتی وسائل سے جڑے ہیں ورلڈ بنک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی 70 فیصد آبادی دیہات میں رہتی ہے جو زیادہ ترپہلے ہی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔

ان کے روز گار کا انحصار قدرتی وسائل پر ہے۔ اقتصادی ترقی کرنے کے لئے قدرتی وسائل کا بے دریغ استعمال مستقبل میں بد سے بدتر صورتحال اختیار کر جائے گا۔ 2013 کی ورلڈ بنک کی رپورٹ میں پاکستان کو درپیش سنگین ماحولیاتی مسائل جن میں سموگ، فضائی آلودگی، پینے کے لئے صاف پانی کا نہ ہونا، صوتی آلودگی، زہریلی خوراک اور اس جیسے دیگر ماحولیاتی مسائل نہ صرف لوگوں کی صحت کے لئے نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں بلکہ معاشی ترقی میں بھی رکاوٹ ہیں۔

پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو پانی کی شدید کمی کا شکار ہونے جا رہے ہیں۔ صرف ایک بڑا دریا دریائے سندھ جو پنجاب کے میدانوں سے لے کر سندھ کی زرعی زمینوں تک پانی فراہم کرتا ہے باقی ملک میں میٹھے پانی تک رسائی نسبتا کم ہے پانی کی کمی صرف معیشت کے لئے ہی خطرہ نہیں بلکہ کروڑوں لوگوں کی زندگیوں کا سوال ہے۔ پانی کی آلودگی یا زہریلا پانی اس صورتحال کو اور بھی خطرناک بناتے ہیں صنعتی فضلہ جو دریاؤں نالوں اور جھیلوں میں پھینک دیا جاتا ہے۔

غیر قدرتی کھادوں کا فصلوں میں زیادہ استعمال سیوریج کے پانی کو بغیر فلٹر کیے نہروں دریاؤں میں ڈالنا اور پرانی پائپ لائن جن سے پانی کو گھروں تک پہنچایا جاتا ہے انسانی صحت کے لئے خطرناک ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر بیماریاں بالواسطہ یا بلا واسطہ آلودہ پانی سے جڑی ہیں۔ 45 فیصد نوزائیدہ بچے ڈائریا اور تقریبا 60 فیصد بچے دوسری پانی سے جڑی بیماریوں کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ پاکستان کے بڑے شہر جیسے کراچی لاہور اسلام آباد راولپنڈی فضائی آلودگی اور صوتی آلودگی کا سامنا کر رہے ہیں، اس کی بڑی وجہ بسیں رکشے ٹرک اور کاریں ہیں۔ ایک تحقیق بتاتی ہے کہ کراچی کی سٹرکوں پر صوتی آلودگی یا شور کی سطح 90 سے 110 ڈیسیبل ہے جو کے بین الاقوامی معیار 70 ڈیسیبل سے زیادہ ہے جس کی وجہ سے نیند میں پریشانی نفسیاتی مسائل اور دل کی بیماریاں تک بڑھ جاتی ہے عوامی شکایات کے باوجود صوبائی یا قومی سطح پر کوئی حکمت عملی نہیں اپنائی گئی، گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں پاکستان کا حصہ اگرچہ بہت کم ہے لیکن اس کے باوجود ان ممالک میں شامل ہیں جو موسمیاتی تبدیلیوں میں سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ کبھی سیلاب کی صورت میں مالی اور جانی نقصان اور کبھی خشک سالی سے زراعت متاثر جس کا سیدھا نقصان معیشت کا ہوتا ہے۔

ایک سروے میں لوگوں سے اس بارے جب پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ پچھلے 10 برس کے دوران موسم میں تیزی سے تبدیلی ہوئی ہے موسم شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں لیکن زیادہ تر کو یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ کیوں ہو رہا ہے اور اس کی وجوہات کیا ہیں۔ پاکستان کو مختلف موسموں کی وجہ سے قدرتی آفات کا سامنا بھی ہے سندھ اور پنجاب نشیب کی وجہ سے سیلاب کی زد میں ہیں گلگت بلتستان بلوچستان آزاد کشمیر جو فالٹ لائن پر ہیں خطر ناک زلزلے کی زد میں رہے ہیں اور بھی آ سکتے ہیں جس کی چند مثالیں 1950 میں سیلاب کی وجہ سے 29 سو لوگ جاں بحق ہوئے 90 ہزار بے گھر ہوئے 1974 میں ہنزہ کے زلزلے میں 53 سو اور 2005 کے کشمیر زلزلے میں 73 ہزار لوگ جاں بحق اور 15 لاکھ متاثرہوئے 2010 کے سیلاب میں 2 کروڑ لوگ متاثر ہوئے۔

سابق حکومتوں کی ماحولیاتی تبدیلیوں کی طرف توجہ نہ ہونے کے برابر رہی صرف 0.04 فیصد ترقیاتی بجٹ سے اس مقصد کے لئے رکھا گیا پچھلے دور حکومت میں خیبر پختون خواہ حکومت نے بلین ٹری سونامی منصوبہ شروع کیا گیا جو قابل ستائش ہے اور اب مرکز میں بھی، چونکہ ان کی حکومت ہے تو وزیر اعظم نے یہ اعلان کیا ہے کہ پانچ سالوں میں قومی سطح پر 10 ارب درخت لگائے جائیں گے لیکن یہ صرف پہلا اقدام ہو گا۔ ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے میٹھے پانی کو محفوظ کرنے کے لئے مزید ڈیم بنانے ہوں گے زہریلے پانی کو فلٹر کر کے کھیت اور نہروں میں چھوڑنا ہو گا تاکہ لوگوں کو صاف ستھری خوراک مل سکے اور زیر زمین پانی بھی خراب نہ ہو عوامی آگاہی مہم چلانی ہو گی کہ پینے کے پانی کو کس طرح قابل استعمال بنایا جا سکتا ہے۔ اور کیسے پانی کے ضیاع کو روکا جا سکتا ہے۔

درخت ہمارے ماحول میں کس طرح اثر انداز ہوتے ہیں پبلک ٹرانسپورٹ کو بہتر کر کے انفرادی ذرائع آمدورفت میں کمی لاکر فضائی آلودگی کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے لوگوں کی ذاتی دلچسپی کے بغیر ماحول کو بہتر نہیں کیا جا سکتا ذہنی اور جسمانی طور پر صحت مند معاشرہ ہی ترقی کر سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).