تحریک انصاف اور مڈل پاس ایٹمی سائنس دانوں سے نجات کی دعا


آئیے ایک ایسے فرد سے ملتے ہیں جو آٹھویں پاس ہے۔ اُس نے آٹھویں پاس تک کی کتابوں میں ایٹم بم کا ابتدائی فارمولا E=mc² پڑھا ہے۔ ایک دوسرے فرد کو ملتے ہیں۔ وہ بھی آٹھویں پاس ہے۔ اُس نے آٹھویں پاس کی کتابوں میں راکٹ سائنس کے بارے میں ابتدائی چند سطریں پڑھ رکھی ہیں۔ ایک تیسرے آٹھویں پاس فرد کو ملتے ہیں۔ اُس نے آٹھویں پاس کی کتابوں میں پڑھا تھا کہ پانی میں سے بجلی گزاری جائے تو آکسیجن اور ہائیڈروجن کو علیحدہ کیا جاسکتا ہے۔

ایک چوتھے آٹھویں پاس فرد کو بھی مل لیتے ہیں جس نے آٹھویں پاس کی کتابوں میں پڑھا تھا کہ ٹیکس دینے سے معیشت بہتر ہوتی ہے۔ چلئے اب اِن چاروں افراد کی آٹھویں پاس تعلیم کے مطابق اُن کے فرضی عملی تجربات کے مظاہروں کا نتیجہ بھی دیکھ لیتے ہیں۔ پہلے فرد نے ایٹم بم کے فارمولے کو سامنے رکھ لیا لیکن اسے کچھ سمجھ نہ آئی کہ E سے کیا مراد ہے اور اس سے کیسے توانائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ لہٰذا وہ اس سادہ فارمولے کو یاد کرنے اور باربار دہرانے کے علاوہ کوئی کامیابی حاصل نہ کرسکا۔

دوسرے فرد نے راکٹ کے حوالے سے یہ پڑھا تھا کہ راکٹ توانائی کو جتنی تیزی سے خارج کرے گا، اُتنی تیزی سے خلا کی طرف جائے گا۔ اس آٹھویں پاس فرد کو بھی محض بار بار الفاظ پڑھنے کے علاوہ کچھ سمجھ نہ آئی۔ تیسرے فرد نے اپنے آٹھویں پاس علم کے مطابق پانی کی بھری بالٹی میں بجلی کی تار کے ذریعے کرنٹ چھوڑ کر آکسیجن اور ہائیڈروجن کو علیحدہ کرنے کی کوشش کی لیکن جان لیوا خطرناک نتائج سے بال بال بچ گیا۔ اُسے کیا پتا تھا کہ پانی میں سے آکسیجن اور ہائیڈروجن کو تجربہ گاہوں میں بہت پیچیدہ عمل کے بعد علیحدہ کیا جاتا ہے۔

معیشت دان ہونے کا دعوے دار چوتھا آٹھویں پاس فرد یہ تو پڑھ چکا تھا کہ ٹیکس کے بہتر نظام سے معیشت بہتر ہوتی ہے لیکن ٹیکس وصول کرنے اور اس میں شفافیت رکھنے کے علم سے نابلد تھا۔ اوپر لکھی گئی روزمرہ زندگی کی چاروں سادہ مثالوں کا مقصد یہی ہے کہ بہت سادہ بات کا عملی مظاہرہ بہت مشکل اور بہت پیچیدہ ہوتا ہے۔ اچھے سائنس دان اور معیشت دان وغیرہ بننے کے لیے برسوں کی محنت اور دنیا بھر کی اعلیٰ تعلیم کے بعد لمبا عملی تجربہ بھی درکار ہوتا ہے۔

یہی بات حکومت کو چلانے کے لیے بھی ضروری ہوتی ہے۔ بہترین حکومت کا وعدہ کرنا ایک علیحدہ بات ہے اور بہترین حکمران ثابت ہونا ایک دوسری بات ہے۔ عمران خان نے حکومت میں آنے سے پہلے فلاح و بہبود کے جو خواب دکھا ئے تھے وہ اوپر دی گئی چاروں آٹھویں پاس افراد کی مثالوں سے مطابقت رکھتے ہیں۔ یعنی عمران خان نے اچھی حکومت کی سادہ سادہ کتابی باتیں ضرور پڑھی ہوں گی لیکن ان پر عملی کامیابی کیونکر ممکن ہوسکتی ہے یہ نہیں سوچا تھا۔

مثلاً 2018 ء کے انتخابات میں کامیابی کے لیے تحریک انصاف نے گیارہ نکاتی منشور پیش کیا جوکہ یہ تھے۔ ( 1 قوم کو ایک بنانے کے لیے ایک تعلیمی نصاب لائیں گے۔ ( 2 عوام کے لیے ہیلتھ انشورنس لائیں گے۔ ( 3 ٹیکس وصولی سسٹم ٹھیک کریں گے۔ ایف بی آر میں بہتری لائیں گے۔ ( 4 نیب کو مضبوط کرکے کرپشن کا خاتمہ کریں گے۔ ( 5 سرمایہ کاری میں اضافہ کریں گے۔ ( 6 لوگوں کو روزگار اور پچاس لاکھ سستے گھر دیں گے۔

( 7 پاکستان کو ٹورازم کا حب بنادیں گے جس کے ذریعے بیروزگاری ختم ہوگی۔ ( 8 شعبہ زراعت میں اصلاحات لائیں گے تاکہ کسان کی حالت بہتر ہو۔ ( 9 وفاق کو مضبوط اور صوبوں کو حقوق دیں گے۔ جنوبی پنجاب کو نیا صوبہ بنائیں گے۔ ( 10 ماحولیات کا سسٹم بہتر کریں گے۔ پاکستان بھر میں دس ارب درخت لگائیں گے۔ ( 11 انصاف اور پولیس کا نظام بہتر کریں گے۔ مندرجہ بالا گیارہ نکات کا جائزہ سینئر صحافیوں کی درج ذیل آراء سے لیتے ہیں۔

بی بی سی کے عابد حسین کی ایک رپورٹ کے مطابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے کہا کہ ان کی جماعت کی سب سے زیادہ مقبولیت پاکستان کے متوسط طبقے میں تھی اور انہی کی حمایت کی مدد سے پی ٹی آئی اقتدار میں آئی مگر پی ٹی آئی مڈل کلاس کو کوئی سہولت نہ دے سکی۔ ایک اور شعبہ جہاں پی ٹی آئی کی حکومت اپنے اہداف مکمل نہ کرسکی وہ سرکاری اداروں میں اصلاحات کا ہے۔ عزیر یونس کے مطابق پی ٹی آئی حکومت کی سب سے بڑی ناکامی اقتدار میں بغیر تیاری آجانا تھا۔

ایک ایسی پارٹی جو اقتدار میں آنے کے لیے پانچ سال سے پرتول رہی تھی، ان کو نہ صرف اقتدار کی خواہش تھی بلکہ انہیں انتخابات میں اپنی کامیابی پر یقین بھی تھا، انہوں نے کوئی تیاری ہی نہیں کی تھی۔ اسد عمر کی مثال سامنے ہے۔ ان کے بارے میں سب کو علم تھا کہ وہ وزیر خزانہ بنیں گے لیکن ان کا منصوبہ کیا تھا؟ گزشتہ ڈیڑھ برس کے دوران مہنگائی میں کافی اضافہ ہوا ہے اور کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے کا براہ راست اثر سب سے زیادہ غریب اور مڈل کلاس طبقے پر ہوا۔

حکومت نے ٹیکس کی مد میں آمدنی کی بات تو بہت کی لیکن سٹیٹ بینک رپورٹ کے مطابق کوئی بہتری نظر نہیں آئی۔ شاہ رخ وانی نے پی ٹی آئی کی حکومت کی ناکامیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ا س حکومت کو متعدد شعبوں میں چیلنجز کا سامنا ہوا ہے۔ سول سروس یعنی بیوروکریسی میں اصلاحات لانا، تعلیم و تحقیق کے شعبے میں سرمایہ کاری کرنا اور کاروبار کرنے والوں کے لیے سودمند ماحول فراہم کرنا اب تک کی کامیابیاں ہونی چاہئیں تھیں لیکن موجودہ حالات دیکھ کر لگتا ہے کہ حکومت کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہے۔

رضا رومی نے کہا کہ پی ٹی آئی حکومت کی یہ ایک بڑی خامی رہی ہے کہ وہ اقتدار میں آکر بھی انتخابات سے پہلے کا بیانیہ چلارہی ہے اور پی ٹی آئی والے حکومت میں ہوتے ہوئے بھی اپوزیشن جیسی باتیں کرتے ہیں۔ اس سے محسوس ہوتا ہے کہ وہ حکومتی امور پر سنجیدہ نہیں ہیں۔ ریما عمر کے نزدیک اس حکومت کی سب سے بڑی ناکامی عوام کے حقوق، بالخصوص آزادی اظہار رائے کو سلب کرنا ہے۔ ان کے مطابق گھٹن کا یہ ماحول اتنا زیادہ ہے کہ پی ٹی آئی کے سخت ترین ناقدین نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ پی ٹی آئی کے اقتدار میں آنے کے بعد یہ حالات ہوں گے۔

مندرجہ بالا باتوں کے علاوہ پی ٹی آئی کے دعوؤں میں میرٹ پر تقرریاں، کرپشن کا خاتمہ، کرپشن کی اطلاع دینے والوں کو تحفظ دینا اور یکساں انصاف بھی شامل تھے لیکن لوگ پی ٹی آئی کے اِن گیارہ نکاتی دعوؤں کو بھول کر ڈیڑھ برس کے بعد ہی صرف ایک روٹی کے حصول کی جدوجہد تک محدود ہوتے جارہے ہیں۔ روک سکو تو روک لو، اب روٹی بھی گئی رے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments