انسانیت کا عالمی اور ملکی المیہ


گلوبل ویلج میں کسی ملک کا ایک واقعہ ایک عالمگیر معاملے کے طور پر سامنے آتا ہے۔ عام لوگ خبروں، مضامین سے اتنے متاثر نہیں ہوتے لیکن تصویر یا وڈیو سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لیتی ہے۔ سمندر میں ڈوب کر ہلاک ہونے والے ایک شامی مہاجر بچے کی لاش کی تصویر نے دنیا کو متوجہ کیا۔ اس واقعہ پر ترکی نے شامی مہاجرین کے لئے اپنے ملک کے دروازے کھول دیے۔ حال ہی میں امریکہ میں ایک پولیس اہلکار نے ایک سیاہ فام ادھیڑ عمر کے شخص کو زمین پر گرا کر اس کی گردن کو اپنے گھٹنے سے دبا کر ہلاک کر دیا۔

وہ آدمی چلاتا رہا کہ میرا سانس رک رہا ہے لیکن اس کی موت تک پولیس اہلکار نے کوئی پرواہ نہ کی۔ اس واقعہ سے امریکہ میں ہنگاموں، عوامی مظاہروں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا جس سے امریکہ میں حالات قابو سے باہر ہونے لگے اور امریکہ کی سیاست پر بھی اس کے گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ہندوستان میں انتہا پسند ہندوؤں کے ہجوم کے ہاتھوں نہتے انسان کو تشدد کر کے ہلاک کرنے کے متعدد واقعات کی کئی وڈیوز، تصاویر سامنے آئیں لیکن ان سے عالمی ضمیر متاثر ہوتے نظر نہیں آیا۔ اسرائیلی فوجیوں کے ہاتھوں معصوم بچوں پر بہیمانہ تشدد اور انہیں بے دردی سے ہلاک کرنے کی کئی تصاویر، وڈیوز سامنے آتی رہتی ہیں لیکن عالمی طاقتوں کی اجارہ داری والی دنیا میں اس کا کوئی خاص نوٹس نہیں لیا جاتا۔

یکم جولائی کو ہندوستانی مقبوضہ کشمیر کے سوپور علاقے میں ایک بزرگ کو ہندوستانی فورسز نے ان کی کار سے اتار کر فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا۔ اس بزرگ کے ساتھ ان کا تین سال کا نواسہ بھی تھا۔ اس موقع پر بننے والی تصاویر اور وڈیو سوشل میڈیا پہ وائرل ہوئیں اور ہر انسان نے اس ظلم کی محسوس کرتے ہوئے اس کی مذمت کی۔ بھارتی فوجی تین سال کے بچے کو اس کے نانا کی لاش پہ بٹھا کر اس کی تصویریں بناتے رہے۔ ایک تصویر میں دیکھا گیا کہ تین سالہ بچہ ہاتھ میں پتھر اٹھائے اپنے نانا کی لاش کے قریب ہی ایک دیوار کے ساتھ بیٹھے انڈین فوجی کی طرف بڑھ رہا ہے۔

بھارتی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں شہریوں کی ہلاکت کا یہ پہلا اور آخری واقعہ نہیں ہے۔ گزشتہ تیس سال سے مقبوضہ کشمیر میں اس طرح کے واقعات معمول بن چکے ہیں۔ تاہم تین سالہ بچے کی وڈیو اور تصاویر نے ہر حساس انسان کے دل کو زخمی کر دیا اور اس ظلم کے دکھ کو وسیع پیمانے پر محسوس کیا جا رہا ہے۔

یوں ایک طرف دنیا میں ظلم کے کئی واقعات پر عالمی سطح پر ردعمل سامنے آتا ہے اور دوسری طرف ملکوں کے اندر انسانوں، شہریوں کے درمیان بیگانگی، لاتعلقی کا اظہار بھی نمایاں ہوتا جا رہا ہے۔ ہم اپنے ملک پاکستان کو ہی دیکھیں، ہم ملکی، صوبائی، علاقائی، مقامی سطح پر بھی ایک دوسرے کے مسائل و مشکلات سے لاتعلق ہو چکے ہیں۔ سندھ کے لوگوں کو کیا مسائل شدت سے درپیش ہیں، ’کے پی کے‘ میں لوگوں کی تشویش کس بات پہ ہے؟ بلوچستان کے لوگوں میں کیا آگ لگی ہوئی ہے، پنجاب میں کیا مسائل و معاملات ہیں، کسی صوبے کے لوگوں کو دوسرے صوبے کے لوگوں کی پریشانی، مصیبت، تشویش کی کوئی فکر نہیں ہے، اس پر توجہ ہی نہیں ہے۔ عوام کی تقسیم کے عشروں کے چلن نے آج ہمیں یوں ایک دوسرے سے بیگانہ کر دیا ہے۔

ملک میں ایسی شخصیات ناپید ہیں جو سمجھتے ہیں کہ صوبوں میں مسائل کی نوعیت الگ ہو سکتی ہے لیکن تمام ملک کو ، ہر شعبے، ہر سطح پہ ناقابل تلافی نقصانات سے دوچار کرنے کی وجوہات کا منبع ایک ہی ہے اور وہ ہے ملک پہ قائم غاصبانہ حاکمیت، جس کی شہریوں کو تابعدار رکھنے کے لئے سختی کی پالیسی سے عوام کی نسلیں ہی نہیں بلکہ ملک بھی نڈھال ہو چکا ہے۔

میں کیوں خود کو برتر شہری اور کسی دوسرے صوبے، علاقے، سوچ کے شہری کو کمتر حقوق کے قابل سمجھتا ہوں؟ کیا ہمیں اپنی ہی جڑیں کاٹنے میں مزہ آتا ہے؟ لطف ملتا ہے؟ سرشاری حاصل ہوتی ہے؟ دین اور دنیا دونوں سنور جاتے ہیں؟ ہم مکمل انسان نہ معلوم کب بنیں لیکن کیا ہم خود اپنے وجود کو زخمی کرنے، نقصان پہنچانے کی وحشت سے نجات پا سکیں گے؟

زمانہ شناس اس پر کہتے ہیں کہ اس کا فیصلہ وقت کرے گا۔ فیصلہ وقت ہی کرتا ہے، جو وقت گزر رہا ہے، جو وقت گزر گیا ہے، جو گزرے وقت میں کیا گیا ہے اور جو اب گزرتے وقت میں کیا جا رہا ہے، اس کے نتائج منطقی ہی نکلتے ہیں، غیر منطقی نہیں۔ لیکن عوام کو غیر منطقی نتائج کے سہانے سپنے دکھائے جاتے ہیں کہ اچانک ایسا ہو جائے گا جس سے ہمارے لئے اس طرح ہو جائے گا اور پھر ہمارا بھلا ہی بھلا ہو جائے گا۔ محدود عقل کے حامل جانور بھی سامنے نظر آنے والے کھڈے، کھائی کو دیکھ لیتے ہیں، کیا ہمیں نظر نہیں آ رہا کہ پاکستان اور اس کے عوام کو نامرادی کے بعد تباہی اور بربادی کی کس پاتال میں دھکیلا جا رہا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments