کچھ لکھاری اداسی کے موسم میں مجھے بلاتے ہیں


An Unecessary Woman is Rabih Alameddine’s fourth novel.

آگ کے دریا کے کنارے بیٹھی آنسو بہاتی عینی آپا ہیں۔ زندگی کے خالی پن کی وجودی کیفیت کو محسوس کرواتا جاپان کا موراکامی ہے۔ لفظوں سے گمشدہ ماضی کی تصویریں بناتا ترکی کا اورحان پامک ہے۔ مٹتی ہوئی منتشر یادوں، باتوں، اور خوابوں سے اپنی انسانی پہچان برقرار رکھنے کی کوشش میں چیک ریپبلک کا میلان کنڈیرا ہے۔ غلام معاشرے کی ٹریجک کامک صورتحال بیان کرتے مرزا اطہر بیگ ہیں۔ نظریوں کے ٹوکوں سے ادھڑی لاشوں میں زندگی تلاش کرتا چین سے یو ہوا ہے۔

تاریخی جبر کو خاموشی سے سہتے ہوؤں کے درد کو محسوس کرتا ساؤتھ افریقہ جے ایم کوئٹزے ہے۔ روایت اور جدت، غم اور خوشی، زندگی اور موت کے بیچ پل صراط پر ڈولتے ہوؤں کے ایک ایک پل کو دکھاتا انڈیا سے روہن مسٹری ہے۔ خوبصورتی کی تلاش میں نکلنے مگر پھر منہ پر راکھ مل کر لوٹنے والے مستنصر حسین تارڑ ہیں، جو وقت کے بہاؤ سے اڑتی چار مرغابیوں کا خوشی سے کوئی تعلق محسوس نہیں کر پاتے۔ اور لبنان کی تباہ حال گلیوں میں الف لیلہ کے کردار ڈھونڈتا ربیح الامیدین ہے۔

ربیح الامیدین کا ناول An Unnecessary Woman ”“ خانہ جنگی سے تباہ حال بیروت شہر میں کتابوں کی آغوش میں پناہ لینے والی عالیہ سہبی کی زندگی کی دل گداز تصویر دکھاتا ہے۔ بہتر سالہ عالیہ کو اپنے بارے میں کوئی خوش گمانی نہیں وہ کہتی ہے۔

”میں بے وقعت ہوں اور ہمیشہ بے وقعت ہی رہوں گی، حتیٰ کہ میرے اندر کچھ ہونے کی خواہش بھی نہیں۔

جوانی میں خانہ آبادی کے مختصر مگر تلخ تجربے کے بعد عالیہ نے تنہائی سے رشتہ مستقل رشتہ جوڑ لیا۔ جب باہر زندگی ناقابل برداشت ہوئی اور لوگ اسے مطلقہ، بے اولاد، بے دین اور جانے کن کن ناموں سے پکارنے لگے تو اس نے کتابوں کی تصوراتی دنیا میں پناہ لے لی۔

” ادب نے مجھے زندگی دی جبکہ زندگی نے مارا، خیر زندگی سب کو ہی مار دیتی ہے“

رفتہ رفتہ کتابوں کی تصوراتی دنیا عالیہ کے لیے حقیقی سے زیادہ حقیقی بنتی گئی۔ اس نے اپنی زندگی اور ارد گرد کی دنیا کو سمجھنے کی ہر کوشش کو چھوڑ کر ادب کے کرداروں کے ساتھ جینا شروع کر دیا۔ وہ کہنے لگی میں بے وقعت ہوں مگر میرے اندر دنیا بھر کے خواب ہیں۔

”کائنات کی لامحدودیت کے مقابل میری حقیر زندگی کو کوئی چیز معنی دیتی ہے تو وہ ادب ہے“

” خوشی دراصل خوشی کی توقع ہے۔ کسی اچھی کتاب کو پہلی بار پڑھنا کا لطف روزہ افطار کرتے مالٹے کے جوس کے پہلے سپ جیسا ہوتا ہے“

اس نے پڑھنے کے ساتھ ساتھ ناولوں کا عربی ترجمہ بھی شروع کر دیا۔ ہر سال نیو ائر نائٹ پر وہ اپنے کسی پسندیدہ ناول کا چناؤ کر کے پورا سال اس کا ترجمہ کرنے میں گزارتی۔ مکمل ہونے پر وہ اسے ایک باکس میں بند کر کے رکھ دیتی۔

”میرے خیال سے سب کو ادب کے لیے ہی زندہ رہنا چاہیے“

سینتیس سال میں باکس اعلی ادب کے سینتیس ایسے تراجم سے بھر گیا جنھیں کسی دوسرے شخص نے نہیں پڑھا، اور شاید کبھی کوئی پڑھے گا بھی نہیں۔

گزرتے ماہ و سال کے ساتھ کتابوں سے ملنے والی تسکین کم سے کم ہونے لگی۔

”میں خود کو بچکانہ خیالوں سے بہلاتی ہوں کہ کتابیں وہ فضا ہیں جہاں میں سانس لیتی ہوں۔ یا ادب کے بنا زندگی بے معنی ہے۔ مگر یہ سب زندگی کو سمجھ نہ پانے کی حقیقت سے نظریں چرانے کی ناکام کوشش ہے“

”مشاہیر ادب و فلسفہ نے میرے ذہن کی آبیاری کی، مگر اس سے میری زندگی میں کیا تبدیلی آئی؟ میں تو اس بے مروت کائنات میں ریت کے بے معنی زرے جیسی ہی رہی“

ناول کے آخر میں عالیہ کو آگہی ہوتی ہے کہ زندہ رہنے کے لیے انسان کا مسلسل خود فریبی کا شکار رہنا بہت ضروری ہے۔ جب انسان پر اپنی وجودی کیفیت ( بے معنویت اور خالی پن ) کی برہنگی کھل کر واضح ہو جائے تو زندہ رہنا ناممکن ہوجاتا ہے۔

میٹھی اداسی کی دھنوں سے روشناس کرتا یہ ناول درحقیقت اعلی ادب کے نام محبت نامہ بھی ہے۔ عالیہ کا اپنی زندگی کی وجودی کیفیت کے بارے میں اٹھنے والا ہر خیال ہمیں کسی نہ کسی بڑے ادیب ( سی بالڈ، کیلوینو، کونرڈ، نوبوکو، ڈکنز، گارشیا مارکیز، ٹالسٹائی، ڈی سادی، بیکٹ، ساراماگا جوزے، رلکے، کوٹزے، فالکنر، بورخیز، کاموس، گوگول وغیرہ) کے شاہکار سے روشناس کرواتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).