شمالی وزیرستان: میر علی میں فائرنگ سے ہلاک ہونے والی دو بہنیں کون تھیں؟


تعزیت

’ہماری بہنیں تو ہماری جان تھیں، گھر میں ان کی وجہ سے رونق رہتی تھی، لیکن ایک صبح وہ تیار ہو کر گھر سے روزگار کے لیے گئیں اور پھر گھر والوں کو ان کی ایسی لاشیں ملیں جن میں کسی کی آنکھ نہیں تھی تو کسی کا سر نہیں تھا۔‘

بھرائی ہوئی آواز میں جاوید خان نے اس دن کا ذکر کیا جب شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی میں نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے چار خواتین کو ہلاک کر دیا تھا جن میں ان کی دو بہنیں عائشہ بی بی اور ارشاد بی بی بھی شامل تھیں۔

عائشہ بی بی شادی شدہ تھیں اور ان کی چار ماہ کی بچی بھی تھی۔

خیبرپختونخوا کے جنوبی ضلع بنوں کے مضافات میں رہائش پزیر اس خاندان کے بیشتر افراد مزدوری کرتے ہیں۔ ان لڑکیوں کے والد ہتھ ریڑھیاں بنانے کا کام کرتے ہیں جبکہ تین بھائی محنت مزدوری کرتے ہیں جبکہ جاوید خان الیکٹرانکس کے مکینک ہے۔

یہ بھی پڑھیے

شمالی وزیرستان: فائرنگ کے واقعے میں ہلاک ہونے والی چار خواتین کون تھیں؟

خیبر پختونخوا: خواتین کے ووٹ ڈالنے کی شرح پر سوالات

سپریم کورٹ: جیلوں میں خواتین قیدیوں کو بہتر سہولیات کی فراہمی کا حکم

افغانستان: پاکستانی ویزے کے لیے جمع ہجوم میں بھگڈر، کم از کم گیارہ خواتین ہلاک

مشترکہ خاندانی نظام کے تحت ایک گھر میں رہنے والے ان افراد کی کل تعداد 22 ہے۔ جاوید خان نے بتایا کہ ان کی اپنی چھ بہنیں تھیں اور چار بھائی ہیں۔ دو بہنیں اس واقعہ میں جان گنوا بیٹھیں۔ ان کے چچا کے بھی اتنے ہی بچے ہیں لیکن ان میں دو بیٹے اور چار بیٹیاں قوت سماعت اور قوت گویائی سے محروم ہیں۔

جاوید خان نے بتایا ’میری بہنیں عبادت گزار تھیں، اپنے ان معذور کزنز کا خیال رکھتی تھیں ان کے ساتھ ہنسی مذاق کرتی تھیں اور اب جب ان کی بہنیں نہیں رہیں وہی کزنز ان کے غم میں نڈھال ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ سب افراد اتفاق سے رہتے ہیں اور چچا کے بچوں کے ساتھ ان کا تعلق بہت اچھا ہے۔ جاوید خان نے بتایا کہ ان کے گھرانے میں جو چھ افراد بول اور سن نہیں سکتے اس لیے ان سے اشاروں سے بات چیت ہوتی اور گھرانے کے تمام افراد اشاروں کی زبان میں باتیں کر سکتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں۔ میری بہنیں ان کزنز سے بہت پیار کرتی تھیں جو بول اور سن نہیں سکتے تھے۔

تعزیت

بھائی کو بہنوں کی لاشیں کیسے ملیں؟

جاوید خان نے بتایا کہ منگل کو صبح کے وقت معمول کا دن تھا۔ ان کی بہن ارشاد بی بی نے فجر کی نماز پڑھی تلاوت کی اور سب گھر والوں کے لیے ناشتہ تیار کر کے لائیں۔ کام پر جانے سے پہلے اپنی انگلی میں ذکر کے لیے کاؤنٹر ساتھ ضرور رکھتی تھیں، اس دن بھی انگلی میں تسبیح کی جگہ کاؤنٹر لیا اور روانہ ہو گئیں۔

چند گھنٹوں کے بعد انھیں اطلاع ملی کہ ان کی بہنوں کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا ہے تو وہ اپنے والد کے ساتھ میر علی روانہ ہوئے۔ راستے میں کسی نے اطلاع دی کہ یہ حادثہ نہیں بلکہ ان پر فائرنگ ہوئی ہے، یہ سننا تھا کہ ان کے اوسان خطا ہو گئے۔ میر علی پہنچنے میں ایک گھنٹے کا وقت لگ جاتا ہے لیکن اس دن یہ ایک گھنٹہ نہیں گزر رہا تھا۔

وہ جب میر علی پہنچے تو بہنوں کی لاشیں دیکھ کر ان کی چیخ نکل گئی۔ ’وہ حجاب کی پابند، بے پردہ پڑی تھیں، کسی بہن کا مکمل سر نہیں تھا تو دوسری کی آنکھیں نہیں تھیں۔ یہ منظر ایسا تھا کہ میں بیان نہیں کر سکتا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد لاشوں کے پوسٹ مارٹم کا سلسلہ چلا لیکن نہ تو میرعلی اور نہ ہی بنوں میں کوئی خاتون ڈاکٹر موجود تھیں جو پوسٹ مارٹم کرتیں اور یہ سلسلہ شام تک چلتا رہا۔ مشکل سے انھیں لاشیں ملیں جنھیں وہ گھر لے کر گئے۔

جاوید خان نے بتایا کہ ’ایک بڑا مسئلہ والدہ کو اطلاع دینے کا تھا اور بڑی دیر تک تو ان سے یہ خفیہ رکھا گیا لیکن جب والدہ کو علم ہوا اس کے بعد سے والدہ کی ذہنی حالت صحیح نہیں ہے۔ وہ کبھی کچھ کہتی ہیں اور کبھی کچھ، ان کی حالت اب تک ویسی ہی ہے۔‘

حادثے کے بعد ان خواتین سے غیر سرکاری ادارے لاتعلق کیوں؟

شمالی وزیرستان کے ضلعی پولیس افسر کی جانب سے سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق یہ خواتین ایک غیر سرکاری ادارے یا این جی او سباؤن کے ساتھ وابستہ تھیں لیکن اس بارے میں اس ادارے نے ایک بیان جاری کیا اور کہا کہ ان خواتین کا تعلق ان کے ادارے سے نہیں ہے۔

اس ادارے کے فوکل پرسن ذوالقرنین سے جب اس واقعہ کے بارے میں پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے ضلع پولیس افسر کو بھی بتایا دیا ہے کہ ان خواتین کا تعلق ان کے ادارے سے نہیں تھا۔ سباؤن ادارے نے ایک بیان میں ان خواتین کو براوو کالج کی خواتین اہلکار کہا ہے اور اس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

اس بارے میں سباؤن اور براوو کالج کے درمیان طے پائے جانے والے معاہدے کی مبینہ کاپی بھی سامنے آئی ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ سباؤن نے ایک جرمن ادارے کے پارٹنر کے طور پر یہ کوشش کی ہے کہ میر علی تحصیل میں افراد کو ہنر مند بنانے اور ان کے طرز زندگی بہتر کرنے کے لیے انھیں سہولیات فراہم کی جائیں۔ اس کے لیے مقامی 140 افراد کو ہنر مند بنایا جائے گا۔

اس بارے میں جب مقامی سطح پر بنوں میں ایک مقامی امدادی ادارے شیگڑہ (پشتو زبان کا لفظ جس کا مطلب بھلائی ہے) سے تعلق رکھنے والے عہدیدار ولی داد سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ان سے براوو کالج کے عہدیداروں نے رابطہ کیا تھا اور کہا تھا کہ انھیں ڈپلومہ ہولڈر ہنر مند خواتین چاہییں جو میر علی میں خواتین کو تربیت فراہم کر سکیں۔

انھوں نے کہا کہ اس کے لیے انھوں نے مقامی ووکیشنل ٹریننگ کالج کی پرنسپل سے رابطہ کیا تو انھوں نے کوئی 22 ایسی تربیت یافتہ خواتین کی فہرست فراہم کی جنھوں نے ان کے کالج سے ڈپلومہ حاصل کیا تھا۔

خواتین

بدھ کو پشاور میں فیمنسٹ فرائیڈے کے نام سے قائم نیٹ ورک میں شامل خواتین نے پشاور پریس کلب کے سامنے اس واقعے کے خلاف احتجاج کیا

ولی داد کے مطابق ان تمام خواتین کے ٹیسٹ سباؤن کے دفتر میں ہوئے جس میں ان پانچ خواتین کی سیلیکشن ہوئی تھی۔ انھوں نے کہا کہ ان کے ساتھ یہ طے ہوا تھا کہ یہ 48 دنوں کا پراجیکٹ ہے اور اس میں ایک ہزار روپے روزانہ کے حساب سے انھیں معاوضہ دیا جائے گا جبکہ انھیں گھر سے لے جانے اور واپس گھر تک پہنچانے کے لیے گاڑی فراہم کی جائِے گی۔

یہ پراجیکٹ 24 فروری کو مکمل ہونا تھا لیکن اس پراجیکٹ کے ختم ہونے سے چند روز پہلے ہی ان خواتین کی زندگی ختم کر دی گئی جو اپنے گھر والوں کے لیے دو وقت کی روٹی کمانے جاتی تھیں۔

حکومت کیا کر رہی ہے اور لوگ کیا کہتے ہیں؟

اس واقعہ کے بعد گذشتہ روز میر علی میں پولیس اور سکیورٹی اہلکاروں نے ایک کارروائی میں شدت پسندوں کی ایک تنظیم سے منسلک شدت پسند حسن المعروف سجنا کو ہلاک کر دیا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا دعویٰ ہے کہ مذکورہ شدت پسند میر علی میں ان چار خواتین پر حملے کا ماسٹر مائنڈ تھا۔

شمالی اور جنوبی وزیرستان میں تشدد کے واقعات میں ایک مرتبہ پھر اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ ایسے واقعات معمول سے رپورٹ ہو رہے ہیں جس میں عام شہریوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ سکیورٹی اہلکاروں پر بھی حملے ہوئے ہیں۔ ان حملوں کے جواب میں سکیورٹی اہلکاروں نے بھی جوابی کارروائیاں اور مشتبہ مقامات پر چھاپے مارے ہیں اور دعوے کیے ہیں کہ ان کارروائیوں میں شدت پسندوں کے اہم اراکین مارے جا چکے ہیں۔

اس کے علاوہ مقامی سطح پر اس واقعے کے بعد خوف پایا جاتا ہے۔ بدھ کو پشاور میں فیمنسٹ فرائیڈے کے نام سے قائم نیٹ ورک میں شامل خواتین نے پشاور پریس کلب کے سامنے اس واقعے کے خلاف احتجاج کیا ہے۔

اس احتجاج میں سیاہ رنگ کے پلے کارڈز پر لکھا گیا تھا کہ ’خواتین گھر کا چولہا جلاتی ہیں انھیں جنگ کا ایندھن نہ بنائیں۔‘ اس مظاہرے میں کوئی زیادہ خواتین شامل نہیں تھیں لیکن ان کا کہنا تھا کہ جب اس واقعے کے بعد ہر طرف خاموشی تھی تو ایسے میں خواتین کو ہی باہر نکلنا پڑا۔

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32562 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp